علی بابا جسے ہم نے کھو دیا پہلا حصہ
ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں
ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں مگر ان میں سے کئی ہم سے اس بے بسی، کسمپرسی، غربت اور بیماری کے بستر بے یار و مددگار پر پڑے اس دنیا سے رخصت ہو رہی ہیں۔ حکومتیں اور ہم انھیں لاوارثوں کی طرح تڑپتے مرتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں اور ان کی وقت پر کوئی مدد نہیں کر پاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم سے ادیب، شاعر، فنکار، محقق اور مدبر بچھڑتے جا رہے ہیں اور آنے والوں میں وہ بات نہیں نظر آ رہی ہیں کہ وہ یہ خلاء پُر کر سکیں۔ جس سے ہمارا سیاسی، سماجی، ادبی اور علمی خزانہ خالی ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایک بار پھر تنزل کی طرف چل پڑیں گے۔
حال ہی میں پاکستان کا نام روشن کرنے والا ایسا ہی ایک ادیب ہم سے ہماری غفلت سے ہم میں نہیں رہا۔ سندھ کے ادیب، ناول نگار، کہانی کار، ڈرامہ نگار علی بابا بھی غربت کی وجہ سے ہم سے بہت دور چلا گیا ہے، جس کی وجہ سے سندھی ادب کو پُر نہ ہونے والا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جب مجھے ان کی موت کی خبر ملی تو میں کچھ لمحوں کے لیے سکتے میں آ گیا، پھر سوچنے لگا کہ ہمارے ادب و فن کے لوگ اتنی جلدی جلدی ایک ایک کر کے ہم سے اگر اس طرح سے بچھڑتے گئے تو ہمارے پاس باقی کیا رہ جائے گا۔ میں نے اور دنیائے ادب کے لوگوں نے اس شخص کے لیے کیا کیا ہے؟ وہ شخص جس نے سندھی ادب کو اتنے اچھے شاہکار ٹی وی اور ریڈیو ڈراموں کے تحفے دیے، ہماری ادبی اور علمی سوچ کو مزید ترقی دینے کے لیے کیسی کیسی کہانیاں، ناول اور افسانے لکھ کر دیے، جو سندھ کی ادبی تاریخ میں بڑی حیثیت رکھتے ہیں۔
علی بابا جن کا اصلی نام علی محمد تھا اور وہ رند بلوچ تھے، جن کے بزرگ بلوچستان سے ہجرت کر کے سندھ کے شہر کوٹری کے برابر محمد یوسف گاؤں میں آباد ہوئے تھے۔ ان کی پوری فیملی ادب اور علم کے فن سے وابستہ تھی، جس میں پی ٹی وی کے سابق جی ایم مرحوم عبدالکریم بلوچ ان کے کزن تھے، اداکار ساقی ان کے سالے تھے، پی ٹی وی پروڈیوسر ہارون رند ان کے چچا تھے۔
علی بابا کے چاہنے والے بہت ہیں جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ ملک سے باہر بھی ہیں مگران کے کام کوئی بھی نہیں آ سکا ہے کیونکہ علی بابا خوددار تھے، انھوں نے کبھی بھی کسی سے بھی کوئی مالی امداد نہیں مانگی اور نہ ہی قبول کی۔ وہ آخر میں گمنامی کی زندگی گزارنے لگے اور لوگوں سے کتراتے رہے، کیونکہ ان کے پاس فن تو تھا مگر اس کی قیمت دینے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ پیسے کے لیے نہیں لکھتے تھے، وہ اپنی تحریر کی تعریف بھی نہیں کروانا چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ اپنی مرضی سے لکھے گا اور جس سے سندھ کے لوگوں کو فائدہ ہو اور ان کی سوچ میں انقلاب آئے اور ان کے کام کا صحیح معاوضہ دیا جائے۔
ایک دن عبدالکریم بلوچ نے علی بابا کو کہا کہ وہ اسے ایک ایسا شاہکار ڈرامہ لکھ کر دے جو دنیا میں تہلکہ مچا دے، اس دن علی بابا کا موڈ اچھا تھا اور اس نے مچھیروں کی زندگی پر سوچ مرکوز کر دی، کیونکہ وہ سیلانی تھے اور سندھ کے وہ سارے علاقے دیکھ چکے تھے جہاں پر غربت، افلاس، کلچر، امن و محبت، زندگی کی تکلیفیں، بیماریاں، فن و ادب دریا کی طرح بہہ رہے تھے۔
مچھیروں کی زندگی پر ڈرامہ ''دنگی منجھ دریا'' یعنی کشتی دریا میں لکھا، جسے ''جنگل '' اور ''دیواریں'' کے ہارون رند نے ڈائریکٹ کیا، وہ پی ٹی وی کے بہت اچھے پروڈیوسروں میں شامل تھا۔ اس ڈرامے کو 1976ء میں جرمنی کے شہر میونخ میں بین الاقوامی فلمی میلے میں دکھایا گیا، جہاں پر 96 ملکوں نے شرکت کی تھی۔ اس ڈرامے کو دنیا کا تیسرا بہترین ڈرامہ قرار دیا گیا۔ جب یہ بات اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معلوم ہوئی تو انھوں نے اس ڈرامے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ ڈرامہ دیکھنے کے بعد انھوں نے مچھیروں پر عائد ٹیکس معاف کر دیا۔ علی بابا کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ بتانا چاہتے تھے کہ دیکھیں ہمارے لوگ کتنی غربت کی زندگی گزارتے ہیں اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر کس طرح سے رزق کماتے ہیں۔
علی بابا نے 12 سال کی عمر سے ہی لکھنا شروع کیا تھا۔ اس نے ایک ناول موئن جو دڑو لکھا جس کو سندھی ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس ناول نے انھیں صف اول کے ادیبوں میں لاکھڑا کیا۔ انھوں نے جو کردار دیے ہیں ان کی زبانی جو لفظوں کی نزاکت اور پلاٹ کی خاصیت ہے وہ عام ناولوں میں کم ملتی ہے۔ علی بابا کی تحریروں میں ہمیں ایک زندہ جان ملتی ہے اور وہ کہانیوں میں وہ چیز لکھ چکا ہے جو ہمارے معاشرے کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ انھوں نے موئن جو دڑو سے ملنے والی ڈانسنگ گرل پر پی ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھا جس کا نام تھا ''رقص حیات'' جسے پروڈیوسر غلام حیدر صدیقی نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس ڈرامے کی چند ہی قسطوں نے دیکھنے والوں میں ایک ہلچل مچا دی۔ ایک دن کسی نے جنرل ضیا الحق کے کانوں میں زہر بھر دیا کہ یہ ڈرامہ اسلام کے خلاف ہے جس کی وجہ سے اس کی باقی قسطیں آن ایئر نہ ہو سکیں۔
علی بابا اپنے موڈ کے ادیب تھے، ان کا جب دل چاہتا وہ لکھتے تھے اور کوئی بھی ان سے زبردستی نہیں لکھوا سکتا تھا۔ ا نہوں نے کبھی بھی کسی کی فرمائش پر نہیں لکھا چاہے اسے لاکھوں روپے آفر کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی تحریریں ہر ایک کو نہیں بیچتے، وہ جہاں سمجھتے ہیں کہ اس کی قدر ہو گی ان کے لیے لکھتے رہے۔ وہ درباری ادیب بھی نہیں تھے، انھوں نے کبھی بھی اپنی تحریر کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی اپنے اصول بیچے۔ حالانکہ بے حد غریب تھے اور پیسوں کی انھیں سخت ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود اپنے موقف اور اصولوں کو قائم رکھا۔
جب صدر محمد اسحاق خان کے زمانے میں انھیں صدارتی ایوارڈ دینے کے لیے بلایا گیا تو وہ نہیں گئے اور کہا کہ وہ سرکاری خیرات قبول نہیں کریں گے۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اپنے فن سے کبھی بھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا، اس لیے ان کی ہر تحریر چاہے وہ کہانی میں ہو، ناول میں یا پھر فکشن میں، اس میں سچائی چھلکتی تھی اور وہ سب کی سب کلاسیکل ہیں۔ وہ ریڈیو، ٹی وی یا پھر اخبارات کو انٹرویو نہیں دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پبلسٹی نہیں چاہتے، وہ اکثر پروگراموں میں شرکت کرنے سے بھی کتراتے تھے۔
میں نے جو ایک بات اپنی زندگی میں نوٹ کی ہے کہ ہمارے ادیب، شاعر اور فنکار اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ کوششیں نہیں کرتے اور فن سے جو بھی ملتا ہے اس سے اپنے اور گھر کے اخراجات چلاتے ہیں جس کے نتیجے میں جب وہ پاپولریٹی سے ہٹ جاتے ہیں تو ان کے لیے باقی زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ وہ ادیب، شاعر اور فنکار جو مالی طور پر مستحکم ہیں انھیں کوئی پرابلم نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی تحریروں کو کتاب کی شکل دینے میں کسی کے سہارے کی ضرورت بھی نہیں محسوس کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہم لوگ اپنی آٹوبائیوگرافی بھی نہیں لکھتے، جس کی وجہ سے مرنے کے بعد کئی چیزوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ علی بابا کے جانے کے بعد اخباروں میں چھپنے والی خبروں میں ان کی پیدائش کے سال میں تضاد ہے۔ کئی جگہ 1936ء اور کئی جگہ سال 1940ء لکھا آیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے بتایا ہے کہ ان کے دو بیٹے تھے اور کہیں یہ ہے کہ ایک بیٹا تھا، جو ذہنی عدم توازن کا شکار تھا، جس کا علاج وہ غربت کی وجہ سے نہیں کرواسکے تھے اور ان ہی کی وجہ سے وہ گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے۔ کبھی کوٹری، کبھی کراچی اور بھی کہیں نامعلوم جگہ کی طرف نکل جاتے تھے۔