غیرمرئی حکومت

جو اصل سرکار ہے، حکومت ہے، سامنے کیا ہے، کوئی بھی ہو، اچھا، برا، لائق، نالائق، کوئی فرق نہیں پڑتا


راؤ سیف الزماں August 12, 2016
[email protected]

جو اصل سرکار ہے، حکومت ہے، سامنے کیا ہے، کوئی بھی ہو، اچھا، برا، لائق، نالائق، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم سامنے والے کو بجا طور پر''کٹھ پتلی'' کا نام دے سکتے ہیں جس کی ڈور دوسری طرف۔ ایسے ہاتھوں میں جو اسے بناتے ہیں۔ اس کے نین نقش، چال ڈھال، قد وقامت، حلیہ سب کچھ۔ پھر وہی اسے چلاتے بھی ہیں۔ کٹھ پتلی کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک وجود۔ لیکن روح کے بغیر۔

لیکن غیر مرئی حکومت بھی عجیب ہے۔ اس کا فن و کوشش، طاقت ایک خودکار نظام کے مطابق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا اسے کٹھ پتلی کو چلانا ہو۔ یہ ہر جگہ ہے۔ ہر وقت ہے۔ مثال کے طور پر میرے ان جملوں کو پڑھتے ہوئے آپ ذرا اپنا عقب میں محسوس کریں۔ آپ کے پیچھے کون ہے؟ جن کی وجہ سے آپ کام پر ہیں، گھر میں ہیں، باہر ہیں، ٹیچر، ٹرانسپورٹر، تاجر، مزدور، کسان، زمیندار، کلرک کچھ بھی ہیں۔

لیکن کس وجہ سے۔ کسی مجبوری کے باعث، آپ کی فیملی، بہن بھائی، اولاد، ماں باپ، عزیز اقارب، گلی محلے کے لوگ، ایک معاشرہ آپ کے عقب میں بیٹھ کر آپ کو چلا رہا ہے، ہلا رہا ہے۔ اپنا جائزہ لیں گے تو صاف کھل جائے گا کہ آپ ایک Puppet سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ جینا ان کے لیے، مرنا ان کے لیے لیکن میں اس تحریر میں اور اس موضوع پر سماجیات کو Discuss نہیں کرنا چاہتا بلکہ میرا Article ہمیشہ کی طرح سیاسی ہے۔ لہٰذا سیاست میں بالخصوص ملکی سیاست میں مجھے جائزہ لے کر آپ کو بتانا ہے کہ جو سامنے ہے وہ کیا ہے جو پوشیدہ ہے وہ کون ہے اورکتنا ہے اصولاً ہم عوام کو یہ مقام حاصل ہونا چاہیے کہ حکومت ہم بنائیں، حکمراں ہم منتخب کریں، اپنے ووٹ کے ذریعے سے ہم ہر اسمبلی میں ایسے اہل لوگ بھیجیں جو ہم سے مخلص ہوں ملک کے وفادار ہمارے مسائل کو دل سے حل کریں۔ کرپٹ، اقربا پرور، متعصب نہ ہوں۔ جن سے رابطہ آسان ہو وہ ہماری صفوں میں سے ہوں، لیکن افسوس سے کہنا، ماننا پڑتا ہے کہ ہم 20 کروڑ عوام، جو دراصل پاکستان ہیں اور ملک ہمارے خون پسینے کی کمائی سے چلتا ہے۔کچھ بھی نہیں ۔ بہت بڑا صفر (0) لگا ہوا ہے ہمارے نام کے ساتھ۔ طرفہ تماشا دیکھیے عوام خود کیا کہہ رہی ہے ''ساری خرابی عوام میں ہے''

'ارے بھئی! عوام خود کرپٹ ہے ، عوام جاہل ہے، عوام میں تعصب ہے' حیران کن مرحلہ جس پر ہنسا جائے یا آنسو بہائے جائیں؟ لیکن ہے ایسا ہی کہ ملک کے 20 کروڑ لوگ حیثیت میں صفر ہیں۔ ہر صبح وہ نیند سے بیدار ہوکر رات بستر پر جانے تک کس کس سے گلہ نہیں کرتے۔ حکومت، فورسز، بیوروکریسی، سیٹھ، فیکٹری مالک، زمیندار، موسم، زمین، آب وہوا، قدرت فطرت۔ بیوی بچے، شوہر سے گلہ کرتے ہیں کہ انھیں انصاف نہیں ملا۔ انھیں وسائل میسر نہیں۔ وہ غلط ملک میں پیدا ہوئے۔ نظام کا نظام۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا اور کبھی کوئی گلہ نہیں کرتے۔ تو اپنے آپ سے کہ وہ یہ سب کچھ سینچتے کیوں ہیں؟

ان کی کٹھ پتلیاں باغی کیوں! ان میں اتنی جرأت کیسی آگئی کہ وہ غیر مرئی حکومت( سرکار)''۔ کے خلاف خود سے حرکت کرنے لگیں اور اتنی حرکت کہ اصل طاقت کو صفر کردیا، کون یقین کرے۔ اس کہانی پر جو اپنے تمام کرداروں کے ساتھ تحریر ہوئی اور اب 70 برسوں سے ایک اسٹیج ڈرامے کی صورت ملک کی ہر گلی کوچے میں دکھائی جا رہی ہے۔ ''ہر گھر کی کہانی'' پوسٹر آویزاں ہیں۔ 'حکمرانوں نے لوٹ لیا، ''آری چل گئی' خان، پہلوان، مولانا کا امتحان۔ بالغ ہے، نابالغ ہے۔ پوری دنیا حیران ہے آخر ایسا کیا ہوگیا۔ کوئی اٹھتا ہی نہیں۔ کیسی نیند ہے، کوئی جاگتا نہیں، کیسے مان لیا جائے کٹھ پتلی ہاتھ کو ہلا رہی ہے۔ ڈور پیچھے نہیں آگے ہے۔

20 کروڑ لوگ، سمندرکی مانند، ہلکی سی کروٹ بھی لیں تو یہ چند ہزار پتھرکہاں جائیں؟ یہ لکڑی کے کھلونے، ان کی کیا حیثیت۔ لیکن ہے۔ پاکستان میں تو من وعن ایسا ہی ہے۔ میں نے عرض کیا تھا اصل 'غیر مرئی مخلوق' ہے اور میں اس پر قائم ہوں۔ زمین سے لے کر آسمان تک، جو سامنے ہے اسے پیچھے والا چلا رہا ہے اور وہی سب کچھ ہے۔ آپ میں سے اگر کوئی بھی میری تحریر کو پڑھ رہا ہو تو وہ نقطے کو سمجھے۔ فطرت کے خلاف، قدرت کے احکامات کے برعکس ہم کہاں کھڑے ہیں اورکیوں؟ ہمارے پاس دماغ نہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔ ہاتھ، پاؤں، کس شے سے ہم محروم ہیں کہ ہم حقیقی طاقت ہوتے ہوئے بھی تعداد میں کروڑوں ہوتے ہوئے بھی چند ہزار ہاتھوں میں یرغمال ہیں؟

یہ روز مرہ کے دھرنے، احتجاجی تحریکیں، جلسے جلوس، ریلیاں، ٹی وی چینلز کے مناظرے، آپ جانتے ہیں ان سب کے منتظم کون ہیں؟ اور وہ برسہا برس سے یہ اہتمام کیوں کرواتے ہیں۔ میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔ محترم عوام یہ آرگنائزر وہی چند ہزار لوگ ہیں جو آپ کی قسمتوں سے کھیل رہے ہیں۔ آپ کی آنے والی ہر نسل کو گروی رکھے ہوئے ہیں اور وہ آپ کو اپنے ان تماشوں کے لیے استعمال اس لیے کرتے ہیں کہ جب ان میں کسی بات پر ٹھن جائے اور وہ کسی بات ہے ''مال'' اور ''اقتدار'' تب یہ لڑتے ہیں لیکن خود نہیں Never۔ استعمال آپ ہی کا ہوتا ہے۔

آپ ہی تو ہیں ہر جلسے، جلوس کی زینت۔ فلک شگاف نعرے لگانے والے۔ جری اور بہادر عوام۔ جن کا راہنما کبھی کوئی غریب آدمی نہیں رہا۔ کوئی کسان، مزدور، ایماندار شخص داڑھی والا تو ویسے بھی قبول نہیں۔ یہ عوام بڑے غیرت مند ہیں۔ خوددار بھیک قبول نہیں۔اپنی صفوں میں یہ ایک دوسرے کی معمولی جنبش زبان قبول نہیں کرتے۔ بس انھیں کٹھ پتلیوں کے سامنے کیا ہو جاتا ہے سمجھ سے باہر ہے۔ وہاں زبان گنگ،آپس میں یہ سندھی، پنجابی، بلوچ، پختون اورنجانے کیا کیا ہیں لیکن جہاں وڈیرا آیا سب ایک، صرف غلام، فرمانبردار، غلام کوئی قوم نہیں نہ ذات۔ جو وڈیرے نے کہا قبول۔ ذرا سوچیے کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی سائیں سرکار کے لیے پیدا کیا ہے؟ کسی ارب پتی کے لیے، کسی ظالم جابر، خائن کے لیے، اگر نہیں تو ڈور اپنے ہاتھ میں لیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں