یہ ہیں وہ بدنامِ زمانہ

نوسرباز، چور اور ڈاکو، جنھوں نے عالمی سطح پر بدنامی کمائی


Ateeq Ahmed Azmi August 28, 2016
نوسرباز، چور اور ڈاکو، جنھوں نے عالمی سطح پر بدنامی کمائی ۔ فوٹو : فائل

WASHINGTON: ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

نواب مصطفی علی خان شیفتہ کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ زبان زد خاص وعام ہے اور ہر اس موقع پر پڑھا اور لکھا جاتا ہے جب کچھ غیرمناسب یا ناپسندیدہ چیزیں وقوع پذیر ہوں، مگر ان کی اہمیت سے انحراف بھی نہیں کیا جاسکتا ہو، بل کہ بعض صورتوں میں ایسے افعال کرنے والے اپنے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کی شہرت چاروں جانب پھیل رہی ہے۔

اگرچہ شہرت کی یہ چمک منفی ہوتی ہے مگر اس چمک کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آئیے! زیرنظر تحریر میں کچھ ایسے اہم چوروں یا قاتلوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی کارستانیوں نے انہیں شہرت یافتہ شخص میں تبدیل کردیا۔

فرینک اباجینل(Frank Abagnale)
امریکا سے تعلق رکھنے والے فرینک کو جدید انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دھوکے باز گردانا جاتا ہے۔ فرینک سترہ اپریل انیس سو اڑتالیس کو نیویارک میں پیدا ہوا اور پندرہ سال کی عمر سے اس نے لوگوں سے فراڈ، دھوکا دہی اور مختلف طریقوں سے رقوم ہتھیانی شروع کردیں۔ فرینک اباجینل کی اکیس برس کی عمر تک لگ بھگ دس شناختیں تھیں، جن میں ایئر لائن پائلٹ، ڈاکٹر، مجرموں کا ایجنٹ ، وکیل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ فرینک دو مرتبہ جیل بھی گیا، مگر دونوں مرتبہ جیل حکام کو جُل دے کر فرار ہونے میں کام یاب ہوگیا۔ تاہم اس کے بعد اسے حکام پکڑ نے میں کام یاب ہوئے اور فرینک اباجینل کو بارہ برس کی سزا ہوئی۔ تاہم اسے نہ صرف پانچ برس بعد رہائی مل گئی، بل کہ وہ سرکاری نوکری حاصل کرنے میں بھی کام یاب ہوگیا۔

اس وقت اڑسٹھ سالہ فرینک اباجینل امریکا کے وفاقی ادارہ برائے سراغ رسانی(ایف بی آئی) میں تربیت پانے والے افسران کی اکیڈمی میں بطور لیکچرار اور مشیر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ فرینک اباجینل مالی معاملات میں فراڈ سے بچائو کے حوالے سے ''اباجینل اینڈ ایسوسی ایٹس'' فرم کام یابی سے چلا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اباجینل کی شخصیت سے متاثر ہوکر سن دوہزار دو میں اس پر بننے والی مشہور ہالی وڈ فلم ''کیچ می اف یو کین'' میں لیونارڈو کیپریو نے فرینک اباجینل کا کردار ادا کیا تھا۔

فرینک کے سب سے پہلے دھوکے کا شکار اس کے والد تھے، جن کے کریڈٹ کارڈ پر اس نے کئی چیزیں خریدیں اور پھر انہیں فروخت کرکے رقم ہڑپ کرلی۔ اس وقت فرینک کی عمر محض پندرہ برس تھی۔ فرینک نے سیکیوریٹی گارڈ کا بھیس بدل کر بھی لوگوں کی رقوم پہنچانے کے دوران رقم میں خورد برد کیا۔ اسی طرح فرینک نے پائلٹ کا بھیس بدل کر اور جعلی کاغذات اور شناختی علامات بناکر تقریباً دو سو پچاس فلائٹوں میں چھبیس ممالک کا سفر کیا اور چوں کہ اس نے پائلٹ کا جعلی لائسنس بنا رکھا تھا، لہٰذا اس نے یہ تمام سفر مفت کیا۔ فرینک کا کہنا ہے کہ اسے بہت سی فلائٹوں کے دوران پائلٹوں نے جہاز اڑانے کی پیش کش بھی کی مگر اس نے یہ پیشکش ٹال دی۔ تاہم ایک مرتبہ اسے مجبوراً جہاز کا کنٹرول سنبھالنا پڑا۔

اس دوران اس نے آٹو پائلٹ کی سہولت کو استعمال کرتے ہوئے اپنا بھید نہیں کھلنے دیا۔ اس حوالے سے فرینک کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ اس کی زندگی کا خطرناک ترین لمحہ تھا، کیوں کہ نہ صرف اس کی زندگی بل کہ جہاز میں سوار ایک سو چالیس مسافر بھی ایک ایسے پائلٹ کے رحم و کرم پر تھے جس نے جہاز تو دور کی بات کبھی پتنگ بھی نہیں اڑائی تھی۔

فرینک کاایک اور روپ ڈاکٹر کا بھی تھا۔ دراصل دھوکا دہی کے الزام میں پولیس فرینک کو ڈھونڈ رہی تھی۔ فرینک کو پولیس سے چھپنے کے لیے جگہ درکار تھی۔ چناں چہ اس نے جارجیا ہسپتال میں کل وقتی سپروائزر کی ملازمت کرلی۔ اس دوران وہ ہر وقت اسپتال میں رہتا تھا۔ ایک طرح سے وہ روپوش تھا۔ اسپتال کی انتظامیہ کو اس نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے قائل کرلیا کہ وہ بطور ڈاکٹر بھی کام کرتا رہا ہے۔

چناں چہ وہ رات کی ڈیوٹی میں اکثر بطور ڈاکٹر خدمات انجام دینے لگا۔ تاہم جب اسے محسوس ہوا کہ اس کے اس طرح کرنے سے مریضوں کی زندگیوں کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے تو اس نے اسپتال کی نوکری چھوڑ دی۔ فرینک نے جارجیا اسپتال میں تقریباً گیارہ ماہ تک نوکری کی تھی۔ فرینک کی زندگی پر کئی کتابیں لکھی جاچکی اور فلمیں بن چکی ہیں۔

اس وقت دنیا کے چودہ سو سے زاید اداروں میں فرینک کا بنایا ہوا ''فراڈ سے بچائو کا پروگرام'' سرگرم عمل ہے۔ فرینک کا ایک بیٹا امریکا کے وفاقی ادارہ برائے سراغ رسانی میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ نومبر دوہزار بارہ میں فرینک نے امریکی سینیٹ سے بھی خطاب کیا، جس میں اس نے وفاقی حکومت کو مالیاتی فراڈ سے بچنے کے گُر سکھائے۔ فرینک ابا جینل جس نے پندرہ سال کی عمر میں دھوکا دہی کو اپنا کیریر بنایا تھا۔ اپنے ماضی سے تائب ہوکر ایک مشہور کاروباری شخص کی حیثیت سے نام پیدا کرچکا ہے۔

نٹور لال(Natwarlal)
ہندوستان کی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے نٹور لال کا اصل نام مٹھالیش کمار سری واستو تھا، جسے دنیا نٹور لال کے نام سے جانتی ہے۔ نٹور لال سن انیس سو بارہ میں بہار کے گائوں بنگرا میں پیدا ہوا۔ وہ بنیادی طور پر ایک ایسا دھوکے باز شخص تھا جو دوسروں کا اعتماد حاصل کرکے انہیں مالی نقصان پہنچاتا تھا۔ نٹور لال کی دھوکا دہی میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ اس نے سرکاری اہل کار کا روپ دھار کر مشہور عمارت تاج محل اور لال قلعے کے کاغذات بناکر ان تاریخی عمارتوں کو کئی مرتبہ فروخت کیا اور بیانے کے پیسے لے کر فرار ہوگیا۔

حد تو یہ ہے کہ اس نے دہلی میں واقع ہندوستانی صدر کی رہائش گاہ ''راشڑپتی بھون'' اور ہندوستان کا پارلیمنٹ ہائوس سیاحت کے لیے ہندوستان آئے ہوئے سادہ لوح غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا، جس وقت اس نے پارلیمنٹ کا سودا کیا پارلیمنٹ میں پانچ سو پینتالیس اراکین موجود تھے۔ نٹور لال نے اپنے خریدار کو راضی کیا کہ وہ عمارت کے ساتھ ساتھ ان اراکین کو بھی خرید لے اور حیرت انگیز طور پر معاہدہ طے پاگیا۔ نٹور لال دھوکا دہی کی لت میں مبتلا ہونے سے قبل ایک قابل وکیل تھا، جو عموماً ایسے کیس لڑنے میں دل چسپی رکھتا تھا، جو مالی معاملات میں فراڈ سے متعلق ہوتے تھے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے پیشے سے منہ موڑ کر دھوکا دہی کا مکروہ پیشہ اختیار کرلیا۔ نٹور لال پر سو سے زاید مقدمات قائم تھے جن میں اسے مجموعی طور پر ایک سو تیرہ برس کی سزا بنتی تھی۔ تاہم وہ مختلف وقتوں میں بہ مشکل بیس برس جیل میں رہا ہوگا۔ نٹور لال ہندوستان کی آٹھ ریاستوں کو بطور مجرم مطلوب تھا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ نٹور لال جتنی مرتبہ بھی پکڑا گیا وہ ہمیشہ جیل سے فرار ہونے میں کام یاب ہوا اور یہ کام یابی اس نے صرف اپنی چکنی چپڑی باتوں سے حاصل کی۔ اسے بھیس بدلنے میں بھی مہارت تھی۔ پولیس ذرائع کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف پچاس سے زاید شناختیں رکھتا تھا، بل کہ مشہور اشخاص کے دستخط کرنے میں بھی ماہر تھا۔ نٹور لال نے سب سے زیادہ دھوکا دہی کی وارداتیں صنعت کاروں کے ساتھ کیں۔ اس دوران اس نے مشہور صنعت کار برلا، ٹاٹا اور امبانی کو بھی نہیں بخشا اور کروڑوں روپے ان سے اینٹھ لیے۔

نٹور لال کی موت کے بارے میں متضاد آراء ہیں۔ اس کے بھائی کے مطابق نٹور لال کا انتقال انیس سو چھیانوے میں ہوا، جب کہ نٹور لال کے وکیل کے مطابق اس کا انتقال دوہزار نو میں ہوا۔ اس کی شخصیت کی بھرپور عکاسی سن انیس سو نواسی میں ریلیز ہونے والی فلم نٹور لال میں کی گئی ہے، جس میں نٹور لال کا کردار امیتابھ بچن نے احسن طریقے سے ادا کیا تھا۔

نٹور لال کو اس کے گائوں اور قصبے کے لوگ اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نٹور لال نے امیروں سے دھوکے سے حاصل کی گئی رقم ہمیشہ غریبوں میں تقسیم کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی نٹور لال کے آبائی گائوں میں اس کے گھر کی جگہ پر اس کا مجسمہ ایستادہ ہے جس پر ہمیشہ محبت اور عقیدت کے پھول بکھرے رہتے ہیں۔

ویراپن(Veerapan)
مشہور ڈاکو اور قاتل ویراپن کبھی مثبت شہرت کا حامل نہیں رہا، تاہم اس کی منفی شہرت ہندوستان کے چپے چپے میں موجود رہی۔ ویراپن کا پورا نام ''کوسی میونس امے ویراپن'' تھا وہ انیس سو باون میں تامل ناڈو کے گائوں گوپی میں پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا اولین قتل سن انیس سو باسٹھ میں دس سال کی عمر میں کیا۔

بنیادی طور پر ویراپن ہاتھی دانت اور صندل کی لکڑی کا اسمگلر تھا اور اس دوران جو اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا۔ ویراپن اسے مارنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ایک اندازے کے مطابق ویراپن نے ہاتھی دانت کے حصول کے لیے نوسو سے زاید ہاتھیوں کو موت کے گھاٹ اتارا، جب کہ ایک سو چوراسی افراد قتل کیے، جن میں ستانوے محکمہ جنگلات اور پولیس کے اہل کار شامل تھے۔ اسمگلنگ کے اس دھندے سے اس نے ہاتھی دانتوں سے مجموعی طور پر چھبیس لاکھ ڈالر اور صندل کی لکڑی سے بائیس لاکھ ڈالر کی رقم حاصل کی۔

ویراپن کی ایک اور وجہ شہرت سن دوہزار میں تامل ناڈو فلم انڈسٹری کے مشہور و معروف اداکار ڈاکٹر راج کمار کو اغوا کرنا بھی تھی۔ راج کمار ایک سو آٹھ دن تک ویراپن کے پاس قید رہے تھے۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق ان کی رہائی بیس کروڑ روپے تاوان کے عوض ہوئی تھی، جو ریاست کرناٹک نے ادا کیا تھا۔

بڑی بڑی مونچھوں والے ویراپن کو اس کے علاقے والے رابن ہڈ کی طرح مانتے تھے، جو امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ اٹھارہ اکتوبر سن دوہزار چار کو جنوبی کرناٹک اور تامل ناڈو کے علاقوں اور اس کے اطراف میں پھیلے ہوئے جنگلات میں خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ویراپن کو اس کے ساتھیوں سمیت تامل ناڈو کی اسپیشل ٹاسک فورس نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ویراپن کے مرنے کے بعد اس کی شخصیت پر کئی کتابیں لکھی گئیں، جب کہ تامل ناڈو فلم انڈسٹری اور ہندی فلم انڈسٹری میں متعدد فلمیں بھی بنائی گئیں۔

جیسی وڈسن جیمز
( Jesse Woodson James)
خود کو سکندر اعظم، جولیئس سیزر اور نیپولین بونا پارٹ کہلانے والے جیسی وڈسن جیمز کی اصل شہرت ڈکیت، گینگ لارڈ اور قانون شکن کی تھی۔اٹھارہ سو سینتالیس میں امریکا کی ریاست میسوری کے علاقے کلے کائونٹی میں جنم لینے والے جیسی جیمز نے امریکا کی سول وار میں بطور گوریلا شرکت کی۔ بعدازاں وہ ٹرینوں اور بینکوں کو لوٹنے کی وارداتوں میں ملوث ہوگیا۔

یہ کام وہ اپنے بھائی فرینک کے ساتھ مل کر کرتا تھا۔ اس دوران حکومت نے جیسی جیمز کی گرفتاری پر پانچ سو ڈالر انعام رکھا، جو اس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی۔ جیسی کے بارے میں مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ وہ بینکوں اور ٹرینوں سے لوٹا گیا مال غریبوں میں بانٹ دیتا ہے۔ اس طر ح اس کی شہرت امریکا کے جنوبی علاقوں میں پھیل گئی اور لوگ اسے ڈکیت کے بجائے نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ریاست مینی سوٹا میں جیسی جیمز دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن پانچ ستمبر کو منایا جاتا ہے، جو جیسی جیمز کے دنیا سے کوچ کرجانے کی تاریخ ہے۔

جیسی کو پانچ ستمبر سن اٹھارہ سو بیاسی کو اسی کے گروہ کے ایک کارندے نے دھوکے سے قتل کردیا تھا۔ اس کے علاوہ جیسی جیمز کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست میسوری اور مینی سوٹا میں چھے عجائب گھر جیسی جیمز سے منسوب ہیں، جب کہ اس کے نام پر کئی لائبریریاں اور پارک بھی بنائے گئے ہیں۔

اسی طرح جیسی جیمز کی یاد میں ان ریاستوں میں پانچ تہوار منائے جاتے ہیں، جب کہ جیسی کی شخصیت پر کئی ناول، کامکس، کارٹون سیریز، فلمیں، گانے، ٹی وی سیریز اور ریڈیو پروگرام پیش کیے جاچکے ہیں۔ واضح رہے کہ جیسی جیمز کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر ستائیس فلمیں تخلیق کی گئی ہیں، جن میں جیسی وڈسن جیمز کو غریبوں کے ہم درد اور مددگار کے طور پیش کیا گیا ہے۔

بل ماسن(Bill Mason)
امریکی تیراک اور انیس سو تیس کی دہائی میں بننے والی فلم ٹارزن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ''جانی وز میولر'' کے گھر سے اولمپک گولڈ میڈل چوری کرنے والے چور بل ماسن کی وجہ شہرت قیمتی پتھر، نگینے، جڑائو زیورات، گہنے، ہیرے اور جواہرات کی چوری ہے۔ واضح رہے کہ بل ماسن نے یہ گولڈ میڈل بذریعہ کوریئر جانی وز میولر کو واپس کردیا تھا۔ اس ضمن میں اس کا کہنا تھا کہ جیسے ہی میں نے تمغے کی چوری اور اس کی واپسی کی درخواست کا اشتہار اخبار میں پڑھا تو مجھے سخت ندامت ہوئی اور میں نے تمغہ فوراً واپس کردیا بل ماسن کے اس عمل نے اسے پورے امریکہ میں رحم دل جذباتی چور کی حیثیت دلوادی تاہم واضح رہے چوری کئے گئے بھاری مالیت کے دوسرے زیورات اور جواہرات اس نے واپس نہیں کیے۔

امریکی ریاست مغربی ورجینیا میں سن انیس سو چالیس میں پیدا ہونے والے بل ماسن نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ اس نے تقریباً تین کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی مالیت کے زیورات اور جواہرات چوری کیے تھے۔ انہوں نے یہ نقب زنیاں مشہور اداکارہ اور کامیڈین فیلیس ڈیلر، تاجر آرمنڈ ہیمر اور اولمپک تیراک جانی وز میولر کے اپارٹمنٹس میں کی تھیں۔

بل ماسن کو بلند وبالا عمارتوں پر باہر کی جانب سے چڑھنے میں بھی مہارت حاصل تھی۔ اس وجہ سے بھی وہ عوام میں ایک بہادر چور کی شناخت رکھتا تھا۔ انیس سو ستاسی میں اپنے پیشے سے تائب ہونے والا بل ماسن دن میں رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والا اور رات میں ہیرے جواہرات کا ماہر نقب زن بن جاتا تھا۔ اسے ان دونوں کاموں میں مہارت حاصل تھی۔ عوام میں بہادر چور کی حیثیت رکھنے والے بل ماسن کا انتقال یکم جولائی دوہزار نو کو ہوا اور محض ایک سال بعد دوہزار دس میں اس کی سوانح عمری ''جواہرات کے ماسٹر چور کا اقرار'' کے عنوان سے شایع ہوئی، جس پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی ہے۔

البرٹ سپاگیاری(Albert Spaggiari)
فرانس سے تعلق رکھنے والا البرٹ سپاگیاری انیس سو بتیس میں پیدا ہوا۔ اس کی وجہ شہرت انیس سو چوہتر میں فرانس کے شہر نیس میں واقع سوسائٹی جنرل بینک کے مرکزی والٹ روم میں نقب زنی تھی۔ اس نے یہ کارنامہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ انجام دیا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے بنک کے والٹ روم کے نیچے دو ماہ تک پچیس فٹ طویل سرنگ کھودی اور والٹ روم کا فرش توڑکر اس میں داخل ہوا۔ اس ڈکیتی میں البرٹ سپاگیاری اور اس کے ساتھیوں نے والٹ روم کے چار سو سے زاید لاکرز پر ہاتھ صاف کیا، جن کی مالیت ساٹھ ملین فرانک تھی۔

اس واردات کے بعد البرٹ اور اس کے ساتھیوں نے والٹ روم کی دیوار پر یہ پیغام بھی لکھا،''بغیر ہتھیار، بغیر شور شرابا اور بغیر تشدد۔'' ستمبر انیس سو چوہتر میں پولیس نے پورے گینگ کو دھرلیا۔ اس کام یابی میں البرٹ سپاگیاری کی محبوبہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ بینک میں واردات سے قبل البرٹ نے فرانس کی پیراٹروپ رجمنٹ میں خدمات بھی انجام دی تھیں۔ بعدازاں انیس سو چوہتر ہی میں وہ ایک فوٹوگراف اسٹوڈیو کا مالک بھی بن گیا تھا۔

یاد رہے کہ جب البرٹ سپاگیاری پر نقب زنی کا مقدمہ چل رہا تھا۔ وہ عدالت کی کھڑکی سے کود کر فرار ہوگیا، جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروا کر ساری زندگی فرانس سے باہر گزاری۔ اس دوران فرانس میں البرٹ سپاگیاری کی عدم موجودگی میں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تاہم وہ سن انیس سو نواسی میں چھپن سال کی عمر میں اٹلی میں انتقال کرگیا۔ فرانسیسی پولیس چالیس سال گزرنے کے باوجود آج تک سوسائٹی جنرل بینک سے لوٹا گیا مال بازیاب نہیں کراسکی ہے۔ البرٹ سپاگیاری اور اس کے بیس افراد پر مشتمل گینگ کی بینک ڈکیتی پر کئی فلمیں بنائی گئی ہیں اور ناول شائع ہوئے ہیں۔

ویسین زو پیراگیا(Vicenzo Peruggia)
ویسن زو پیراگیا وہ شخص ہے جو مونا لیزا کی تصویر میں اس کی مسکراہٹ کے بجائے اس تصویر کے بیش قیمت ہونے پر فدا ہوا۔

ویسین زو پیراگیا کا تعلق اٹلی سے تھا۔ وہ فرانس میں واقع مشہور زمانہ ''لیور میوزیم'' میں ملازمت کرتا تھا۔ اس دوران اکیس اگست انیس سو گیارہ کو اس نے مونا لیزا کی پینٹنگ چرانے کا فیصلہ کیا۔ مشہور ہے کہ وہ شام کو میوزیم بند ہونے کے بعد اس میں چھپ کر بیٹھ گیا۔دوسرے دن جب چھٹی تھی، میوزیم کے پچھلے دروازے سے پینٹنگ چھپاکر باہر لے گیا، لیکن دورانِ تفتیش ویسین زو پیراگیا نے بتایا کہ وہ پیر کی صبح میوزیم کے ملازمین جیسا یونیفارم پہن کر داخل ہوا اور تصویر اس یونیفارم میں لپیٹ کر میوزیم سے باہر چلا گیا۔

چوری کے بعد اس نے تصویر دو سال تک اپنے اپارٹمنٹ میں چھپا کر رکھی۔ تاہم جب اس نے تصویر بیچنے کے لیے قدیم اشیاء کی خریدوفروخت کے تاجر اور آرٹ گیلری کے مالک ''الفریڈو جیری'' سے رابط کیا تو انہیں شک ہوا اور انہوں نے پولیس کو آگاہ کردیا۔ پولیس نے فوری طور پر ویسین زوپیراگیا کو گرفتار کرلیا، لیکن اُس کی اس دیدہ دلیری پر مشتمل چوری نے اسے پورے یورپ میں مشہور کردیا۔ آٹھ اکتوبر سن انیس سو پچیس کو انتقال کرجانے والے ویسین کی زندگی اور اس کے اس منفی کارنامے پر بہت سی فلمیں، ڈکومینٹریز اور کہانیاں تخلیق کی گئی ہیں۔

پھولن دیوی(Phoolan Devi)
بھارت کے صوبے یوپی سے تعلق رکھنے والی پھولن دیوی بلاشبہہ دہشت کی علامت تھی۔ پھولن دیوی دس اگست سن انیس سو تریسٹھ کو اترپردیش کے گائوں ''گھورا کا پروا'' میں نچلی زات کے ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی۔ پھولن دیوی کا تعلق مچھلی کا شکار کرنے والی ملاح قوم سے تھا۔
اُس کی شہرت انیس سو اسی کی دہائی میں اس وقت ڈاکو کی حیثیت سے ہوئی جب اس نے اپنے خلاف اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی جانب سے زیادتی کا بدلہ لینے کے لیے اعلیٰ ذات کے بائیس ہندو قتل کردیے۔ پھولن دیوی نے انیس سو تراسی میں اپنی شرائط پر خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا، جس کے بعد انیس سو چورانوے میں اسے رہائی ملی، جس کے بعد اس نے سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اور محض دو سال بعد انیس چھیانوے میں مرزاپور شہر سے لوک سبھا کی ممبر بن گئی۔

بدقسمتی سے گم راہی کے راستے سے سچائی کے راستے کی جانب اس سفر میں پھولن دیوی کو پچیس جولائی سن دوہزار ایک کو قتل کردیا گیا۔ اس وقت پھولن دیوی کی عمر سینتیس برس تھی۔ اس کے قاتل شمشیر سنگھ رانا کا کہنا تھا کہ اس نے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے پھولن دیوی کو قتل کیا۔ پھولن دیوی کی زندگی کے حوالے سے ان گنت مضامین، کہانیاں اور ناول تحریر کیے گئے ہیں، جب کہ اس کی زندگی پر انیس سو چورانوے میں '' بینڈٹ کوئن'' کے نام سے فلم بھی بنائی گئی، جس میں اداکارہ سیما بسوا نے پھولن دیوی کا کردار ادا کیا، جب کہ اس فلم کا میوزک شہرۂ آفاق گلوکار استاد نصرت فتح علی خان نے مرتب کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |