دو بھائی دو نام
ایک گھر میں پیدا ہونیوالے دو بھائی دو الگ الگ شعبوں میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔
ایک گھر میں پیدا ہونیوالے دو بھائی دو الگ الگ شعبوں میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے نام کا آخری حصہ مختلف انداز میں لکھتے ہیں۔ دونوں مشہور ہوجاتے ہیں لیکن لوگوں کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ آج کے کالم میں ہم چار بھائیوں کی جوڑی کا تذکرہ کرینگے جنھوں نے سیاست، صحافت، کھیل، قانون، ادب اور فن کی دنیا میں بڑا نام کمایا۔
یہ ایک بہانہ ہے کہ ہم چار بھائیوں کی جوڑی یعنی آٹھ لوگوں کی زندگیوں کے کچھ گوشوں سے واقف ہوجائیں، چند قارئین کے لیے یہ انکشاف بھی دلچسپ ہوگا کہ اچھا! یہ دونوں بھائی ہیں، ہمیں تو پتا نہیں تھا۔ ایک کالم میں آٹھ لوگوں کی باتیں یعنی کم خرچ بالانشیں کی سی بات ہوگی۔معراج محمد خان ایک جوشیلے طالبعلم اور مخلص سیاستدان تھے، ان کے بھائی کا نام منہاج برنا تھا جو صحافیوں کے بڑے رہنما رہے ہیں۔ ذرا دونوں کے نام دیکھیں، خان اور برنا، معراج محمد خان ایک بہترین مقرر اور پرجوش طالبعلم رہنما تھے۔
ایوب دور کی ظلم و زیادتیوں کے خلاف معراج کی آواز بڑی توانا آواز تھی۔ جیل اور جلاوطنی کے دور سے گزر کر عملی سیاست میں آئے تو بھٹو کو اپنا سیاسی رہنما بنایا۔ پیپلزپارٹی اقتدار میں آگئی تو وفاقی وزیر بنائے گئے۔ وفاقی وزیر یعنی جھنڈا لگی گاڑی، بنگلہ، اسٹاف اور ٹھیک ٹھاک تنخواہ، معراج محمد خان نے اصولوں کی بنیاد پر بھٹو سے اختلاف کیا اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
اتنا اخلاص اور اس قدر اصول پسندی معراج جیسی شخصیت ہی کرسکتی ہے کہ بونوں سے اس سے توقع نہیں رہتی۔ ضیا دور میں بھٹو کے خلاف استعمال نہ ہوئے کہ درجن بھر جیالے وزیر بھٹو کے خلاف استعمال ہوگئے۔ معراج محمد خان کو کامیاب سیاستدان نہیں کہا جاسکتا لیکن اصول پسندی پر قائم رہنے والے رہنما کی عزت کئی نام نہاد ''کامیابیوں'' سے کہیں زیادہ ہے۔ منہاج برنا نے اپنے بھائی کے نام سے ہٹ کر نام پسند کیا اور صحافت کا روشن ستارہ قرار پائے۔
عمران خان اور سرفراز نواز سے قبل پاکستان کرکٹ میں ایک بالر سلیم الطاف ابھر کر سامنے آئے۔ اوسط درجے کے بالر بعد میں ایک اچھے کمنٹیٹر بھی بنے۔ نعیم بخاری اور سلیم الطاف بھائی بھائی ہیں۔ دو بھائی اور دو نام، ناموں سے کہیں پتا نہیں چلتا کہ یہ دونوں ماں جائے ہیں۔ نعیم بخاری اپنی شادی کی اخباری خبر کا تذکرہ دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔
ان کی شکایت تھی کہ انھیں دوسروں کے حوالے سے یاد کیا گیا۔ خبر کچھ اس طرح تھی ''مشہور کرکٹر سلیم الطاف کے بھائی نعیم بخاری کی شادی مشہور گلوکارہ طاہرہ سید سے ہوئی جو معروف مغنیہ ملکہ پکھراج کی صاحبزادی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوان وکیل نعیم بخاری قانون کی دنیا کے بڑے نام ایس ایم ظفر کے شاگرد ہیں''۔ دلہے کی شکایت تھی کہ خبر اس کی شادی کی تھی لیکن ذکر دیگر مشہور و معروف لوگوں کا ہوتا رہا۔
کالم نصف کے لگ بھگ پڑھا جاچکا ہے اور ہم اب تک معراج محمد خان اور منہاج برنا کے علاوہ سلیم الطاف اور نعیم بخاری کی بات کرچکے ہیں۔ اب ہم دو بھائیوں کی ایک اور جوڑی کی بات کریں گے، جنھوں نے بالکل مختلف ناموں سے شہرت پائی۔ اس سے پہلے یہ کیوں نہ کرلیں کہ کچھ مشہور بھائیوں کا ذکر کریں جن کے نام کا دوسرا حصہ ملتا جلتا ہے۔
حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد جیسے مشہور کرکٹر ''محمد برادران'' کے نام سے مشہور ہوئے، اسد عمر اور زبیر عمر دو الگ الگ سیاسی پارٹیوں میں کام کرتے ہیں لیکن نام کا آخری حصہ ایک جیسا ہے۔ ہارون رشید کے ماشااﷲ نصف درجن بھائی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے اور سب کے ساتھ رشید لگا ہوتا تھا۔ آج ہم بات کررہے ہیں الگ الگ ناموں سے مشہور ہونے والے بھائیوں کی جوڑی، تو آیئے چار لوگوں کی اور بات کرتے ہیں۔
حبیب ولی محمد گلوکاری کا ایک بڑا نام تھا۔ انھوں نے اپنے نام کا دوسرا حصہ اپنے والد کے نام سے منسوب کیا۔ ایک درجن کے لگ بھگ شاہکار نغمے دینے والے حبیب ولی محمد کا تعلق ایک میمن صنعت کار گھرانے سے تھا۔ شوقیہ گلوکاری کرنے والے منفرد لہجے کے فنکار جس دور سے تعلق رکھتے تھے اردو زبان کی صحیح انداز میں ادائیگی ان کا کمال تھا۔ اشرف تابانی کو گلوکار حبیب ولی محمد کے بھائی ہونے کا شرف حاصل رہا۔ ناموں سے کہیں پتا نہیں چلتا کہ یہ دونوں بھائی تھے کہ اشرف تابانی نے اپنے نام کا دوسرا حصہ خاندانی نام سے چنا۔ سندھ کے گورنر کا حلف اٹھانے کا اعزاز اشرف تابانی کے اہل خانہ کے لیے ہمیشہ خوشی کا باعث رہے گا۔
حبیب جالب کی شہرت تمام نامور شعرا سے مختلف ہے۔ اقبال ہوں یا غالب، فیض ہوں یا فراز حکمرانوں سے ٹکرانے کا جو اعزاز حبیب جالب کو حاصل رہا ہے وہ سب سے منفرد ہے۔ کسی حکمران کو نہ بخشنے والے جالب شاعر کے علاوہ ایک سیاسی کارکن بھی تھے اور لہجے میں تلخی کا سبب زیادتی ہو۔ ایوب دور کا ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا'' جب کہ بھٹو کے دور میں ''لاڑکانہ چلو ورنہ تھانے چلو'' پورے عہد کی غمازی کرگیا ہے۔
ضیا الحق کے دور میں ''ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا'' بینظیر کے عہد میں ماں بیٹوں کو ایک شعر میں اسموکر پاکستان کے معاشی حالات کی تصویر کشی کردی۔ ''ہر بلاول ہے دیس کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں، بینظیروں کے'' اس خوبصورت شاعری کے خالق نے اپنے نام حبیب کے ساتھ جالب لگایا۔
غالب سے ہم قافیہ تخلص والے حبیب جالب کو ان کی شاعری نے بے مثال شہرت بخشی ہے، پاکستان کی پانچ عشروں کی سیاست کو پانچ اشعار میں بیان کرکے جالب نے کمال کردیا ہے، حبیب جالب کے بھائی سعید پرویز ''روزنامہ ایکسپریس'' کے کالم نگار ہیں۔ ان کے نام کے دوسرے حصے میں جالب نہیں کہ تخلص، صرف شاعر کے لیے ہی مخصوص ہوتا ہے۔معراج محمد خان ہوں یا منہاج برنا، سلیم الطاف ہوں یا نعیم بخاری، حبیب ولی محمد ہوں یا اشرف تابانی، حبیب جالب ہوں یا سعید پرویز، ہر فرد کی شخصیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور یہی دنیا کا حسن ہے۔ الگ الگ ناموں کے باوجود الگ الگ شعبوں میں شہرت پانے والے آٹھ لوگوں کا تذکرہ کیا رہا؟