خرابی کی جڑ

ہم میں اور مہذب معاشروں میں سوائے تربیت اور احساس ذمے داری کے اور کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے۔


Amjad Islam Amjad December 01, 2012
[email protected]

65 برس ہو چکے ہیں، اس جڑ کو تلاش کرتے ہوئے جس سے خرابی کی شاخیں مسلسل پھوٹتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ اخبارات' ریڈیو' ٹیلی ویژن اور دانش وروں کے مختلف فورم سب کے سب اس نا خوشگوار اور بظاہر نا قابل حل سوال سے پیدا ہونے والی صورتحال کی نوحہ گری میں شب و روز مصروف ہیں لیکن جس طرح فلسفی کو بحث کے اندر خدا نہیں ملتا اور وہ ڈور کو مسلسل الجھائے چلا جاتا ہے، اسی طرح یہ نوحہ گری بھی کتھارسس کرنے کے بجائے دلوں کے بوجھ کو بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ میں اپنے کالموں میں عام طور پر خرابی کو پھوڑے اور اس کی جڑ کو انفیکشن (infection) سے تشبیہہ دیا کرتا ہوں کہ پھوڑوں کی سرجری اپنی جگہ مگر جب تک اس انفیکشن کو دور نہیں کیا جائے گا جو اس خرابی کی جڑ ہے تب تک ایک منفی انداز میں ''ادھر ڈوبے ادھر نکلے'' کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

کل شام مجھے لاہور کی مشہور لبرٹی مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ انتظامیہ نے شاپنگ ایریا کو وسیع اور ٹریفک سے پاک رکھنے کے لیے وہاں گاڑیوں کی آمد و رفت ممنوع قرار دے دی ہے اور نیم دائرہ نما اس مارکیٹ کے درمیانی حصے میں ایک خاصی بڑی جگہ پارکنگ کے لیے مخصوص کر دی ہے جو یقیناً ایک بہت اہم اور احسن عمل ہے کہ اس طرح گاہکوں اور دکانداروں' دونوں کو بہت آسانی ہو گئی ہے لیکن وہ جو بے ترتیبی' غیر ذمے داری اور اصول شکنی کی انفیکشن ہمارے پورے سسٹم میں داخل ہو چکی ہے اس کی وجہ سے لوگ اس سہولت کے حسن کو بھی برباد کر دیتے ہیں اور وہ یوں کہ پارکنگ کے انٹری پوائنٹ سے ہر گاڑی کو ایک ٹکٹ دیا جاتا ہے جسے Exit پوائنٹ پر مقررہ رقم کی ادائیگی کے ساتھ واپس لے لیا جاتا ہے۔

عام حالات میں ایک گاڑی کو اس عمل سے گزرنے میں اوسطاً 30 سیکنڈ لگتے ہیں۔ رات کے وقت رش کی وجہ سے بعض اوقات لائن لمبی ہو جاتی ہے اور آپ کو پارکنگ ایریا سے نکلنے میں دس بارہ منٹ بھی لگ جاتے ہیں۔ میری گاڑی سے آگے اندازاً پندرہ گاڑیاں تھیں لیکن مجھے نکلنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ گیا، وجہ یہ تھی کہ آٹھ دس گاڑیاں لائن میں لگنے کے بجائے بائیں طرف کی نسبتاً کھلی جگہ سے اوور ٹیک کر کے آگے نکل گئیں اور اس جگہ سے لائن میں گھسنے کی کوشش کرنے لگیں۔ جہاں سے بیک وقت صرف ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری ترتیب گڑبڑ ہو گئی اور جو گاڑیاں قانون کی پابندی کرتے ہوئے اپنی باری پر بارہ سے پندرہ منٹ میں چیک پوائنٹ کراس کر سکتی تھیں انھیں تقریباً اتنا ہی اضافی وقت صرف کرنا پڑا۔

غصہ' افسوس اور فرسٹریشن اس کے علاوہ تھی اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان فساد انگیز اور قانون شکن گاڑیوں کو ایک آدھ کے سوا سب ان کے مالکان چلا رہے تھے جن کی کاروں کے ماڈلز' ملبوسات اور چہروں سے ان کی امارت اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ''جہالت'' جلی حروف میں درج تھی اور ان میں ہر عمر کے لوگوں کے علاوہ ایک خاتون بھی شامل تھی۔ عام طور پر عوامی نفسیات کے ماہرین اس طرح کے منفی رویوں کو اس غربت' جہالت' ضد' فرسٹریشن اور احتجاج کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جن کے ذریعے سے ہماری نئی نسل اپنی حق تلفیوں کے رد عمل کا اظہار کرتی ہے مگر یہ تو سب کے سب بظاہر پڑھے لکھے' زمانہ دیدہ اور آسودہ حال لوگ تھے اور صاف دیکھ رہے تھے کہ ان کے اس عمل سے نہ صرف لائن میں آنے والے لوگوں کی حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ ٹریفک کی رفتار پر بھی منفی اثر پڑے گا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟

کسی نے ان کو روکا یا سمجھایا کیوں نہیں؟ مہذب معاشروں کی طرح ڈیوٹی پر موجود اہل کاروں نے ان لوگوں کو گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے واپس لائن کے آخر میں اپنی جگہ پر جانے کے لیے کیوں نہیں کہا؟ ان گوناگوں سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ سب اسی غیر ذمے داری اور بے ترتیبی کی انفیکشن کا کیا دھرا ہے جس کی وجہ سے معاشرے کا پورا وجود متاثر ہو چکا ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم' نظام حیات اور بیمار معاشرتی اقدار نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔

ترقی یافتہ معاشروں کے عوام کے اجتماعی رویوں میں یہ خرابیاں اس لیے نہ ہونے کے برابر ہیں کہ انھوں نے ان کی جڑوں کو ان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس انفیکشن کو پیدا ہی نہیں ہونے دیا جو راستہ ملتے ہی پھیل کر معاشرے کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ میں نے یہ منظر یورپ اور امریکا میں کئی بار دیکھا ہے کہ ایک شخص میٹرو سے نکل کر دوڑنے کے انداز میں چلتا ہوا پسینے میں شرابور اور چڑھے ہوئے سانسوں کے ساتھ کسی قطار تک پہنچتا ہے اور پھر خاموشی سے اس کے آخر میں کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس کے سسٹم میں قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا اس طرح سے شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ غیر شعوری طور پر بھی اس پابندی کا عادی ہو جاتا ہے۔

ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہاں اسکولوں میں KG کے بچوں کو ٹریفک رولز کی عملی مشقوں کے ذریعے اس طرح سے سکھایا جاتا ہے کہ یہ ان کی فطرت ثانیہ بن جاتے ہیں، اسکول کے اندر ٹریفک سگنل' زیبرا کراسنگ اور متحرک ٹریفک کا انتظام کر کے بچوں کو درجنوں بار ہر طرح کی صورتحال میں سڑک پر چلنے اور اسے کراس کرنے کی اس قدر مشق کرائی جاتی ہے کہ اشارے کے مطابق دائیں بائیں دیکھ کر سڑک پر قدم رکھنا اور زیبرا کراسنگ کی پابندی کرنا ان کے Reflexes کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اس عمر کو پہنچتے ہیں کہ انھیں ڈرائیونگ لائسنس مل سکے تو ایک بار پھر انھیں طرح طرح کے امتحانی مرحلوں سے گزارا جاتا ہے۔

ہر طرح کے ٹریفک سائنز کو سمجھنے کی اہلیت اور پارکنگ کے طریقوں کے ضمن میں ان کی عملی صلاحیت کو سختی سے پرکھا جاتا ہے۔ تب جا کر کہیں انھیں ڈرائیونگ لائسنس ملتا ہے لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ساری زندگی اس لائسنس ہولڈر کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے اور ہر غلطی پر اس کے کچھ پوائنٹس کاٹ لیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات مختصر یا طویل مدت کے لیے اس کا لائسنس معطل یا منسوخ بھی کر دیا جاتا ہے۔ تا کہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ جب کہ وطن عزیز میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 فیصد ڈرائیور بغیر لائسنس کے ہر طرح کی ہلکی اور بھاری گاڑیاں آزادانہ چلاتے پھرتے ہیں اور باقی کے 50 فیصد میں سے نصف سے زیادہ کے ڈرائیونگ لائسنس بغیر کوئی ٹیسٹ پاس کیے صرف سفارش کی بنیاد پر حاصل کردہ ہوتے ہیں۔

اس ساری تمہید اور تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ ہم میں اور مہذب معاشروں میں سوائے تربیت اور احساس ذمے داری کے اور کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے۔ قانون کی خلاف ورزی پر چالان نہ ہونا یا سفارش اور طاقت کے زور پر اس سے بچ جانا وغیرہ وغیرہ محض پھوڑے ہیں۔ اصل مسئلہ تو وہ انفیکشن ہے جس کی وجہ سے یہ پھوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اور آپ بھی تربیت' احساس ذمے داری اور قانون کی بالا دستی کے انجکشن کے ذریعے اس انفیکشن کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔ کمی ہے تو صرف حسن عمل اور حسن نیت کی۔ مولانا روم کا کیا زندہ شعر ہے کہ

ہر بنائے کہنہ کہ بآواں کند

اول آں تعمیر را ویراں کند

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں