کوئٹہ اور کشمیر
کوئٹہ میں پچھلے دنوں جو کچھ ہوا اور مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ایک ماہ سے جو صورت حال بنی ہوئی ہے
GROS ISLET:
کوئٹہ میں پچھلے دنوں جو کچھ ہوا اور مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ایک ماہ سے جو صورت حال بنی ہوئی ہے اور بے گناہ انسانوں کو جس طرح سے زندگی اور بینائی سے محروم کیا گیا ہے اس پر بلاشبہ ہر آنکھ اشکبار اور ہر زندہ ضمیر بے چین اور بے قرار ہے لیکن اس جذباتی اظہار سے قطع نظر ہماری حکومت میڈیا اور بین الاقوامی برادری تینوں کا ردعمل اور رویہ اگر عملی نہیں تو جزوی طور پر قابل غور بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ حکومت کا اس لیے کہ اس کی کوئی واضح کشمیر پالیسی ہے ہی نہیں (جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ایک ایسے شخص کو لگایا گیا ہے جس کے لیے یہ عہدہ ایک مشن سے زیادہ ایک طرح کی سیاسی رشوت ہے) دوسری طرف میڈیا کا ایک حصہ اس مسئلے کو الجھانے کے لیے ایسے شوشے چھوڑتا رہتا ہے۔
جن کو شہداء اور انصاف کے خون سے ایک سنگین مذاق کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لوگ کشمیر کی جنگ آزادی' حق خودارادیت اور ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو بلوچستان میں ایک خاص ایجنڈے کے ذریعے کرائی جانے والی دہشت گردی کے مماثل قرار دیتا ہے اور سرحد کی لکیر کو نقشے پرکھینچی گئی ایک ایسی غلط لکیر بتاتا ہے جسے اب درست کر کے عملی طور پر غائب کر دینا چاہیے تاکہ دونوں ملک اصولوں کے بجائے تجارت کی سطح پر دوست اور ساتھی بن جائیں اور جہاں تک عالمی رائے عامہ کا تعلق ہے وہاں کے بیشتر عوام تو حق اور انصاف پہ یقین رکھتے ہیں مگر ان کی حکومتیں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔
اردو ڈائجسٹ والے الطاف حسن قریشی صاحب اپنے ایک ڈیلی ادارے PINA کے تحت اکثر ملکی اور قومی نوعیت کے مسائل پر سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز انھوں نے اسی حوالے سے کشمیر کی حالیہ صورت حال اور اس کے مضمرات پر گفتگو کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کلب میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس کی نظامت کے فرائض برادرم سجاد میر نے انجام دیے، جس کی صدارت سابق سفارت کار اور اہم تجزیہ نگار شمشاد احمد صاحب نے کی جب کہ گفتگو کرنے والوں میں الطاف حسن قریشی' غلام محمد صفی' ڈاکٹر محمد اکرم' حفیظ اللہ نیازی' قیوم نظامی' ارشاد احمد عارف' اعجاز الحق، جنرل غلام مصطفے' ڈاکٹر فرزانہ نذیر اور راقم الحروف شامل تھے۔
بہت سی باتوں اور تجاویز کے ساتھ ساتھ اس بات پر تقریباً سب نے زور دیا کہ کشمیر کے حوالے سے سب سے زیادہ ضرورت ایک ایسی ریاستی پالیسی کی ہے جس میں نہ صرف تسلسل ہو بلکہ یہ حکومتی مصلحتوں اور ترجیحات سے بالاتر ہو کر ریاست کی سطح پر کام کرے کیونکہ امر واقعہ یہی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک عمومی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو ریاست کے بجائے حکومت وقت کی آنکھ ہی سے دیکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں اس قدر اتار چڑھاؤ آئے اور بھارت سے چار جنگیں لڑنے اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر میں دہشت گردی کو ہوا دینے اور اس کی مدد کرنے کے الزامات سہنے کے باوجود آج بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے اور آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی ایک متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کی کارروائیوں کے ہوتے ہوئے کوئی عالمی ادارہ یا بڑی قوت اس کا محاسبہ کرنا تو کیا اس کے خلاف بیان تک نہیں دیتی۔
اس اجلاس میں بعض احباب کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کوئٹہ میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی یہ خوفناک واردات بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے اور اس کا مقصد کشمیر میں اٹھنے والی حالیہ آزادی کی لہر سے توجہ ہٹانا اور پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے سی پیک معاہدے کو سبوتاژ کرنا ہے فرق صرف یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں بعض عالمی قوتیں یہ کام چشم پوشی کے ذریعے کر رہی ہیں جب کہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے عمل میں وہ براہ راست بھارت کے ساتھ مل کر کھڑی ہیں۔ شمشاد صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں بہت زور دے کر اور بالکل بجا کہا کہ ہماری کشمیر پالیسی روز اول ہی سے تضادات اور غیرسنجیدگی کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے نہ تو ہم عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کر سکے ہیں اور نہ ہی کشمیریوں کو یہ یقین دلا سکے ہیں کہ ہم ان کے حق ارادیت کے حصول کی مہم میں دل و جان سے ان کے ساتھی اور شریک ہیں۔
انھوں نے اور غلام محمد صفی صاحب نے بڑی وضاحت سے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ کشمیری اپنی آزادی اور حقوق کی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور انھیں دنیا اور بالخصوص پاکستان سے صرف اخلاقی اور اصولی مدد درکار ہے اور جہاں تک اس میں حکومت پاکستان کا تعلق ہے اس پر لازم ہے کہ نہ صرف ایک ایسی دو ٹوک' واضح اور نتیجہ خیز کشمیر پالیسی بنائے جو عوام کے جذبات کی ترجمان اور عالمی رائے عامہ کے لیے ایک مشعل راہ ہو بلکہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی کسی ایسے شخص کو سونپی جائے جو نہ صرف اس پر بھرپور اعتماد رکھتا ہو بلکہ اس کے تقاضوں کو نبھانے کی صلاحیت کا بھی حامل ہو۔
جہاں تک بلوچستان کے معاملات کا تعلق ہے مجھے گزشتہ دو برسوں میں کئی بار سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ صاحب سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے اور انھوں نے سول حکومت اور اس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک سے مل کر دہشت گردی کو جس طرح کم اور کنٹرول کیا تھا وہ بلاشبہ قابل تعریف اور لائق داد ہے مگر اب اس معاملے کو قدرے مختلف انداز سے دیکھنا اور ہینڈل کرنا پڑے گا کہ سی پیک معاہدے اور گوادر پورٹ کی ترقی اور تکمیل کی وجہ سے پرانے شکاری اب جال بدل کر سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بھارتی حکمران اور وہاں کے چند فی صد انتہا پسند سیاسی کارندے اور ان کا ہم زبان میڈیا پاکستان کو شاد آباد اور ترقی پذیر نہیں دیکھنا چاہتے مگر وہاں کے عام لوگ جو تعداد میں بہت زیادہ ہیں ایسا نہیں سوچتے اور کم و بیش یہی صورت حال باقی دنیا کی ہے۔ سو اگر ہم سب کو بیک زبان دشمن قرار دینے کے بجائے اپنے کیس کو ذہانت' ذمے داری اور سلیقے سے پیش کریں تو یہ کشمیریوں اور ان کی جائز جدوجہد کے لیے بہتر ہو گا کہ اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر ''جیو اور جینے دو'' کا اصول یہی سب سے بہتر اور انصاف والا راستہ ہے۔