اسی تپش کی ضرورت ہے
پنڈال میں گنتی کے چند لوگ بیٹھے تھے، مجھے یاد آگیا، یہی پریس کلب کا پچھواڑہ تھا
3 اگست 2016 بدھ کا دن، معراج محمد خان کا ایک بہت بڑا تعزیتی جلسہ کراچی پریس کلب کے بیک یارڈ میں شام 5 بجے ہوا۔ میں عادت کے مطابق وقت مقررہ پر ٹھیک 5 بجے پنڈال میں داخل ہورہا تھا، پریس کلب کے ٹیرس پر صحافی و دیگر لوگ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر میں ادھر جانے کے بجائے سیدھا جلسہ گاہ میں چلا آیا۔
دو چار ساتھی منتظمین سے سلام دعا ہوئی، ایک ساتھی مجھے اندر لے کر چلا۔ پنڈال میں دھوپ تھی، ساتھی نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے (جہاں سایہ تھا) مجھے کہا ''یہاں بیٹھ جایئے، ادھر ابھی دھوپ ہے'' میں نے اس منتظم ساتھی سے کہا ''جس کی یاد میں یہاں جمع ہوئے ہیں اسے تو سایہ نصیب ہی نہیں ہوا، وہ تو ساری زندگی دھوپ میں ہی گزار کر چلا گیا''۔
پنڈال میں گنتی کے چند لوگ بیٹھے تھے، مجھے یاد آگیا، یہی پریس کلب کا پچھواڑہ تھا۔ مارچ 1993 تھا، سرخ پوش کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک تعزیتی جلسہ ہی تھا اور مقررہ وقت پر آنے والی شاعرہ پروین شاکر اکیلی، سرخ پوش کرسیوں کے بیچوں بیچ بیٹھی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سرخ گلابوں میں ایک گلاب ذرا نمایاں سا، ابھرا ہوا سا۔ پروین شاکر حبیب جالب کی یادوں میں گم سر جھکائے بیٹھی تھی، یہ تعزیتی جلسہ انھی کی یاد میں ہورہا تھا۔
میں بھی معراج محمد خان کے تعزیتی جلسے کے پنڈال میں بیٹھا تھا۔ میرے سامنے اسٹیج پر تصویر لگی ہوئی تھی، ہزاروں لوگوں کے مجمع میں معراج محمد خان کو دکھایا گیا تھا۔ یہ منظر، یہ تصویر، معراج محمد خان کی گزرنے والی زندگی کی مکمل عکاس تھی۔ جس کا بھی یہ آئیڈیا تھا اﷲ اسے خوش رکھے۔
پنڈال میں دھوپ تھی، اِکا دُکا لوگ بیٹھے تھے اور لوگ بھی آرہے تھے۔ میں دھوپ میں بیٹھا اسٹیج پر آویزاں تصویر کو مسلسل دیکھ رہا تھا۔ یادوں کا ایک سلسلہ تھا۔ یادیں امڈی چلی آرہی تھیں۔ پسینے میں شرابور معراج محمد خان، غریب بستیوں میں گھوم رہا ہے، مزدوروں کے ساتھ بیٹھا ہے، کہیں شام کسی چائے خانے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہے، کہیں ہزاروں کے جلسے میں خطاب کررہا ہے، کہیں سچ بولنے کے جرم میں جیل خانے میں بیٹھا ہے، کہیں ہتھکڑیاں پہنے پولیس کے ساتھ عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑا ہے، پنڈال میں دھوپ ہی تو ہے، دھوپ سے کیا گھبرانا، معراج محمد خان کی زندگی کی فلم چل رہی تھی، میں دیکھ رہا تھا، میں اسی ڈھب سے وہ زندگی گزارتے گزارتے نڈھال سا ہوگیا تھا، زندگی کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے جسمانی اعضا کمزور ہوگئے تھے، مگر اس کی ہمت ویسے ہی جوان تھی، روز اول کی طرح سانس اکھڑ اکھڑ جاتی تھی۔ پھیپھڑے ساتھ نہیں دیتے تھے، پھر بھی بولتے تھے، لوگ جہاں بلاتے تھے ضرور جاتے تھے۔ وہ اس اصول پر زندگی بھر قائم رہے ''تھکنا نہیں، جدوجہد جاری رکھنا'' اور زندگی کی آخری شام وہ ساقی امروہوی کا یہ شعر دہراتے ہوئے رات کے پچھلے پہر آگے بڑھ گئے:
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جارہی ہے
تعزیتی جلسے کا وقت شام 5 بجے تھا۔ مگر اب شام کے 6 بج رہے تھے، دھوپ بھی ختم ہوچکی تھی، بہت سے لوگ پریس کلب میں آچکے تھے، مگر پنڈال میں نہیں تھے۔ ہم نے نئی روایتیں بنالی ہیں، مقررہ وقت کی پابندی نہیں کرنی، دیر سے جانا ہے، یہ چھوٹے اور کمزور لوگ ہیں جو سہارے ڈھونڈتے ہیں، ورنہ میں نے سبط حسن کو، جسٹس دراب پٹیل کو نوابزادہ معراج محمد خان، نصراﷲ خان کو، ڈاکٹر ادیب رضوی، جسٹس رانا بھگوان داس، عبدالستار ایدھی، عبدالحمید چھاپرا، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ڈاکٹر روتھ فاؤ، جسٹس وجیہہ الدین احمد، غرض کہ ہر بڑے آدمی کو میں نے وقت کا قدر دان دیکھا۔ مگر یہ کمزور لیڈران کرام اور دیگر لوگ تقریبات میں دیر سے آنے کو اپنی شان و شوکت سمجھتے ہیں اور کتنا وقت ضایع کرتے ہیں۔
معراج محمد خان نے دنیا کی آسائشوں کو، شان و شوکت کو، نام و نمود کو ہمیشہ نوک پاپوش پہ رکھا۔ وہ زندگی کی تپتی راہوں پر چلتے رہے۔ عمر بلوچ اس دن تعزیتی جلسے میں بتارہے تھے ''ابھی انتقال سے ایک دو ماہ پہلے ہم نے معراج صاحب کو ملیر کے مضافات میں بلایا، ہم وہاں ایک اسکول میں جمع تھے کہ علاقے میں دو گروپوں کے درمیان فائرنگ شروع ہوگئی، مجھ سمیت کئی لوگ کونوں کھدروں میں دبک گئے، جب ذرا فائرنگ رکی تو ہم نے دیکھا معراج صاحب بڑے آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھے تھے''۔
موت سے کیا ڈرنا اور اب تو موت سے مقابلے کا وقت آچکا، عمر بلوچ ہی ذکر کررہے تھے جب بھٹو صاحب کی دی ہوئی وزارت کو لات مار کر معراج محمد خان اپنے مزدور ساتھیوں کے ساتھ آکر کھڑے ہوئے تھے تو بھٹو نے انھیں واپسی کے لیے کہا اور قومی اسمبلی کی 25 نشستیں انھیں آفر کیں۔ مگر معراج محمد خان نے یہ پیشکش بھی ٹھکرادی۔ بھلا وہ کیسے اپنے مزدوروں کے خون کا سودا کرلیتے۔ تو بھائی معراج محمد خان کے رستے پر چلنا ہوگا، جالب کا شعر ہے:
جیو ہماری طرح سے، مرو ہماری طرح
نظام زر تو اسی سادگی سے جائے گا
آج کل ہماری لکھ پتی، کروڑ پتی این جی اوز، پنج ستارہ اور سات ستارہ ایئرکنڈیشنڈ لش پش ہوٹلوں میں ہاری مزدور کسان، گاؤں دیہاتوں کی مظلوم عورتوں کے لیے سیمینار منعقد کرتی ہیں، وہ جو دکھی لوگ ہیں جنھیں صاف پانی بھی پینے کو میسر نہیں، تن پر بوسیدہ کپڑے ہیں، پاؤں ننگے ہیں، جو بنا علاج مرجاتے ہیں، وہ جو پوری زندگی جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، خانوں، مجاوروں کے خوف کے سائے تلے گزار دینے پر مجبور ہیں۔ یہ نام نہاد مظلوموں کے غم گسار، ان کے لیے بات چیت کرنے، تقریریں کرنے، قراردادیں پاس کرکے اور کہیں پہنچاتے ہیں۔
بھائیو، ایسے کیسے کام چلے گا۔ آرٹس کونسل والے احمد شاہ نے بھی اچھی بات کی کہ ''ہمیں موجودہ حالات وواقعات کے تناظر میں پھر سے بیٹھنا ہوگا، ایک نیا منشور لکھنا ہوگا''۔ سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن نے کہا ''اب ہمیں دائیں، بائیں بازو سے بالاتر ہوکر متحد ہونے کی ضرورت ہے، ظلم کی چکی میں دائیں، بائیں سب پس رہے ہیں، اب ظالم و مظلوم کے درمیان کھلی جنگ ہوگی''۔ مجھے اس وقت شاعر نصرت صدیقی کا شعر یاد آگیا، ملاحظہ کریں۔
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
یہ دو گھرانے ہیں، ایک ظلم کرنے والا، دوسرا ظلم سہنے والا، اسی بنیاد پر ہمیں جمع ہونے کی ضرورت ہے۔ تعزیتی جلسے میں ایک اور سابق این ایس ایف والا بھی شریک ہوا۔ یہ مرکزی وزیر اطلاعات پرویز رشید تھے۔ ان کی باتوں سے اتنی تمازت ضرور ملی کہ بہت وقت گزر جانے کے بعد بھی ان کا دل آج بھی این ایس ایف کے ساتھ دھڑکتا ہے، پرویز رشید نے کہا ''قیام پاکستان کے بعد فیض نے اسے شب گزیدہ سحر کہا، جالب نے عہد ستم قرار دیا، یہ دونوں صورتیں موجود ہیں، معراج صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں پر ہم چلتے تو آج ہمیں ضرب عضب کی ضرورت پیش نہ آتی''۔ احفاظ الرحمن کا مضمون مومن خان مومن نے خوبصورت مضمون، خوبصورت انداز میں پڑھا۔
یہ مکالمہ جات ہونے چاہئیں، مگر ظلم سہنے والوں کے درمیان اور ظلم کرنے والوں کے خلاف صف بندی ضروری ہے۔ معراج محمد خان کے تعزیتی جلسے میں اسٹیج سمیت کوئی پنکھا نہیں تھا، سو مجمع میں گرمی تھی، اسی تپش کی اشد ضرورت ہے۔