’جنرل مشرف کے ساتھی‘ اور نوازشریف
جنرل مشرف اور چوہدری برادران کی ان ٹیموں کے بیشتر افراد اب کہاں پائے جاتے ہیں
گزشتہ دنوں وزیراعظم نوازشریف نے بڑے عرصے بعد اپنے ارکان اسمبلی کو یاد کیا اور انھیں 25 منٹ کے لیے اپنے اپنے ' دکھڑے' بیان کرنے کی اجازت بھی مرحمت کی؛ لیکن اس اجلاس میں نجانے کیوں انھیں جنرل مشرف اور ان کے 'ساتھی' بھی یاد آ گئے اور کہا کہ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں کو پارلیمنٹ میں طلب کر کے ان کا 'احتساب' کرنا چاہیے کیونکہ آج کے مسائل کے ذمے دار وہی ہیں۔
ستم ظریفی یہ کہ جنرل مشرف کے ساتھیوں میں سے کئی اس وقت بھی ان کے سامنے بیٹھے تھے۔ بات چھڑ ہی گئی ہے تو کچھ اس کا پس منظر بھی بیان ہو جائے ۔12 اکتوبر 1999ء کو نوازشریف حکومت کے خاتمہ کے بعد مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ دو حصے اس وقت باقاعدہ دو پارٹیوں (ن لیگ، ق لیگ) میں تبدیل ہو گئے، جب نوازشریف معاہدہ کر کے سعودی عرب چلے گئے۔
تب اکثر و بیشتر ن لیگی ارکان نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ نتیجتاً 2002ء میں ق لیگ کی 118 قومی اسمبلی کی نشتوں کے مقابلے میں ن لیگ صرف 18 نشستیں، جب کہ پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کی209 نشستوں کے مقابلے میں ن لیگ صرف47 جیت سکی۔ جنرل مشرف کی کوشش تھی کہ ق لیگ کی قیادت میاں اظہر کے ہاتھ میں رہے، لیکن میاں اظہر کسی ایک نشست پر بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ ق لیگ نے قومی اسمبلی کی جو نشستیں جیتی تھیں، وہ زیادہ تر پنجاب سے تھیں، لہٰذا جنرل مشرف اور چوہدری برادران کے درمیان شراکتِ اقتدار کا فارمولہ طے پا گیا۔ پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی کو بطور وزیراعلیٰ فری ہینڈ دیا گیا۔ جب کہ وفاق میں وزیراعظم ظفراللہ جمالی ہوں یا شوکت عزیز، عملی طور پر سب کچھ جنرل مشرف کے ہاتھ میں تھا۔
جنرل مشرف اور چوہدری برادران کی ان ٹیموں کے بیشتر افراد اب کہاں پائے جاتے ہیں، یہ مطالعہ کافی دلچسپ ہے۔1، ظفراللہ جمالی ق لیگ کی حکومت کے پہلے وزیراعظم تھے۔ ظفراللہ جمالی دو اڑھائی سال وزیراعظم رہے۔ 2008ء کے الیکشن بعد اول اول ڈھکے چھپے طریقے سے ن لیگ کا ساتھ دیا، لیکن2013ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوتے ہی رائے ونڈ پہنچے اور ن لیگ میں شامل ہو گئے۔ 2، زاہد حامد کا سیاسی تعارف بس یہی تھا کہ وہ سابق گورنر پنجاب شاہد حامد کے بھائی ہیں۔ زاہد حامد، جنرل مشرف اور چوہدری برادران دونوں کی گڈ بکس میں تھے۔
جنرل مشرف نے پہلے ان کو دفاعی پیداوار، سرمایہ کاری اور نجکاری کا وزیرمملکت بنایا، بعد میں وزیرقانون و انصاف کی انتہائی اہم ذمے داری بھی سونپ دی۔ این آر او اور 3 نومبر 2007ء کی متنازعہ ایمرجنسی کے ڈرافٹ انھی کی وزارت قانون کے تحت تیار ہوئے۔ یہ زاہد حامد اب نہ صرف ن لیگ کے رکن اسمبلی ہیں، بلکہ وفاقی وزیر قانون بھی ہیں۔ 3، امیر مقام بھی مشرف دور کی پیداوار ہیں۔ مشرف دور کی ضلعی حکومتوں کے الیکشن میں حصہ لے کر ضلع ناظم بنے۔ 2002ء میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ ق لیگ کی پانچ سالہ حکومت میں مسلسل وزیر مملکت برائے پانی و بجلی رہے۔ کے پی کے ق لیگ کی صدارت بھی انھی کے پاس تھی۔ جنرل مشرف نے انھیں اپنا ریوالور بطور تحفہ ان کی نذر کر دیا۔ یہ امیر مقام اب جنرل مشرف کے ریوالور سمیت ن لیگ کے سینئر نائب صدر ہیں اور وفاقی وزیر کے برابر عہدے پر متمکن ہیں۔
4، خواتین میں ماروی میمن جنرل مشرف کی سب سے زیادہ بااعتماد تھیں۔ یہ ماروی اب نواز شریف حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انچارج ہیں۔ 5، دانیال عزیز، مشرف دور میں اس وقت نمایاں ہوئے، جب ان کو جنرل تنویر نقوی کے قائم کردہ 'قومی تعمیرنو بیورو' کی سربراہی سے نوازا گیا۔ یہی دانیال عزیز اب نواز شریف کی حمایت میں فرنٹ فٹ پر کھیلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 7، محمد علی درانی براستہ فاروق احمد خان لغاری، جنرل مشرف کے پاس پہنچے تھے۔ان وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کر کے سب کو حیران کر دیا، یعنی عملی طور پر وہ مشرف حکومت کے ترجمان بن گئے۔ 2013ء کے الیکشن میں مگر محمد علی درانی نے بہاولپور مین ن لیگ کا بھرپور ساتھ دیا اور اب بھی ان کے آس پاس موجود ہیں۔ فاروق لغاری کے بیٹے اویس لغاری، جو مشرف دور میں آئی ٹی منسٹر تھے، بھی ن لیگ میں ہیں۔
8، طارق عظیم کی وجہ شہرت ان کے بھائی شجاعت عظیم ہیں، جو2000ء میں لبنان کے سعد الحریری کے پائلٹ تھے اور اس حیثیت میں نوازشریف کی ''جلاوطنی'' کے معاملات طے کرانے کے لیے سعد الحریری اور جنرل مشرف کے درمیان رابطہ کار تھے۔ طارق عظیم، جنرل مشرف کی پرچی پر پہلے وہ سینیٹر بنائے گئے اور بعد میں وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات سے سرفراز کیے گئے۔ وہ جنرل مشرف کے 'خاص آدمی' سمجھے جاتے تھے۔ یہ طارق عظیم اب کینیڈا میں بطور ہائی کمشنر نوازشریف حکومت کی نمایندگی کر رہے ہیں۔
10، شیخ وقاص اکرم بھی سیاسی طور پر مشرف دور کا تحفہ ہیں۔ چوہدری برادران سے ان کی 'محبت' کا یہ عالم تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کو 'چوہدری صاحب' کے بجائے 'بھائی جان' کہتے تھے۔ چوہدری پرویزالٰہی نائب وزیراعظم بنے تو انھوں نے ق لیگ کے کوٹے پر ان کو وفاقی وزیر بھی بنوا دیا۔ یہ شیخ وقاص اکرم بھی اب ن لیگ میں ہیں اور ٹی وی چینلز پر نوازشریف کا اسی سرگرمی سے دفاع کرتے پائے جاتے ہیں جس سرگرمی سے جنرل مشرف کا کرتے تھے۔ 11۔ سمیرا ملک کا ستارہ بھی پہلی بار مشرف دور ہی میں چمکا۔ یہ ستارہ بھی اب ن لیگ کے آسمان پر روشنی بکھیر رہا ہے۔ علاوہ اس کے ہمایوں اختر اور ہارون اخترہیں۔ ہمایوں اختر مشرف دور میں وزیراعظم اور ہارون ا ختر ناظم لاہور بنتے بنتے رہ گئے۔یہ تو مشرف دور کے نمایاںنام ہیں۔ 2013ء میں ن لیگ نے ق لیگ کے جن سابقہ ارکان کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑایا، جن میں سے بیشتر کامیاب ہو گئے۔
ان کے نام یہ ہیں: راجہ جاوید اخلاص، ملک اعتبار خان، طاہر اقبال، غیاث میلہ، عبید اللہ شادی خیل، حمیر حیات روکڑی، رشید اکبر نوانی، غلام رسول ساہی، محمد عاصم نذیر، غٖلام بی بی بھروانہ، صائمہ اختر بھروانہ، صاحبزادہ مہتاب سلطان، اظہر قیوم ناہرا، شاہد حسین بھٹی، چوہدری مبشر حسین، ناصر اقبال بوسال، ارمغان سبحانی، رائے منصب علی خان، ندیم عباس، راو محمد اجمل، معین وٹو، طارق رشید، سکندر حیات بوسن، عاشق حسین بخاری، پیر رفیع الدین بخاری، چوہدری اشرف، سعید منہاس، سردار جعفر لغاری، حفیظ الرحمان دریشک، ملک سلطان ہنجرا، خالد گرمانی، عباس ڈوگر، مخدوم باسط سلطان، عبداللہ شاہ بخاری، مخدوم زادہ حسن علی، میاں نجیب الدین اویسی، خادم وٹو، طاہر بشیر چیمہ۔ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر ق لیگ کے جن سابقہ ارکان کو الیکشن لڑایا گیا، ان کی تعداد بھی60 سے اوپر تھی، جن میں بیشتر کامیاب ہو کر اب پنجاب اسمبلی میں موجود ہیں۔
یادہانی کے لیے یہ تفصیلات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف جب اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جنرل مشرف کے ساتھیوںکو یاد کر رہے تھے اور ان کا احتساب کرنے کا 'مطالبہ' کر رہے تھے، تو شاید وہ بھول گئے کہ جنرل مشرف کے بیشتر سرکردہ ساتھی آج ان کے بھی سرکردہ ساتھی ہیں، وہ جب بھی چاہیں ان کا 'احتساب' کر سکتے ہیں۔ نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ کا یہ شعر ذرا تصرف کے ساتھ اس دلچسپ صورتحال پر صادق آتا ہے کہ
ہزار دام سے' نکلے ہیں' ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار 'ہمیں'