سیاہ شمسی داغ اور کرہ ارض پر اثرات

گزشتہ کچھ عرصے سے جو مسئلہ سائنس دانوں کی دلچسپی، توجہ اور تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے


[email protected]

KARACHI: گزشتہ کچھ عرصے سے جو مسئلہ سائنس دانوں کی دلچسپی، توجہ اور تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے، وہ ہے سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کا ان کھلا راز، جس پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مذکورہ مسئلہ واقعی کرہ ارض کے باسیوں کے لیے پریشان کن ہے کہ سورج کی وہ سطح جس پر لمحہ بہ لمحہ آگ اور شعلوں کے ایسے طاقتور طوفان آتے ہیں، جن کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور اس کی سطح پر ہونے والے زبردست دھماکے، جو ہماری زمین کے ایٹمی دھماکوں سے لاکھ درجے زیادہ طاقتور ہیں، ان کی شدت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر سورج نے اپنے گرد آٹھ سیاروں (پلوٹو کے اخراج کے بعد) سے پردہ کر لیا تو یہ سیارے جو اس کے گرد کئی صدیوں سے طواف کر رہے ہیں، تباہ ہو جائیں گے، جن میں ہماری زمین بھی شامل ہے۔

اگر کسی ٹیلی اسکوپ سے سطح شمس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں سورج کی سطح پر کئی سیاہ دھبے دکھائی دیں گے ان دھبوں پر اگر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان دھبوں میں جو نسبتاً بڑے ہیں، وہ دو حصوں میں علیحدہ علیحدہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بیچ کا سیاہ مرکزی حصہ اور دوسرا اس کے گرد ہلکے رنگ کا حلقہ، کچھ دھبے بھی دکھائی دیتے ہیں، لیکن زیادہ تر دھبے مجموعوں کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر چند دن دھبوں کا مسلسل معائنہ کیا جائے تو اس بات کا بہ خوبی احساس ہو گا کہ یہ دھبے سورج کی سطح پر مستقل نہیں، بلکہ ان میں گھٹنے بڑھنے اور بننے، بگڑنے کا عمل جاری ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی معلوم ہو گی کہ یہ دھبے سب کے سب مشرق سے مغرب کی طرف محو حرکت ہیں اور اگر کوئی دھبہ راستے میں مدھم ہوتے ہوتے غائب نہیں ہوتا وہ تقریباً بارہ دن میں سورج کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جا پہنچتا ہے۔

اگر کسی طاقتور ٹیلی اسکوپ سے دیکھا جائے تو یہ تمام دھبے سورج کی سطح پر گڑھے یا بھنور کی مانند نظر آئیں گے۔ ایسا معلوم ہو گا کہ جیسے کوئی زبردست آتشی مادہ ان گڑھوں سے نکل کر چاروں طرف پھیل رہا ہو۔ غالباً یہ دھبے وہ مقام ہیں، جہاں سورج کے اندرونی بخارات، بیرونی بخارات سے کہیں زیادہ گرم تھے، لیکن باہر نکلنے کے بعد تیزی کے ساتھ چاروں اطراف میں پھیلے اور اس قدر ٹھنڈے پڑ گئے کہ ان کا درجہ حرارت ایک ہزار درجے نیچے گر گیا۔ سورج پر اب تک جو سب سے بڑا دھبہ دیکھا گیا ہے، اس کا رقبہ 62000000 مربع میل ہے، یعنی ہماری زمین سے تقریباً 100 گنا بڑا، سطح سورج پر طوفاں، دھماکوں وغیرہ کا جو سلسلہ ازل سے جاری ہے، اس میں یکسانیت نہیں ہے، کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہتی ہے۔

ماہرین یہ بات پتہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ عام طور پر یہ دھبے پانچ سے ساڑھے پانچ سال تک تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں اور پھر اتنی ہی مدت کم ہوتے رہتے ہیں، گیارہ سال میں ان کا ایک چکر پورا ہو جاتا ہے۔ بعض دھبے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ صبح وشام کے وقت، بغیرکسی ٹیلی اسکوپ کے نظرآ جاتے ہیں اور عام شخص بھی انھیں باآسانی دیکھ سکتا ہے۔ سائنس نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سورج کے دھبے زبردست مقناطیسی طاقت کا مرکز ہیں اور ان کا اثر زمین پر بھی پڑتا ہے۔ زمین پر مقناطیسی طوفان ہمیشہ ان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ طوفان بادوباراں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ جب یہ پیدا ہوتے ہیں تو ریڈیو کی نشریات کے سلسلے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔

جدید تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب سورج کے بڑے بڑے دھبے سورج کے قرص کے وسط سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ایسے وقت یا حالات میں زمین پر یہ گڑبڑ وقوع پذیر ہوتی ہے، یہی وہ دن ہوتے ہیں کہ جب آسمان پر وہ عجیب و غریب روشنیاں بھی نمودار ہو جاتی ہیں، جو قطب شمالی یا جنوبی سے قریب کے علاقوں میں دکھائی دیتی ہیں اور انور قطبی (آرورہ) کہلاتی ہیں۔

سورج کے دھبوں کے بارے میں 1800ء سے پہلے کوئی خاص ریکارڈ نہیں تھا، جتنا مستند ریکارڈ اب موجود ہے۔

اب تک یہ معلوم ہو سکا ہے کہ سورج کے دھبوں کے اثرات ہماری زمین کی فضا پر بھی مرتب ہوتے ہیں، لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ بنتے کیونکر ہیں؟ ان کی تعداد اور حجم کیوں گھٹتا بڑھتا رہتا ہے؟

پر یہ معلوم ہو چکا ہے کہ سورج کے دھبوں میں اضافہ ہونے سے مقناطیسی میدان (فیلڈ) پیدا ہوتے ہیں، جو شارٹ ویو کی ریڈیائی مواصلات کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ سورج کے سیاہ دھبے، اتنی بڑی تعداد میں اور اتنے بڑے سائز میں پیدا ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں مقناطیسی طوفان برپا ہوتے ہیں؟

یہ بات بھی اب تک راز میں ہے کہ سورج کے داغ بڑھتے ہیں تو سورج غضب ناک کیوں ہو جاتا ہے۔ گلیلیو گلیلی پہلا سائنسدان تھا، جس نے اپنی ایجاد کردہ دور بین سے آسمان کے کئی ستاروں اور سیاروں کا مشاہدہ ہی نہیں کیا، بلکہ اس نے سورج کے ان دھبوں کی درست نشان دہی اور توجہ مبذول کرائی، بہرحال گزشتہ نوے برس کے لگ بھگ گیارہ سالہ چکر کے بارے میں تحقیق ہو رہی ہے۔ یہ چکر سورج کے دھبے سے وابستہ ہے۔

اس تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ سورج کے بطن میں کہیں دھڑکن یا ارتعاش موجود ہے، جس کی وجہ سے اس کی سطح پر دھبوں کا ظہور اتنی یکسانیت، تواتر اور ہم آہنگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

سورج کے داغوں کا تعلق اگرچہ شمسی مقناطیسی تبدیلیوں سے معلوم ہوتا ہے، تاہم یہ بات طے ہے کہ ان تبدیلیوں کا ایک چکر بائیس برسوں کا بھی ہوتا ہے۔ ماہرین فلکیات سورج کے دھبوں سے زیادہ اہمیت اس ''مقناطیسی چکر'' کو دیتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے خیال میں زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔ نیز مفصل تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گیارہ سالہ اور بائیس سالہ یہ چکر بھی دراصل ایک اور بڑے چکر کے حصے ہیں، جو تین سو سال پر محیط ہے۔ زمینی فضا کو شمسی شعاعیں متاثر کرتی ہیں۔ سورج پر معمولی سی تبدیلی، زمین پر بڑی تبدیلیوں کا باعث کیوں بنتی ہے؟ یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے۔

یہ مشاہدات اس بات کا ثبوت ہیں کہ زمین کی سطح کے قریب بھی ایسی موسمی تبدیلیاں ہوتی ہیں، جن کا انحصار سورج کی شدت پر ہے۔ طوفانوں کا نظام بھی سورج سے متاثر ہے، تاہم یہ تمام تبدیلیاں، سورج سے توانائی کے بہاؤ میں معمول سے زیادتی سے کیوں وجود میں آتی ہیں؟ یہ ایک معمہ ہے، اس کے علاوہ ہر گیارہ سال کے بعد جو سورج کے سیاہ دھبے زمین کے سامنے آجاتے ہیں، ان سے تابکاری میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اب پھر اس کا ظہور ہو رہا ہے۔ نیز آنے والے دنوں میں بھی اس قسم کی ہلچل اور شمسی سرگرمی جاری و ساری رہے گی اور اس قسم کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔

بقول اقبال ''عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی'' اس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں نے سورج کے متعلق ایک اور عجیب و دلچسپ بات معلوم کی ہے کہ ہمارا سورج اس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکڑتا جا رہا ہے، یعنی اس کا حجم رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ لیکن اس کا اندرونی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اور زیادہ تیزی سے چمکتا ہے، اس طرح سے اس کی حرارت بھی بڑھتی ہے۔ نہایت آہستہ آہستہ مدتیں گزر جانے کے بعد وہ اتنا گرم ہو جائے گا کہ ہمارے تمام سمندر، دریا اور جھیلیں خشک ہو جائیں گی۔ تمام پانی آبی بخارات کی صورت میں تحلیل ہو کر فضا میں بکھر جائے گا، گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت یقینا زمین تانبے کی مانند ہو جائے گی، اس وقت جو جاندار یہاں موجود ہیں، ان کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہو جائے گا، شاید وہی قیامت کا دن ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں