دیوتائی تہذیب بربریت کی علامت پہلا حصہ
اس لیے ممالک عالم اور مذاہب عالم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔
BANNU:
دیوتائی تہذیب اور مذاہب: بلاشبہ دیوتائی بربریت پر مبنی مغربی تہذیب وتمدن اور ان کی ''اخلاقی قدروں کے باعث'' اقوام عالم میں تحسین وتقلید کی نگاہ سے دیکھی اور اپنائی جانے لگی ہے۔ اس لیے اقوام عالم کی جانب سے مغربی نقالی کو ہی اپنی معتبری وبرتری کا پیمانہ مان لیا گیا ہے۔ شاید اسی لیے ان میں بھی دیوتائی تسلط اور بربریت کا نظریہ مقبول بنتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ جس کا دورانیہ صدیوں کی مسافت پر محیط ہے۔
حالانکہ مغرب کی موجودہ نام نہاد برتر تہذیب کا تمام تر انحصار ان کے ماضی کی طرح ریاستی وسائل سمیت مقصودِ حیاتِ انسانی کے قدیم نظریات (مذاہب عالم) کی لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہے۔
اس لیے ممالک عالم اور مذاہب عالم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ جن کے لازمی وحتمی نتائج میں اخلاقی قدروں کو عملی طور غیر فلسفیانہ اور مقامی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ان کا انداز بالکل ایسا ہی نظر آنے لگتا ہے جس طرح کہ کسی رحم دل انسان نے جذبہ انسانیت کے تحت اپنی ایک آنکھ کسی دوسرے انسان کو دے کر خود کے لیے زندگی بھر کی معذوری تو قبول کرلی ہو، لیکن اس کے بدلے میں اس کی Donate کی ہوئی آنکھ کی کسی خیراتی اسپتال میں مرہم پٹی کرانے کا بھی بار بار اس پر احسان جتایا جائے اور شدت کے ساتھ اسے احساس دلایا جائے کہ وہ اس مرہم پٹی کے تو قابل نہیں ہے لیکن یہ آنکھ پیوند کرانے والے کی ذرہ نوازی ہے کہ آنکھ دینے والے کی مرہم پٹی کروائی جارہی ہے۔ ایسی تہذیب کے لیے مذاہب اور ان کی اخلاقی قدریں ایٹم بم سے کہیں زیادہ خطرناک قرار دی جاچکی ہیں۔ اسی لیے پچھڑے ہوئے انسانی گروہوں کی پسماندگی کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب مذاہب اور ان سے جڑی اخلاقی قدروں کو ٹھہرایا جارہا ہے۔
مذاہب اور بربریت: جدید دیوتائی تہذیب کی برکات کے نتیجے میں ممالک عالم میں ٹھوس عقلی ومادی تقاضوں کے مظہر قوانین کے اطلاق سے مذاہب کو دیوار سے لگایا جاچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فکر انگیز طور پر انسانی گروہوں کی قدیم مذہبی تہذیبی روایات میں اس دیوتا کے ظاہر ہونے کا نظریہ زور پکڑتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے، جس دیوتا کا مقصد ہوگا کہ جارحیت اور بربریت کے بل بوتے پر اپنے سے متعلق انسانی گروہ (قوم) کو دیگر انسانی گروہوں پر برتری ومعتبری دلائے۔
ان کو اس قسم کی معتبری وبرتری دلانے کے لیے اس دیوتا کی جانب سے خون کی ندیاں بہانا بھی ناگزیر تصور کیا جانے لگا ہے۔ وہ ایسا دیوتا ہوگا جس پر انسان تو کیا موت بھی غالب نہیں آسکتی۔ شاید اسی لیے جدید مادی تہذیب کی استبدادیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی روایتیں دم توڑتی جارہی ہیں اور دیوتاؤں کے ظاہر ہونے کی سوچ کے تحت ریاست اور مذہب کے تعلق کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی روش مقبول ہوتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ شاید اسی کا ہی نتیجہ ہے کہ جدید استبداد کے خلاف بات کرنے کو کتابی اور فلمی باتیں قرار دینے میں دیر ہی نہیں لگتی۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک طرف اپنی برتری کے لیے دیوتائی بربریت کی خواہش شدت اختیار کرتی جارہی ہے تو دوسری جانب کرۂ ارض پر مذاہب ہی کو خونریزی کا ذمے دار قرار دیے جانے کا راگ الاپا جارہا ہے۔ حالانکہ ان نام نہاد مغربی ترقی پسندوں کی باگیں ان مشرقی انسانی گروہ کے ہاتھوں میں ہیں کہ جنھوں نے اپنے مسیحاؤں کے خون سے اپنی (مذہبی ومادی) تاریخ کو ''سرخ رو'' کیا ہوا ہے۔
جنھوں نے اپنی تمام تر خباثت کو ان مغربی انسانوں میں منتقل کرکے ان سے ہر اول دستے کا کام لیتے آئے ہیں۔ یعنی یسوع مسیح (حضرت عیسیٰؑ) کو مصلوب کرنے کے بعد جب مغربی انسان اپنی معلوم تاریخ میں پہلی بار حقیقی طور کسی مسیحا (یعنی مافوق المادہ ومافوق الطبیعات) ہستی سے روشناس ہوئے تو اپنی غلطی پر نادم ہونے اور اس ہستیؑ کی جانب سے دیے گئے نظام حیات کو مکمل طور اپنانے کے بجائے ایک بار پھر دیوتائی تسلط کی خواہش میں صلیب اٹھا کر بلاجواز خون کی ندیاں بہادی گئیں۔ اس سے قبل انھی مشرقی ومغربی انسانی گروہوں نے تہذیب بیت المقدس کی وراثت (یہودی وعیسائی مذہب کے نام) پر ارض فلسطین اور اس سے متعلق عدم تشدد پر مبنی قدیم نظریہ حیات کو دیوتائی وحشت کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ کیونکہ مغربی انسانوں کی تاریخ میں کہیں بھی حتمی وغیر متبدل نتائج کی حامل تحقیقات پر مبنی مذہب اور اس کی اخلاقی قدریں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
جس کا تسلسل اس موجودہ تہذیب کا خاصہ ہیں۔ یعنی ان کے مطابق ہر حیلے وسیلے سے مادی وسائل واسباب پر تصرف حاصل کرنا اور ان کے دم پر برتری ومعتبری کا مظاہرہ کرنا ان کا شیوہ بنا رہا ہے۔ مزیدار بات یہ کہ تہذیب بیت المقدس سے بے دخل کیے گئے انسانی گروہ کی بھی یہی خصلتیں ہیں۔ اسی لیے ان دونوں نے پہلے ارتقائی مرحلے میں فلسطین اور موجودہ ارتقائی مرحلے پر پوری دنیا میں بربریت اور وحشت پھیلا رکھی ہے۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ اتنی بھیانک حقیقت کو آشکار کرتی ان کی تاریخ اور معروضی طور پر دہشتگرد تنظیموں وعالمی اداروں کا دباؤ بڑھاتے ہوئے ریاستوں کو مفلوج اور انسانوں کو محکوم بنانے والے غیر ریاستی سرمایہ دارانہ نظام کے غیر منصفانہ اور غیر مساوی قوانین کے اطلاقی مطالبوں سے ہر سمت بربریت، افراتفری اور خونریزی کا جو بازار گرم کردیا گیا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا؟ لیکن انھیں عالم انسانیت سے وابستہ مسائل کا حل ریاست کو مذہب اور اس کی اخلاقی قدروں سے دور اور لاتعلق رکھے جانے میں ہی نظر آنے لگا ہے۔
FunnyClip: کتنی خوش کن صورتحال ہے کہ آج دنیا کے اکثر انسانی گروہ ریاست کو مذہب سے علیحدہ کرچکے ہیں۔ اگر کہیں اس بات کا برملا اور ریاستی سطح پر اعلان نہیں بھی کیا جاسکا تب بھی ان ریاستوں میں رائج ہوتے قوانین ان کی اس حالت کو عیاں کرنے کا کام کرتے ہوئے دکھائی دیے جانے لگے ہیں۔ جو ایک طرف عقلی طور پر اس مغربی تہذیب میں ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرنے والے انتظام معاشرت کی برکات کے توسط سے کسی ابراہم لنکن (قومی ہیرو) کے نمودار ہونے کی امید میں جینے لگے ہیں۔
تو دوسری طرف مذہبی طور وہ دیگر انسانی گروہوں کو اپنی غلامی میں لینے کے لیے بے دریغ خونریزی کرنے اور موت پر بھی فتح حاصل کرنے والے دیوتا کے منتظر دکھائی دیے جانے لگے ہیں۔ موجودہ مغربی تہذیب کے ''مشرقی خالق اور مغربی مقلد'' انسانی گروہوں کی ''مذہبی تاریخ'' کے پیش نظر مذہب کو ریاست سے علیحدہ رکھا جانا ناگزیر بن چکا ہے۔ کیونکہ ریاست انسانی فطرت کو ضابطے میں رکھنے کے قوانین اور ان کی آسودگی کا نظریہ رکھتی ہے۔ جب کہ دیوتا تو پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ انسانوں پر بربریت کے دم قدم سے حکومت کریں۔ لیکن کیا FunnyClip ہے کہ ایسے تمام دیوتاؤں کو بیک وقت انسان بھی چاہئیں اور ریاست بھی؟
(جاری ہے)