72 برس

رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کی خاص رحمت کے سبب مجھ کو وہ سب کچھ ملا جس کی کوئی آرزو کر سکتا ہے


Amjad Islam Amjad August 04, 2016
[email protected]

چار اگست کو عمر عزیز کے72 برس پورے ہو رہے ہیں لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ ان کے گزرنے کا کچھ ٹھیک سے پتہ نہیں چلا جو ایک اعتبار سے مثبت اور حوصلہ بخش بات ہے کہ جس وقت کے گزرنے کا پتہ نہ چلے وہ بزرگوں کے نزدیک اس بات کا ثبوت ہے کہ کوالٹی کے اعتبار سے وہ اچھا وقت تھا ورنہ تو انسان ماہ و سال کی گنتی میں مسائل' تکالیف اور حادثوں کو ہی جوڑتا رہ جاتا ہے۔

رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کی خاص رحمت کے سبب مجھ کو وہ سب کچھ ملا جس کی کوئی آرزو کر سکتا ہے، بے پناہ محبت اور پیار اور میری صلاحیت اور کام سے زیادہ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ مناسب آسانیاں اور بنیادی رشتوں کی طرف سے ایک خوشگواری کا احساس ایسی نعمتیں ہیں جو ایک ساتھ کم کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ میرے والد صاحب (جن کا انتقال ابھی چند ماہ قبل ہوا ہے) نے کوئی58 برس قبل مجھے ایک انگریزی فلم دکھائی تھی جس کا نام S omebody Up There Likes me تھا، فلم کی کہانی تو مجھے یاد نہیں کہ ساتویں جماعت اور 14برس کی عمر میں کسی اردو میڈیم طالب علم کے لیے انگریزی کی فلم اس انگریز افسر کی تقریر سے مختلف نہیں ہوتی تھی جس کا نقشہ مولانا حالی نے کچھ یوں کھینچا ہے

اے بزم سفیران دول کے سخن آرا
ہر خورد و کلاں تیری فصاحت پہ فدا ہے
کھلتا نہیں کچھ اس کے سوا' تیرے بیاں سے
اک مرغ ہے خوش لہجہ کہ کچھ بول رہا ہے

لیکن اس کے باوجود وہ نام نہ صرف میرے ذہن سے چپک گیا بلکہ آگے چل کر خود میری اپنی زندگی کا استعارہ بن گیا کہ رب کریم نے مجھے بیک وقت بہت سے کام کرنے کی توفیق بھی دی اور ان پر اپنی برکت کا سایا بھی کر دیا کسی بہت بڑے امتحان میں نہیں ڈالا اور جو چند آزمائشیں رستے میں آئیں انھیں بھی ناقابل برداشت بوجھ نہیں بننے دیا۔ میری لغزشوں اور کوتاہیوں سے درگزر کیا اور غلطیوں سے سیکھنے اور ان سے بہت حد تک بچنے کی توفیق بھی عطا کی، سو اس دعا کے ساتھ کہ یہ تسلسل میرے آخری دم تک جاری و ساری رہے، میاں محمد صاحب کا ایک لافانی شعر ایک بار پھر درج کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ

جے میں دیکھاں اپنے ولے کج نئیں میرے پلے
تے جے میں دیکھاں رحمت تیری' بلے بلے بلے

رب کریم کی رحمتوں کے شکر اور اس کی مخلوق کے شکریے کے ساتھ ساتھ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اور معاشرہ اس شکر اور شکر گزاری کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے تھے، دس روز بعد وطن عزیز کی آزادی اور قیام کے 69 برس پورے ہو جائیں گے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں ساٹھ ستر برس کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوتے، میرے خیال میں یہ بات شاید انیسویں صدی کے آغاز تک ایک جزوی حقیقت ہو تو ہو مگر اس تیز رفتار اور گلوبل ویلیج نما دنیا میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ بے رحم اور سفاک ہونے کے ساتھ ساتھ Survival of the fittest کے اصول پر بھی عمل پیرا ہے اور ہر چیز کو ''لمحہ موجود'' کے میزان پر تولتی ہے، یہی بات علامہ اقبال نے ایک صدی قبل ان الفاظ میں کہی تھی کہ

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو!

اب صورت حال یہ ہے کہ افراد کی حد تک تو ہماری کارکردگی اتنی زیادہ بری نہیں کہ ہم نے بھلے ہی ''عظیم'' لوگ کم کم پیدا کیے ہوں مگر معیاری اعتبار سے عمدہ اور غیر معمولی لوگوں کی تعداد اب بھی اچھی خاصی ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے عام آدمیوں کی ذہنی' اخلاقی' معاشی اور تہذیبی سطح بوجوہ بلند نہیں ہو پا رہی۔ نفسا نفسی' عدم اعتماد' احساس کمتری اور عدم برداشت کے رویوں نے معاشرے سے انصاف اور مساوات کو عملی طور پر تقریباً ختم کر دیا ہے۔ پارلیمان' انتظامیہ اور میڈیا سب کے سب اپنے اصل کام کے بجائے کوئی اور کام کر رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت میں تین سال کا تھا سو ٹھیک سے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن 65ء کی جنگ اور سقوط ڈھاکا کے وقت میری عمر بالترتیب 21 اور 27برس تھی سو میں نے ہجوم کو قافلہ اور قافلے کو پھر سے ہجوم بنتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ گزشتہ 45برس سے میری نسل کے لکھنے اور سوچنے والے اس منتشر ہجوم کو پھر سے ایک ایسا قافلہ بنانے کے عمل میں شامل ہیں جو نہ صرف یہ کہ دوبارہ انتشار کا شکار نہ ہو بلکہ اس کا ہر قدم ہمیں اس رستے پر آگے لے جائیجو ترقی' استحکام' معاشرتی انصاف اور خود انحصاری کی منزل کی طرف کھلتا ہے، عام حیاتیاتی قاعدے کے مطابق اب یہ نسل واپسی کے سفر کی لائن میں ہے، سو یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ یہ خواب ہماری زندگیوں میں ہی تعبیر آشنا ہو جائے کہ ذاتی کے ساتھ ساتھ ہمارے اجتماعی ضمیر کا بوجھ بھی کم ہو سکے۔

سال گرہ کے حوالے سے میری نظموں کی تعداد اچھی خاصی ہے مگر اس وقت ایک پرانی لیکن معروف غزل کے اشعار درج کرنا چاہ رہا ہوں کہ اس میں ان 72برسوں کی روداد زیادہ بہتر طریقے سے بیان ہوئی ہے

حساب عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
نجانے کب تھا! کہاں تھا! مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کہیں گزارا ہے!
عجب اصول ہیں اس کاروبار دنیا کے
کسی کا قرض' کسی اور نے اتارا ہے
ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے
یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ہم تم
مگر وہ کون ہے! جو تیسرا کنارا ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔