مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
پارلیمنٹ کے چار سو لوگوں نے نہ مجرم ڈھونڈنے نکلنا ہوتا ہے اور نہ تفتیش کرنا
چھوٹے سے اس شہر میں ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے۔ جو نووارد ہوتا ہے اسے بھی اس محبتوں کے امین شہر میں صرف چند دن لگتے اور یہاں کے ماحول میں وہ یوں رچ بس جاتا جیسے زمانوں سے رہتا ہو۔ اس شہر کا مرکز اور دل زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ مربع کلو میٹر کے علاقے میں آباد ہے۔ کوئٹہ پاٹن کے بلند قامت درختوں کے پہرے میں آباد چار سڑکیں، چند چائے خانے کہ اب بے آباد ہو گئے، سب کے سب اہم سرکاری دفاتر، طاقت کے تمام مراکز، گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، سیکریٹریٹ، ہائی کورٹ، کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے دفاتر، بلدیہ، شہر کا واحد پارک، قدیمی کانوونٹ اور گرامر اسکول، صوبائی اسمبلی، غرض بلوچستان کی کونسی ایسی مرکزی عمارت ہے جو اس ڈیڑھ مربع کلو میٹر کے علاقے میں نہیں۔
یہ ڈیڑھ مربع کلو میٹر ایک طرف سے سنڈیمن پراونشل اسپتال سے شروع ہوتا ہے اور دوسرے کونے پر ہائی کورٹ پر ختم ہو جاتا ہے۔ 8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں موت کا سفر انھی دو کونوں کے درمیان ایسا ہوا کہ اس شہر کا ہر گلی محلہ ماتم کدہ بن گیا۔ بلوچستان بھر سے پڑھے لکھے بلوچ اور پشتون یا تو آپ کو وکلاء کی صورت ہائی کورٹ کی راہداریوں میں نظر آئیں گے یا پھر ڈاکٹروں کی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے سنڈیمن پراونشل اسپتال کے وارڈوں میں۔کتنے پیاروں کی موت کی خبر آج اس دوری میں سن رہا تھا تو سوچ رہا تھا یہ اس قدر پاس پاس رہنا بھی کتنا عذاب ہے۔ سب اپنے مقتل کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور سیکنڈوں میں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ اس شہر کے لوگوں کو اگر میلوں دور بھی آباد کر دیا جائے تو پھر بھی یہ اپنے پیاروں کے دکھ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں پہنچ جائیں گے کہ یہی ان کی روایت ہے۔ یہ تو فاتحہ خوانی کرتے ہوئے اپنی سالوں پرانی دشمنی بھول جاتے ہیں اور درجنوں قتل فراموش کر دیتے ہیں۔
گزشتہ تین دن سے ایک سکتے کا عالم طاری ہے۔ تجزیہ نگاری کی اپنی دنیا ہے لیکن جب کسی کا ذاتی نقصان ہو جائے تو اسے تجزیہ نگاری نہیں سوجھتی۔ میں نے ان لوگوں کے درمیان اپنی عمر کا بہترین حصہ گزارا ہے۔ میری زندگی کی وال پینٹنگ سے لگتا ہے کسی نے ایک حصہ کھرچ کر پھینک دیا ہے یا خون آلود کر دیا ہے۔ قندھاری بازار جسے بعد میں شارع اقبال بھی کہا جانے لگا لیکن کوئٹہ کے باسی آج بھی اسے اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ بازار جب جناح روڈ عبور کر کے اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو وہاں 1935ء کے زلزلے کے بعد تعمیر ہونے والی ایک عمارت ہے جس کے چاروں جانب پائنز کے بلند و بالا درخت ہیں۔ ایک زمانہ میں اس کے اردگرد کوئی دیوار نہ تھی۔ اس عمارت میں کوئٹہ کی ایک دنیا آباد تھی۔ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، ڈی آئی جی، ایس ایس پی، سیشن جج' ڈائریکٹر ایکسائز اور محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر جنرل دفتر بھی یہیں موجود تھے۔
سب کی گہما گہمی دوپہر تک ختم ہو جاتی تو عصر کے بعد دو بڑے بڑے کمروں میں لاء کالج کھل جاتا۔کون تھا جو ان دو کمروں کے لاء کالج میں موجود نہ ہوتا۔ جسٹس دراب پٹیل سے لے کر یحییٰ بختیار احمد، جسٹس افتخار محمد چوہدری سے لے کر جسٹس امیر الملک مینگل تک۔ یہ یونیورسٹی لاء کالج تھا اور میں 1980ء میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایک استاد کی حیثیت سے نووارد تھا۔ سخت سردی کی شاموں میں کوئٹے کا سناٹا اور اس شہر کی اجنبیت نے مصروفیت کا ایک راستہ نکالا اور میں نے لاء کالج میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ میری شامیں بلدیہ کیفے کے اس سبزہ زار پر گزرنے لگیں جہاں یہ سب وکلاء ساتھ جڑے پریس کلب سے آنے والے صحافیوں اور سیاستدانوں سے مکالمہ کرتے۔کتنے ایسے چہرے ہیں جو یاد آ رہے ہیں۔ بلال انور کانسی اور باز محمد کاکڑ اس دور میں نوجوان تھے۔
سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے بلوچستان کے لیے آپشن دی تو میرے پنجابی دوست حیرت میں گم تھے کہ ایک پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والا اتنی دور دراز کیوں جانا چاہتا ہے۔ انھیں کیا خبر کہ پورے پاکستان میں بلدیہ کیفے جیسی محفل نہیں ملتی اور کوئٹہ کی شاہراہوں جیسا سکون میسر نہیں۔ 1986ء میں ایک زیر تربیت اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے میں نے کوئٹہ کے سیشن جج چوہدری اسلم کی عدالت میں بیٹھنا شروع کیا تو یہی چہرے میرے اردگرد اور دن رات کے ساتھی بن گئے۔ ڈسٹرکٹ کورٹ جسے وہ وکیل بکرا پیسٹری کہتے تھے اور سڑک عبور کر کے ہائی کورٹ، لیکن درمیان میں کیفے بلدیا آتا جہاں چائے کا ایک کپ اور بلدیہ بیکری کی پیسٹریز سستانے کا بہانا ہوتیں۔1988ء میں اسی عمارت میں بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا تو یہی چہرے میری زندگی کے اوراق کی رونق بن گئے۔کل جب علی احمد کرد کو ٹیلی ویژن پر آنسو بہاتے دیکھا تو آنسو ضبط نہ کر سکا۔ یہ شخص تو بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔
سوچتا ہوں کہ اگر میں فاتحہ کے لیے کوئٹہ گیا تو میرے لیے آنسو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ دوستوں کا دنیا سے جانے کا دکھ تو ہے، دوستوں کے بیٹوں کی فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھانا کتنا مشکل کام ہے۔ میں کیسے ڈاکٹر مالک کانسی کے گھر میں داخل ہو کر اس بچے کو ذہن میں لاتے ہی ضبط کر سکوں گا جسے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے جوان ہوتے دیکھا ہے۔ میں بلوچستان کے اس مرنجاں مرنج جہانزیب جمالدینی کا سامنا کیسے کر سکوں گا جس نے اپنے جواں سال بیٹے کا لاشہ اٹھایا ہے۔ دوستوں کا دکھ اپنی جگہ لیکن دوستوں کی اولادوں کا دنیا سے جانا تو المیہ ہے۔
مجھے اشرف سلہری یاد آ رہا ہے۔ تھا تو وکیل لیکن جب میں ٹیلی ویژن پر ڈرامہ تحریر کر رہا تھا تو اسے اداکاری کا شوق وہاں لے آتا۔ سینئر وکلاء کی ایک نسل تھی جن کے درمیان میری عمر کی کتنی صبحیں اور شامیں گزری تھیں۔ ایک ایسا گروہ جو برداشت، رواداری اور حسن سلوک کی وجہ سے کوئٹہ کی روایات کا امین تھا کہ آج اس میں ہر زبان بولنے والا موجود ہے اور اس سانحے میں جان دینے والوں میں بھی ہر نسل کا وکیل شامل ہے۔ چند سو وکیلوں میں سے اگر 63 سینئر وکلاء اس دنیا سے رخصت ہو جائیں تو ایک لمحے کو سوچیئے کہ ایسا نہیں جیسے پورا گھرانہ اجڑگیا ہو۔ مکان کی چھت گر گئی ہو۔
مجھے اس سوگ کے عالم میں گلے شکوے نہیں کرنے، لیکن پھر بھی اور طرح کے دکھ کا اظہار ضرور کرنا ہے۔ یہ دکھ ان سب کا دکھ ہے جن کی اولادیں، باپ یا بھائی اس سانحہ میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ منوں مٹی تلے جا سوئے۔ کیا کسی کے مرنے پر یہ تماشہ بھی بھی ہوا کہ اس ملک کے عظیم ٹیلی ویژن اینکروں نے اپنے دماغ میں ایک دشمن کو سوچا اور پھر اسی کو واقعے کا ذمے دار ثابت کرنے کے لیے مخصوص ذہنیت اور نظریے کے لوگ مہمان بلائے اور فاتحانہ انداز میں پروگرام ختم کیا کہ اس نے فلاں گروہ یا فرد کو دہشت گرد ثابت کر دیا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاں حکومتوں کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں وہاں عوامی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس نہیں بلائے جاتے۔
پارلیمنٹ کے چار سو لوگوں نے نہ مجرم ڈھونڈنے نکلنا ہوتا ہے اور نہ تفتیش کرنا۔ جہاں حکومتیں ایسے سانحوں سے گزرتی ہیں تو وہ فوراً اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل بیٹھتی ہیں۔ لیکن میرے ملک میں تو سب کچھ کیمرے کے لیے ہوتا اور کیا جاتا ہے۔ قلعہ سیف اللہ، نوشکی، پشین اور تربت کے اس گھرانے کو کیا پتہ کہ ''سی پیک'' کیا ہے۔ اس کے گھر تو اس کے پیارے کی لاش آئی ہے اور اسے قاتل کا نام پتہ معلوم نہیں۔ کیا دنیا میں کسی ملک نے انتظامیہ کی ناکامی کو ایجنسیوں کی ناکامی کہا۔
جس تھانے میں قتل، چوری یا ڈکیتی ہو جائے اس تھانے کا ایس ایچ او ذمے دار ہوتا ہے۔ اسپیشل برانچ کا انسپکٹر نہیں۔ ابھی تو کوئٹہ کے لوگ کفن دفن سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ پورا ایوان اس بات پر اکٹھا ہو گیا کہ خبردار ان سب کے خون کا الزام انتظامیہ پر نہ لگ جائے۔ انتظامیہ کس کے گرد گھومتی ہے، مرکز میں وزیراعظم اور صوبے میں گورنر اور وزیراعلیٰ۔ لیڈران قوم کو اگر افغانستان اور بھارت کا نام لیتے شرم آتی ہے تو خود کو تو مجرم بولو۔کیسی موت ہے کہ وہ پہرے دار جن کو لوگوں نے منتخب کیا تھا کہ تم ہماری جان و مال کی حفاظت کرو گے انھیں قاتل کا پتہ ہے نہ مقتول سے ہمدردی۔ وہ تو جہاز میں سوار اسپتال میں آتے ہیں، پورے بلوچستان کے سینئر وکلاء اس احاطے میں موجود ہوتے ہیں، لیکن کیمرے زخمیوں کے آس پاس اس لیے ہوتے ہیں کہ دلاسے اور ہمدردی کا یہ منظر براہ راست نشر ہونا ضروری ہے۔ باقی رہ گئے کوئٹہ کے پیچھے رہ جانے والے والے وکلاء، انھیں میری طرح یادوں کی تلخ پگڈنڈی پر پاؤں لہولہان اور آنکھیں اشک آلود کرنا ہے۔ وہ ہم کرتے رہیں گے اور اس کے لیے باقی عمر موجود ہے۔ خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔