پیرنٹس میٹنگ

موجودہ عہد میں نئی ایجادات کے ساتھ نئے سماجی مسائل نے بھی جنم لیا ہے


Dr Naveed Iqbal Ansari August 29, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: موجودہ عہد میں نئی ایجادات کے ساتھ نئے سماجی مسائل نے بھی جنم لیا ہے، ان مسائل میں ایک اہم ترین مسئلہ اولاد کی والدین کی مرضی کے مطابق بہتر تربیت بھی ہے۔ آج کے والدین کو یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں ان کی اولاد نافرمان نہ بن جائے، کسی غلط گروہ میں شامل نہ ہوجائے یا بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائے۔ اس مسئلے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کی چند ایک نمایاں وجوہات بھی ہیں کہ جن پر عموماً والدین کی توجہ نہیں ہوتی۔

ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کی سرگرمیاں (یعنی ایکٹیوٹی) کیا ہیں؟ کچھ والدین اولاد پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، اعتماد اور بھروسہ اچھی بات ہے لیکن نظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ جب والدین اپنی اولاد کی سرگرمیوں سے آگاہ ہوں گے تو کسی بھی مرحلے پر ان کی رہنمائی بہتر طور پر کرسکتے ہیں، خاص کر ان معاملات میں کہ جو اولاد کے نزدیک خود ہی حل کیے جاسکتے ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی بچہ اپنے ایسے دوستوں میں وقت گزارتا ہے جو سگریٹ نوشی کرتے ہوں تو وہ بچہ اس بات پر مطمئن ہوسکتا ہے کہ وہ خودتوغلط کام نہیں کر رہا، لیکن اگر والدین کو اس کی صحبت کاعلم ہوجائے تو وہ فوراً اپنے بچے کو ان بچوں کی صحبت سے دور کردیں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آج اگر ان کا بچہ سگریٹ نہیں پی رہا تو کیا ہوا کل تو صحبت کااثر آسکتا ہے۔

گویا آج کے دور میں والدین کا اپنی اولاد کی سرگرمیوں سے متعلق علم رکھنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اولاد کی سرگرمیوں پر نظر کیسے رکھیں؟ اس کا ایک بہترین راستہ تعلیمی اداروں میں جاکر اپنے بچے کی وقتاً فوقتاً معلومات کرنا ہے کہ وہ باقاعدہ اسکول، کوچنگ، کالج یا یونیورسٹی جا بھی رہا ہے یا کہ نہیں؟ اور تعلیم میں اس کی دلچسپی کیا ہے؟ راقم اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں اس بات کو نہایت اہم سمجھتا ہے۔ آج کل والدین صرف اسکول کی حد تک وہ بھی پرائمری جماعت کی حد تک پیرنٹس میٹنگ میں شرکت کرتے ہیں، اس کے بعد کی کلاسوں میں وہ بے فکر ہوجاتے ہیں کہ ان کا بچہ اب بڑا ہوگیا ہے اور اپنے مسئلے خود حل کرسکتا ہے۔

یہ انتہائی خطرناک سوچ ہے۔ میں جامعات کی سطح پر گزشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے طلبا کو قریب سے دیکھ رہا ہوں اور اس وقت بھی ایک بڑی جامعہ کے شعبے میں بطور اسٹوڈنٹ ایڈوائزر طلبا کے معاملات کو دیکھتا ہوں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ والدین کی اکثریت سیکنڈری اسکول سے لے کر جامعات اور کوچنگ سینٹرز تک اپنے بچوں کے لیے اساتذہ سے ملاقات نہیں کرتے، اپنے بچوں کی پروگریس معلوم نہیں کرتے، جس سے طلبا کو ضرورت سے زیادہ آزادی مل جاتی ہے اور وہ اپنی مطلوبہ حاضریاں بھی پوری نہیں کر پاتے، اپنی غیر حاضریوں کی بدولت وہ امتحان میں قانوناً بیٹھنے کے اہل بھی نہیںہوتے، مگر کسی نہ کسی بہانے امتحان میں بیٹھ بھی جاتے ہیں اور پھر نقل وغیرہ کے ذریعے پاس بھی ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرتی بگاڑ کے باعث یہ کلچر تقریباً تمام ہی تعلیمی اداروں میں عام ہوچکا ہے، اور اگر کوئی استاد ایسا نہ کرنا چاہے تو اس کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

تعلیمی اداروں کے مذکورہ کلچر سے بہت کم والدین واقف ہیں جس کا سارا فائدہ طلبا کو جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس گھومنے پھرنے اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بے شمار مواقعے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ کسی بھی پارک میں، آئسکریم پارلر اور ریسٹورنٹ میں چلے جائیں، تو تعلیمی اداروں کے اوقات میں یہاں ایسے بہت سے لڑکے لڑکیاں وقت گزارتے مل جائیں گے جو اپنی کلاس کے بجائے یہاں موجود ہوں گے۔ گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے والوں، پسند کی شادیاں کرنے والوں اور مختلف سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والوں کی ہسٹری معلوم کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں بھاری اکثریت ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ہے جو تعلیمی اداروں سے غیر حاضر رہتے تھے۔

یہ ایک اہم ترین مسئلہ ہے جس سے نہ صرف والدین متاثر ہوتے ہیں اور ان کے خواب چکنا چور ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ایک بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہم عموماً سارا قصور اپنی اولاد پر ڈال دیتے ہیں لیکن بحثیت والدین اپنی کوتاہیوں پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ ایک منٹ کو ذرا غور کیجیے کہ ہم اپنی اولاد کے لیے اتنا وقت بھی نہیں نکالتے کہ ان کے اسکول، کالج یا جامعہ جاکر ایک دفعہ ہی سہی کسی استاد سے تو ملاقات کرلیں کہ ان کی اولاد کیسی پڑھائی کر رہی ہے؟ اس کے ساتھ ایک اور بڑا ظلم یہ کہ ہم اپنی اولاد کے جوان ہونے پر ان کا نکاح تو کیا کریں گے۔

ان کے رشتے کے لیے بھی کوشش نہیں کرتے اور دوسری طرف انھیں موبائل، کمپیوٹر انٹرنیٹ کی سہولت دینے کے بعد مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیج دیتے ہیں کہ وہ وہاں پڑھیں گے، جب کہ وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کا انھیں کچھ علم ہی نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کا یہ حال ہے کہ وہاں خالی کلاس روم کو تالے لگانے کا کہا جاتا ہے، آفیشلی پکنک برسوں پہلے ختم کردی گئی ہے کہ کوئی غیر اخلاقی حرکت میڈیا کی سرخی بن گئی تو کون جواب دے گا۔ یہاں اب طلبا خود سے پکنک کا پروگرام بناتے ہیں اور گھر والوں کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ آفیشلی پکنک تعلیمی ادارے کی جانب سے ہے۔ اب پکنک پر کیا کچھ ہوتا ہوگا اس کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے، جب کہ والدین بے خبر رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیمی ادارے کی طرف سے پکنک پر جارہے ہیں۔

ہمارے والدین ایک بھولے انسان کی طرح ان سب باتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ والدین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے کہ جنھیں موبائل اور انٹرنیٹ کی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کا درست علم بھی نہیں ہے۔ کتنے ایسے والدین ہیں کہ جو اپنے چھوٹے بچوں کو بھی موبائل اور ٹیبلٹ دے کر فخر کرتے ہیں کہ ان کا بچہ ذہین ہوگیا ہے، اس کا استعمال کرکے کوئی کارنامہ انجام دے رہا ہے، لیکن ان میں سے اکثر کو شاید یہ حقیقت نہیں معلوم کہ محض پچیس روپے کے بیلنس سے ان کا بچہ یوٹیوب اور ڈیلی موشن جیسی ویب سائٹس کو استعمال کر سکتا ہے کہ جہاں تکنیکی اعتبار سے آپ اپنے نصاب کی کوئی معلومات حاصل کرنا چاہیں یا کوئی اسلامی معلومات حاصل کرنا چاہیںِ تو خودبخود ہی ان فہرست میں فحش تصاویر آجاتی ہیں اور کسی بھی لنک کو غلطی سے کلک کرنے پر ایسی ہی فحش ترین فہرستوں کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ گویا یہ وہ ٹیکنالوجی ہے کہ جس کو آپ کسی بھی اچھے مقصد کے لیے استعمال کریں تب بھی اس میں وہ تمام چیزیں آپ کے ہاتھ آجاتی ہیں جس سے ایک طالبعلم بے راہ روی کاباآسانی شکار ہوجاتا ہے۔

یہاں راقم نے چند ایک اہم حقائق بیان کیے ہیں کہ وہ والدین جن کے بچے تعلیمی اداروں میں خاص کر کالج، یونیورسٹی یا کوچنگ سینٹر میں پڑھنے جارہے ہیں، وہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل اور تربیت کے لیے ان تعلیمی اداروں میں جاکر اساتذہ کرام سے ملاقات کریں اور کل کے کسی برے وقت سے بچنے کے لیے آج ہی تھوڑا سا وقت ''پیرنٹس میٹنگ'' کے نام پر نکال لیں۔ ہر مہینے نہ سہی سال میں کم ازکم دو تین بار تو اپنی اولاد کے لیے وقت نکال لیں کہ کہیں آپ کا بچہ کسی غلط گروہ، مسلح گروہ، منشیات یا کسی غلط صحبت کا شکار ہونے تو نہیں جارہا؟ آئیے غور کریں،آئیے وقت نکالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔