سنو پاکستان کا درد

بات سنو اُن قربانیوں کی، اُن لاکھوں جانوں کی، جن کے لہو کا قرض ہے تم پر۔


قیصر اعوان August 14, 2016
کیسے بھول جاؤں اُن اُجڑے ہوئے قافلوں کو، جو میری طرف رواں دواں تھے ایک سنہرے کل کا خواب لیے ہوئے۔

''میں پاکستان ہوں''۔

وہ پاکستان جس کی شاید اب ضرورت نہیں رہی۔

کیا تم جانتے ہو میں کیسے بنا؟

تم بھلا کیسے جانو گے

تمہیں تو میں وراثت میں ملا تھا

آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں

آؤ تمہیں بتاؤں کہ میرے خواب کو کیسے وجود بخشا گیا

جب دیکھتے ہی دیکھتے

کئی بستے گھر تباہ ہوئے

کئی ہنستے گھر اُجڑ گئے

کئی ماؤں نے بچے کھو دیئے

کئی بھائی بہنوں سے بچھڑ گئے

ہائے وہ دس بارہ سال کا معصوم بچہ

مجھے اُس کی شکل آج بھی یاد ہے

میں اُس کی شکل بھلا کیسے بھول سکتا ہوں؟

وہ ہر روز اپنی ماں سے پوچھتا،

ماں! پاکستان کب بنے گا؟

ماں! ہم پاکستان کب جائیں گے؟

اور کبھی جب وہ زیادہ بے چین ہو جاتا تو کہتا

ماں! پاکستان بنے گا بھی کہ نہیں؟

اُسے شاید پاکستان جانے کی زیادہ ہی جلدی تھی

مگر جب پاکستان بنا

تو اُسے دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا

اُس معصوم کا لاشہ اپنے جلے ہوئے گھر میں ہی پڑا رہ گیا۔۔۔۔۔

افسوس کوئی اُٹھانے والا بھی نہیں تھا

ہائے ایسے ہزاروں معصوم بچے

اور اُن کی کہانیاں

اور کیسے بھول جاؤں اُن ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو

جنہوں نے میری خاطر اپنی عزتوں کی قربانی دی

اُن کی وہ دردناک چینخیں کوئی کیسے بھول سکتا ہے

اور کیسے بھول جاؤں اُن اُجڑے ہوئے قافلوں کو

جو میری طرف رواں دواں تھے ایک سنہرے کل کا خواب لیے ہوئے

وہ خواب جو اُنہوں نے تمہارے لیے دیکھا تھا

اپنا سب کچھ تو وہ گنوا چکے تھے تمہارے روشن کل کے لیے

مگر تمہیں کیا؟ تمہیں تو میں وراثت میں ملا تھا

مانا کہ تم اُس وقت نہیں تھے

لیکن تمہارے بڑے تو ہوں گے؟ یا اُن کے بڑے؟

کسی نے تو بتایا ہوگا تمہیں

کہ کیسے پینے کے پانی میں زہر ملا دیا گیا تھا

کیسے میری طرف آنے والی ٹرینوں کوجلا دیا گیا تھا

اور اُن میں جلنے والوں کی چیخیں

مجھے آج بھی سنائی دیتی ہیں

کیا تمہیں سنائی نہیں دے رہیں؟

کیا تم سو رہے ہو؟

تم ایسے کیسے سو سکتے ہو؟

میرے پاس ابھی ہزاروں داستانیں ہیں سنانے کے لیے

اُس ظلم و جبر کی داستانیں جو میری وجہ سے میرے لوگوں پر ہوا

جو تمہاری وجہ سے تمہارے بڑوں پر ہوا

اُٹھو اور میری بات سنو

بات سنو اُن قربانیوں کی

اُن لاکھوں جانوں کی

جن کے لہو کا قرض ہے تم پر

مگر تم مجھے بھلا کیسے سُن سکتے ہو

تم تو میرا درد سننا ہی نہیں چاہتے

کیونکہ تمھیں تو میں وراثت میں ملا تھا

اور شاید اس لیے تمہیں میری قدر بھی نہیں.

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔