پنجاب کا انتخابی دنگل
کون بنے گا وزیر اعظم، یہ فیصلہ بھی پنجاب ہی میں ہونا ہے.
پنجاب میں موسم سرما کی آمد آمد ہے، لیکن جیسے جیسے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، پنجاب کا سیاسی موسم گرم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ پنجاب ہی کا انتخابی میدان ہو گا، جہاں آیندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کا مقابلہ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے ''انتخابی اتحاد'' کے درمیان ہو گا۔ تحریک انصاف کا میدان بھی پنجاب ہے، جو بلا شبہ بہتر پوزیشن میں نظر آ رہی ہے، اور پھر جماعت اسلامی اور حاجی فضل کریم کی جمعیت علمائے پاکستان ہے، جن کے امیدوار بھلے اکا دکا کامیاب ہوں، لیکن اس کے ووٹ بینک کی بعض اہم نشستوں پر ایک اپنی اہمیت اور افادیت ہے۔
قومی اسمبلی کی 272 براہ راست نشستوں میں سے 148 نشستیں صرف پنجاب میں ہیں۔ گویا، کون بنے گا وزیر اعظم، یہ فیصلہ بھی پنجاب ہی میں ہونا ہے۔ اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی توجہ پنجاب پر ہے۔ صدر آصف علی زرداری متعدد مرتبہ یہ عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ عنقریب وہ لاہور میں آ کر ڈیرہ لگائیں گے۔ نواز شریف، اور شہباز شریف بھی اپنی پوری توجہ پنجاب پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ چوہدری شجاعت او چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز و محور بھی پنجاب ہے۔ تحریک انصاف کاانتخابی ہدف لاہور ہے، اور وہ مسلم لیگ ن کو اس کے قلب میں للکار رہی ہے ۔جماعت اسلامی کا مرکزبھی لاہور ہے۔لہٰذا، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن بھی پنجاب کی انتخابی سیاست پر برابر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
پنجاب میںپانچ سال سے مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ ن پنجاب میں پر اعتمادنظر آرہی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ پنجاب میں شریف برادران کے خلاف، چوہدری برادران اور پیپلزپارٹی کا انتخابی اتحاد اس سے کہیں زیادہ پر اعتماد نظر آ رہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہی پنجاب میں مسلم لیگ ن کواقتدار 2008ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان محاذ آرائی کے نتیجے میں میسر آیا۔ 2008 ء میں براہ راست نشستوں کے اعتبار سے، مسلم لیگ ن پہلے نمبر پر، پیپلزپارٹی دوسرے اور مسلم لیگ ق تیسرے نمبر پر، جب کہ ووٹ بینک کے اعتبار سے، مسلم لیگ ق پہلے نمبر پر (5852907 )، مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر (5594061) ، اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر (5548153) آئی تھیں۔ حکومت سازی کی صورت حال یہ تھی کہ اگرصدر آصف زرداری اور چوہدری برادران میں مفاہمت ہو جاتی تو پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی بہ آسانی حکومت بنا سکتے تھے۔یوں آصف علی زرداری کی تائیدسے شہباز شریف، وزیر اعلیٰ بن گئے۔
پنجاب میں مسلم لیگ قائد اعظم اور پیپلزپارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد بننے پر پنجاب کی سیاست میں ایک جوہری تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ اتحاد، گزشتہ چالیس سال کی پنجاب کی سیاست کا سب سے بڑا اپ سیٹ ہے۔ یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ چوہدری برادران اور پیپلز پارٹی کے درمیان، یہ انتخابی اتحاد کسی جلد بازی کا سمجھوتہ نہیں۔ دونوں طرف سے بہت سوچ بچار کے بعد ایک ساتھ چلنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی کا نائب وزیر اعظم کے طور پر تقرر، پنجاب میں، شریف برادران کے خلاف، چوہدری برادران اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ انتخابی حکمت عملی کا بہت واضح پیغام لیے ہوئے ہے۔ میاں منظور احمد وٹو، پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر بننے پر ایک تلاطم ضرور پیدا ہوا، تاہم اب یہ تھم چکا ہے۔ میاں منظور احمد وٹو کو یہ سمجھنے میں وقت ضرور لگے گا کہ پنجاب کے سیاسی حالات جس رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں ان کا کردار بہر حال ثانوی ہے۔ مرکزی کردار، چوہدری براداران ہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بعد جمعیت علماے پاکستان کے ساتھ اشتراک عمل کا فارمولا طے کر کے چوہدری برادران نے گویا یہ اشارہ دے دیا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف وہ ایک وسیع تر انتخابی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں۔ پچھلے پانچ سال سے، جس مطلق العنان طریقے سے، مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت کر رہی ہے، اس تناظر میں پنجاب میں ایسے کسی انتخابی اتحاد کا قیام خارج از امکان نہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن مخالف کیمپ میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی حد تک مذاکرات بہت دیر سے چل ہی رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے یہ خطرے کا الارم ہے۔
کیونکہ، پنجاب میں مسلم لیگ قائد اعظم، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے پاکستان کے بعد، اس بار جماعت اسلامی بھی مسلم لیگ ن کے قریب آنے سے گریزاں ہے۔ جماعت اسلامی 2008 ء کے انتخابات اور 2009ء کے لانگ مارچ کے تلخ تجربات بھولنے کے لیے تیار نہیں۔ قاضی حسین احمد کے برعکس سید منور حسن، شریف برادران سے بہت فاصلے پر ہیں اور بظاہر یہ فاصلہ سمٹتا نظر نہیں آتا۔ پہلی بار ہے کہ جماعت اسلامی میں نچلی سطح پر بھی شریف برادران کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار ہو رہا ہے۔
پنجاب میں شہباز شریف کا موجودہ دور حکومت، چونکہ چوہدری پرویز الٰہی کے دور حکومت کے فوراً بعد شروع ہوا اور قریب قریب اپنی مدت پوری کرنے کو ہے، لہٰذا، قدرتی طور پر عام انتخابات کی آمد پر میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کے دور حکومت کا موازنہ شروع ہو چکا ہے۔ انتخابی جلسے جلوسوں میں یہ موازنہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ پنجاب میں1977 ء کے بعد پیپلز پارٹی دوبارہ پھر کبھی براہ راست حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس لیے پنجاب میں وہ ''موازنہ سیاست'' سے باہر ہے۔
اس طویل عرصہ میں صرف ایک بار 1993ء میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں براہ راست حکومت بنانے کا موقع میسر آیا، لیکن میاں منظور احمد وٹو، پیپلز پارٹی کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ یہ میاں منظور احمد وٹو آج پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر ہیں۔ پنجاب میں2013ء میں شریف برادران کی مسلم لیگ ن اور چوہدری برادران کی مسلم لیگ قائداعظم میں جو انتخابی جنگ ہونے جا رہی ہے، یہ شریف برادران اور چوہدری برادران کے لیے صرف ایک انتخابی جنگ نہیں، دونوں خاندانوں کے لیے یکساں طور پر بقا کی جنگ بھی ہے۔
پنجاب میں یہ انتخابی جنگ اگر شریف برادران ہار جاتے ہیں تو پنجاب میں مسلم لیگ ن اور شریف برادران کی سیاست کو اُن خطرات سے کہیں زیادہ خطرات کا سامنا ہو گا، جن کا سامنا 2008 ء میں مسلم لیگ قائداعظم چوہدری برادران کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ جب سے مسلم لیگ قائد اعظم اور پیپلزپارٹی متحد ہو کر مسلم لیگ ن کے خلاف روبہ عمل آئی ہیں، مسلم لیگ ن، پنجاب میں اپنی حکومت کی انتظامی مشینری کے تحت ہونے والے ضمنی انتخابات میں وسطی پنجاب (گوجرانوالہ) او ر جنوبی پنجاب ( یزمان) میں اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہار چکی ہے۔ گجرات کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی جیتی ہوئی نشست پر ابھی تک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ پنجاب 2013 ء کے انتخابی دنگل کا پلڑا کس طرف کو جھکنے جا رہا ہے، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اس کی نشانیاں ظاہر ہو رہی ہیں۔
جو تھا نہیں ہے، جو ہے، نہ ہو گا، یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ