تابانی اور جل پری
میں نے اور میرے ہم جیسوں نے تہذیب و معاشرت کے جس منطقے کی نرم گرم صبحوں میں شعور کی آنکھ کھولی تھی
یوں تو وقفے وقفے سے ایسے شعری مجموعے سامنے آتے رہتے ہیں جو یا تو آپ کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں یا متعلقہ شاعر اور اس کی شاعری سے متعلق آپ کے پہلے سے قائم شدہ نظریے اور خیالات کو مزید تقویت دیتے ہیں تیسری کیٹیگری ان سینئر شعراء کی ہے جن کا کلام اب اردو کی شعری روایت کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے سو ان کا مطالعہ بھی نسبتاً مختلف انداز میں کیا جاتا ہے ۔
اس وقت میرے پیش نظر جو دو کتابیں ہیں ان میں کئی مماثلتیں ہیں جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ دونوں کے شاعر کم و بیش ایک ہی عمر کے ہیں اور دونوں ہی کئی حوالوں سے ہماری ادبی برادری کے معروف اور پسندیدہ نام ہیں میرا اشارہ مبین مرزا اور سعود عثمانی کی طرف ہے، فرق صرف یہ ہے کہ مبین مرزا کا ''تابانی'' کے نام سے شایع ہونے والا شعری مجموعہ ان کی اس صنف ادب میں پہلی کاوش ہے جب کہ سعود عثمانی ''جل پری'' سے پہلے والے دو شعری مجموعوں پر بھی ڈھیروں داد سمیٹ چکے ہیں دونوں ناشر بھی ہیں سعود اسلامی کتابوں کے مشہور ادارے ''ادارہ اسلامیات'' اور مبین مرزا ادبی اشاعت گھر ''اکادمی بازیافت'' سے وابستہ ہیں۔
سعود ''حرف کار'' کے نام سے فیس بک پر ایک مقبول ویب سائٹ بھی چلاتے ہیں جب کہ مبین مرزا عمدہ افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ ''مکالمہ'' کے نام سے ایک اہم ادبی مجلہ بھی شایع کرتے ہیں۔ پہلے کچھ باتیں ''تابانی'' کے بارے میں۔مبین مرزا نے اپنی کتاب کا دیباچہ ''وقت کے چاک پر'' کے عنوان سے خود لکھا ہے جو انتہائی احسن عمل ہے کہ میرے نزدیک ہر اچھا (اور میں خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں) شعری مجموعے کے دیباچے میں روایتی شکریے وغیرہ ادا کرنے کے علاوہ اپنی شاعری' اس کے محرکات' متعلقہ باتوں اور بعض ادبی اور عصری مسائل پر جو باتیں کرتا یا کر سکتا ہے وہ اس کے قاری کو اس سے مزید قریب کر دیتے ہیں مثال کے طور پر مبین مرزا کی یہ چند لائنیں دیکھیے۔
''میں نے اور میرے ہم جیسوں نے تہذیب و معاشرت کے جس منطقے کی نرم گرم صبحوں میں شعور کی آنکھ کھولی تھی، عمر کی ڈھلتی ہوئی اس شام میں آج ہم اسے وحشت و دہشت کے دھوئیں سے کس طرح حبس دم ہوتے دیکھتے ہیں، پچھلی صدی میں ٹامس مان نے عہد جدید کے انسان کی تقدیر کو جس طرح سیاست کے شکنجے میں جکڑے اور اس کی اصطلاحوں میں بیان ہوتے ہوئے خیال کیا تھا ہم آج کے لکھنے پڑھنے اور سوچنے والے ذہن ان اصطلاحوں کے گورکھ دھندے میں اپنی تقدیر کو ڈی کوڈ کرنا اور اس میں مرتب ہونے والے انسانی احساس کو ڈی سائفر کرنا چاہتے ہیں'' یہ کمال غزل کی صنف کا ہے یا اس کو استعمال کرنے والے کچھ باکمال شاعروں کا کہ اس کے ایک شعر کے دو مصرعوں میں اب بھی ایک پورا جہان سمٹ آتا ہے ایسے ہی چند چمک دار شعروں کی تابانی ملاحظہ کیجیے اور ان سے اس کتاب کی دلگیر خوبیوں کا اندازہ کیجیے کہ اس ظرف تنکنائے غزل میں بیان کی وسعت کو سمونے کی کیسی حیرت انگیز قوت ہے۔
سبب یہ ہے کہ پہلے ہو چکا ہے فیصلہ' سو اب
گواہی دی تو جائے گی مگر مانی نہ جائے گی
ہٹاؤں کس طرح میں دھیان اس سے
مسلسل ایک اندیشہ ہے دنیا
میں اپنے آپ لڑوں گا سمندروں سے جنگ
اب اعتماد مجھے اپنے ناخدا پہ نہیں
زیادہ تذکرہ میرا ہے اس میں
اگرچہ یہ کہانی ہے تمہاری
کوفہ وقت کی تاریخ بدلنے کے لیے
آؤ ہجرت نہیں اس بار بغاوت کی جائے
اس مجموعے میں 27 بہت عمدہ اور خیال افروز نظمیں بھی شامل ہیں مگر ان پر پھر کبھی بات ہو گی کہ فی الوقت کچھ وقت ''جل پری'' کے ساتھ بھی گزارنا ہے اس مجموعے کا نام سعود عثمانی نے اپنے عمومی مزاج اور پہلے دو مجموعوں ''قوس'' اور ''بارش'' سے بہت مختلف رکھا ہے اس کی ایک وجہ اس کتاب میں شامل اسی عنوان کی ایک نظم بھی ہو سکتی ہے اس سے مجھے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں میری منتخب شاعری کے ترکی تراجم برادرم ڈاکٹر خلیل طوق آر نے بہت محبت اور سلیقے سے کیے اور اس کا عنوان KARA BAYO رکھا جو میری ایک نظم ''کالا جادو'' کا ترکی ترجمہ ہے جس کی وجہ سے اس کے قارئین کا ایک بالکل نیا اور مختلف حلقہ پیدا ہو گیا ہے۔
اندیشہ ہے کہ کہیں ''جل پری'' کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ نہ ہو جائے۔ خیر یہ تو ایک لطیفے کی بات تھی اپنی نوعیت اور مشمولات کے اعتبار سے یہ کتاب سعود عثمانی کی سابقہ کتابوں کا تسلسل ہی کہی جا سکتی ہے کہ اس کی غزلوں میں بھی اس کا مخصوص رنگ' چیزوں کو دیکھنے اور الفاظ کو برتنے کا انداز اور مصرعوں میں نئے اور چونکانے والے لمحے اسی تسلسل سے آتے ہیں جو اب آہستہ آہستہ اس کی پہچان بنتے چلے جا رہے ہیں۔ شعر و ادب سے سعود عثمانی کی کمٹمنٹ اور وابستگی گہری بھی ہے سنجیدہ بھی اور مستقل بھی۔ وہ اس طرح کا ہمہ وقتی شاعر تو نہیں جو یہ کہے کہ ''اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا'' وہ ہر اعتبار سے معاشرے کا ایک ایسا ذمے دار فرد بھی ہے جو اپنے سارے فرائض بہت سلیقے سے ادا کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جتنا وقت شعر و ادب کو دیتا ہے اس کی مثال اس کی نسل کے شعرا میں کم کم ہی ملتی ہے۔
اتفاق سے میں اس کے فنی سفر کا باقاعدہ شاہد اور ناظر رہا ہوں اس لیے یہ بات اعتماد اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک نامور دینی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے کبھی اس تعلق کو ''رعایت'' بنانے کی کوشش نہیں کی اور جدید علوم' سائنسی انکشافات اور ادبی اور معاشرتی نظریات سے بھی اپنے آپ کو آگاہ اور ہم آہنگ رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں آپ کو کلاسیک کی خوشبو بھی ملتی ہے اور عصری شعور کی مہک بھی۔ وہ غزل کے مصرعوں میں ''ان کہی بات'' کے حسن اور قوت سے بخوبی آشنا ہیں اور اس سے بھرپور استفادے کی کوشش بھی کرتا ہے جو بیک وقت ایک خوب صورت اور خطرناک کام ہے کہ خود پیدا کردہ ''ابہام'' دو دھاری تلوار کی طرح ہوتا ہے اچھی بات یہ ہے کہ اس نے اس عمل میں اپنے ہاتھوں کو زخمی ہونے سے بچائے رکھا ہے ''مشتے از خروارے'' کے طور پر ''جل پری'' کے کچھ اشعار دیکھئے ہو سکتا ہے کہیں کہیں ان میں بھی آپ کو جل پری کی طرح عورت اور مچھلی کے دھڑ آپس میں ملتے نظر آئیں کہ جل پری بھی اپنی اصل میں ایک طرح کے ابہام ہی کا استعارہ ہے سو۔ اوور ٹو جل پری۔
جو عکس تھے وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں
جو آئینہ ہے مجھے چھوڑ کر نہیں جاتا
میں ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں زندگی اپنی
میں تم سے شوق ملاقات میں نہیں آیا
پکارتا ہے مسلسل ورائے جسم کوئی
تو کیا خیال ہے اے میری جاں! چلا جائے
پھر ایک ہوک نے تنہائی دور کر دی مری
بہت قریب کوئی دل زدہ پرندہ تھا
اک الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے
راکھ کا ڈھیر ہو گیا میں بھی
میں سامنے یوں پڑا تھا اپنے
جیسے کوئی دوسرا پڑا تھا
پھر میں پہنچا اس جزیرے پر
جس پہ تھا جل پری کا راج یہاں