نئے ڈرامے کی پہلی قسط
جو چل رہا ہے تھیٹر پر، میڈیا و سینما ہاؤسز میں۔ کھڑکی توڑ نمائش جاری ہے۔
جو چل رہا ہے تھیٹر پر، میڈیا و سینما ہاؤسز میں۔ کھڑکی توڑ نمائش جاری ہے۔ ایکشن سے بھرپور، مار دھاڑ سے معمور۔ ناظرین اس میں سب کچھ ہے۔ محبت، نفرت، دشمنی، دوستی، طاقت، کمزوری، ظلم، جبر، دو گھوڑوں کی دوڑ، دو ملکوں میں فلمایا ہوا۔ آنسو ہیں، آہیں بھی، دن بھی ہیں، راتیں بھی۔ آپ کو سب کچھ ملے گا۔ 35 برسوں کی کہانی، روایت اور ہجرت کی نشانی۔ بزرگوں کی قربانی میں اولاد کی پریشانی۔ قیادت کا کیا وہ تو آنی جانی ہے۔ سیاست کی رسم ہر حال میں نبھانی ہے۔ پتنگ کٹ گئی، قوم بٹ گئی۔ آندھی اٹھی تھی، شاید چھٹ گئی۔ کون اپنا ہے فیصلہ ہوگا۔ جو پرایا ہے فاصلہ ہوگا۔ بوجھ مت ڈالو ٹوٹ جائے گا۔ 4 دن دے دو لوٹ آئے گا۔ یہ تماشا ہے ایک طبقے کا۔ یہ تراشا ہے ایک مسئلے کا۔ غور سے سننا اس سے آگے کا۔ کچھ ادھر آئے، تھوڑا شرمائے۔ پہلے پہلے کچھ وہ بھی گھبرائے، کل جو راہزن تھے آج رہبر ہیں اور جو رہبر تھے آج ابتر ہیں۔
قارئین کرام! اس نظمیہ گفتگو کو پڑھ کر آپ یقیناً میرے موضوع کے بارے میں جان گئے ہوں گے۔ میں نے اپنی تحریر کا عنوان ''نئے ڈرامے کی پہلی قسط'' بہت سوچ سمجھ کر رکھا، کیونکہ الطاف حسین کا انتہائی متنازعہ بیان جس میں ملک و اداروں کو برا بھلا کہا گیا، کسی ڈرامے سے کم نہیں۔ یہ ملک کے دستور سے مکمل انحراف تو ہے ہی لیکن ان 20 کروڑ لوگوں کی توہین بھی ہے جو پاکستان پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ یہ ہجرت کرنے والے ان لاکھوں شہدا کی ارواح کے ساتھ ایسا بھونڈا مذاق ہے جس پر وہ تڑپ گئی ہوں گی۔ ان کی اولاد کو ایسی اندھی کھائی میں دھکیلنے کی سازش ہے جس سے وہ کبھی باہر نہ آسکیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر، حکومت و سیاسی بازی گروں پر جو کہہ رہے ہیں انھیں مہلت دی جائے، موقع دیا جائے۔
میرے نقطہ نظر سے اس وقت اردو بولنے والے سندھی بڑی مشکل کا شکار ہیں۔ جس پودے کی آبیاری انھوں نے 35 سال کی، اپنا لہو دے کر اسے سینچا، سرد و گرم موسموں میں اس کی حفاظت کی، ایک شخص کی غلطی سے وہ خس و خاشاک ہوگیا۔ آج دیکھو تو اس کی جڑ تک نہ رہی۔ وہ پودا جل گیا۔ ان کی امیدوں کا باغ مرجھا گیا یا کہیے کہ اس وقت تو اس میں بو ہے نہ باس۔ ایسا کیوں ہوا؟
الطاف حسین کا یہ بیان کیا محض مدہوشی کے سبب تھا، یا اس کا کوئی مربوط پس منظر ہے۔ کیونکہ اگلے دو دن بھی ان کے بیانات 22 اگست کا تسلسل تھے۔ وہی زہریلی گفتگو جس کا نہ سر نہ پیر۔ ایک تو سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ اپنے تئیں اس قوم کے اس وقت سے رہنما کیونکر بن گئے جب تقسیم بھی نہیں ہوئی تھی۔ میرے کہنے کا مطلب ہے وہ مہاجرین جو اب دنیا میں نہیں وہ ان کے بھی قائد بن بیٹھے۔ ان کی تقاریر سن کر محسوس ہوتا ہے اس قوم کے قبلہ، کعبہ، آقا، سرپرست صرف وہی ہیں اور سیکڑوں برس سے جب ابھی وہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
ایک اور اہم سوال نے بھی جنم لیا، انھوں نے 22 اگست کو ایک متنازعہ تقریر کی جس کے بعد وہ آگ لگی جو آج تک نہ بجھ پائی۔ اس کے صرف دو دن بعد ان کی جماعت کے کم ازکم تین میئر الیکشن میں منتخب ہونے جارہے تھے۔ کیا انھیں احساس نہیں تھا کہ ملک و ملت کے خلاف ان کی ہرزہ سرائی میئر کا انتخاب ملتوی کروا سکتی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے یا ہوچکا اس کا اندازہ نہیں تھا؟ نجانے کیوں، مجھے یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ نظر نہیں آرہا، جتنا فاروق ستار اسے قرار دینے پر تلے ہیں۔ مجھے ان کی تقریر ایک باضابطہ منصوبے کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔
لیکن وہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً کشمیر Issue پر سے دنیا کی توجہ یہ دکھا کر مبذول کروانا کہ پاکستان بھی انڈیا سے کم نہیں۔ مظالم یہاں بھی اسی طرح سے ہوتے ہیں۔ کمزور کو دبایا جاتا ہے۔ لیکن ڈرامہ کامیاب نہ ہوا۔ فلم باکس آفس پر ہی پٹ گئی۔ بری طرح فلاپ۔ اور اب کیا ہو۔ یہ سوال آج میڈیا سمیت ملک بھر میں زبان زد عام ہے۔ سیاسی و غیر سیاسی طبقات اس پر رائے زنی فرما رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے MQM پاکستان محض ایک چال ہے، گرفتاری سے بچنے کی۔ پرانی MQM کو بحال رکھنے کی۔ تاوقتیکہ الطاف حسین کچھ عرصہ بعد پھر نمودار ہوجائیں اور فاروق ستار پھر سے کہنے لگیں جی بھائی! ہاں بھائی! ہم آپ پر قربان بھائی۔ کچھ کا ماننا ہے نہیں۔ یہ کوئی چال نہیں۔ MQM پاکستان واقعی معرض وجود میں آگئی۔ وہ اب اپنے فیصلے لیں گے۔ الطاف حسین سے ان کا کوئی رابطہ باقی نہیں رہا۔ انھیں موقع دینا چاہیے۔
اپنی اصلاح کا، اپنی تعمیر و ترقی کا۔ یہاں جو بات شکوک و شبہات کا باعث بن رہی ہے، وہ MQM لندن کی جانب سے فاروق ستار و ساتھیوں کی مذمت نہ کرنا ہے۔ پاکستان کو تو وہ اب بھی گالیاں دے رہے ہیں، اداروں کو بھی کوس رہے ہیں لیکن MQM پاکستان اور رابطہ کمیٹی کی تو انھوں نے توثیق کی ہے، بلکہ مختلف ویب سائٹس پر فاروق ستار کو آج بھی وہ اپنا نمایندہ قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ میری اطلاع کے مطابق آج MQM پاکستان نے اپنے منشور میں بھی کچھ تبدیلی کے ساتھ الطاف حسین کی ویٹو پاور کو ختم کردیا۔ لیکن شک ہے کہ نہیں جاتا۔ دیگر بہت سی آرا کی طرح رائے دی جاسکتی ہے کہ وقت پر چھوڑ دیا جائے۔ ایسے راز چھپتے تو نہیں۔ ایک طرف پی ایس پی کے رہنما انھی شبہات کو ہوا دے رہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کی بار بار کی پریس کانفرنس اسی ایک نقطے پر مرتکز ہے اور وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہے۔ میری رائے میں وہاں زیادہ صاحب الرائے لوگ جمع ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ زیادہ Purify۔ میں نے اکثر ٹی وی چینلز پر مبصرین کو کہتے سنا، مصطفیٰ کمال نے اپنی جماعت کی ابتدا میں الطاف حسین کے لیے سخت لہجہ اختیار کیا۔ جو ان کی رائے کے مطابق درست نہ تھا۔
جب کہ مقابلتاً فاروق ستار نے دھیمے سروں میں راگ گایا۔ میں ان سب صاحبان فہم و فراست سے کھلا اختلاف کرتا ہوں۔ دیکھیے آپ اگر کسی بھی معاملے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو آپ کو اولین فرصت میں اپنے پہلے دور سے اجتناب برتنا ہوگا۔ سابقین کو سابقہ قرار دینا ہوگا۔ تب آپ ایک نئے سانچے میں ڈھل سکتے ہیں۔ اگر آپ وہی لبادہ اوڑھ کر انھی اعمال کے ساتھ انداز و اطوار کے ہمراہ کچھ نیا کرنے آئے ہیں تو ممکن نہ ہوگا۔ جیسے MQM پاکستان کے پاس تو جتنا بھی مینڈیٹ ہے وہ الطاف حسین کی ذات کو لے کر ہے۔ لہٰذا انھیں پہلے تو اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا چاہیے۔ جیساکہ MQM کا جو بھی رہنما MNA, MPA پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوا تو اس نے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دیا۔ اسی طرح یہ اخلاقی ذمے داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ قارئین کرام ! متحدہ قومی موومنٹ کے اب تک 30 آفسز منہدم کردیے گئے۔ نائن زیرو سیل ہے۔ گرفتاریاں روز و شب جاری۔ پابندی کے سلسلے میں غور و خوض شروع ہوا چاہتا ہے۔ ہر طرف ایک ہاہا کار مچی ہے۔
ایک ہجوم پریس کانفرنس۔ دعویٰ جواب دعویٰ۔ شکوہ جواب شکوہ۔ لیکن درخت تنوں سے کاٹ لیں، یا بیج سے، جڑ باقی ہے تو وہ دوبارہ اگے گا۔ اور اگر کوئی اسے جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے تو وہ خدارا صوبے کے وسائل میں سے اردو بولنے والے سندھیوں کا جائز حصہ مقرر کروائے۔ یہ دعا بھی ہے دوا بھی۔