ایک رنگ… دو روپ
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے اس کے ادب میں تانیثیت کا شعور اور فروغ ابھی نسبتاً نیا نیا ہے
ISLAMABAD:
ادب میں تانیثیت Feminisim کا بطور ایک تحریک کے آغاز تو انیسویں صدی کے معاشی اور علمی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک سے ہوا لیکن اس کی جھلکیاں ہمیں مختلف زبانوں کے قدیم ترین ادب میں بھی ملتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت حقوق نسواں سے متعلق تقاضے اور استعارے آج سے بہت مختلف تھے۔
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے اس کے ادب میں تانیثیت کا شعور اور فروغ ابھی نسبتاً نیا نیا ہے لیکن پاکستان کی دیگر بڑی زبانوں کی داستانوں اور رومانی قصوں میں اس کے اثرات خاصے واضح اور گہرے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ اپنی جگہ پر ایک الگ بحث ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ اردو میں اس کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ترقی پسند تحریک کے سائے میں ہوا۔
''انگارے'' والی بیگم رشید جہاں، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کو فکشن اور ادا جعفری اور زہرہ نگاہ کو شاعری میں اس تحریک کے اولین علم برداروں میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن Feminism کا وہ روپ جس کی مغرب میں نمایندہ سلویا پلاتھ اور اینجلا ڈیوس وغیرہ ہیں، ہمارے یہاں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور کسی حد تک پروین شاکر کی شکل میں ہی سامنے آیا اور اب تو یہ بوجہ ایک فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ زیادہ تر نئی شاعرات اسے اظہار ذات کے بجائے فوری شہرت اور توجہ حاصل کرنے کے لیے بطور ایک زینہ استعمال کرتی ہیں۔ البتہ جن چند جینوئن اور کمٹڈ شاعرات نے اس تحریک کو طاقت اور وسعت دی ہے، ان میں سے دو کے تازہ شعری مجموعے اس وقت میرے سامنے ہیں۔
شہناز پروین سحر اسّی کی دہائی میں ایک معروف نام بن چکی تھیں لیکن ان کا اولین شعری مجموعہ ''ایک اور آخری دن'' حال ہی میں شایع ہوا ہے۔ اسی طرح عارفہ شہزاد بھی گزشتہ پندرہ برس میں بطور ایک استاد، نقاد اور شاعرہ کے اپنی پہچان قائم کر چکی ہیں لیکن ان کا یہ پہلا ہی شعری مجموعہ ہے جو ''عورت ہوں نا!'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔
ذرا توجہ سے دیکھا جائے تو دونوں مجموعوں کے عنوانات ہی وہ بہت کچھ کہہ رہے ہیں جو ان کے اندر شاعری کی زبان میں کہا اور جمع کیا گیا ہے البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ شہناز پروین سحر کی ''عورت'' نے وہ بہت سا اضافی بوجھ اٹھا رکھا ہے جو ہمارے معاشرتی نظام کی ایک تلخ اور تکلیف دہ حقیقت ہے اور اپنے حق کے لیے لڑنے یا ظالم کا گریبان پکڑنے کے بجائے ہر معاملے کو ایک رومان زدہ عاجزی انکساری اور بے بسی کی چادر میں لپیٹ دیا ہے جب کہ عارفہ شہزاد کے یہاں بھی عورت اعلان بغاوت تو نہیں کرتی البتہ احتجاج، سوال اور مسائل کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پورے وجود کے ساتھ مسئلے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو ضرور کرتی ہے۔
اس اعتبار سے دونوں کے یہاں تانیثیت کے یکساں رنگ کے باوجود اس کے دو مختلف روپ بالکل واضح دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ عارفہ شہزاد نے صرف نظم کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے جب کہ شہناز پروین سحر نے نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی بہت عمدگی سے دریاؤں کو کوزوں میں بند کیا ہے۔ سو پہلے شہناز پروین سحر کی غزلوں کے چند منتخب اشعار اور پھر عارفہ شہزاد کی منتخب شاعری کہ اس کالم کے دامن کی تنگی اس سے زیادہ مثالوں کی متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا اس مشتے از خروارے سے ہی اندازہ کرنا پڑے گا کہ یہ دونوں مجموعے اپنے دامن میں اس طرح کی اور سوغاتیں سمیٹے ہوئے ہیں۔
میں اپنی ذات کے پسماندگان میں ہو سحر
وہ شخص مجھ کو ملا بھی تو خون بہا کی طرح
میں لکھ رہی تھی داستاں، ترا بھی نام آ گیا
کہانی اپنے آپ ہی کتاب سے نکل گئی
پھر ایک قتل ہے اور خون بہا نہیں واجب
کہ تیر ظل الٰہی سے بے ارادہ چلا
جس کی خاطر شاعری کرتی رہتی تھی
اب اس کو دیوان میں رکھ کر بھول گئی
جو میرے ساتھ چلتا جا رہا ہے
وہ سایہ ہے مگر میرا نہیں ہے
میں نے پیار سے چوم لیا تو نیلے پڑ گئے ہونٹ مرے
تو نے خط میں رکھ کر بھیجے تھے کتنے زہریلے پھول
پسینہ پونچھے گا آستیں سے، نظر اٹھائیگا پھر یقیں سے
مرے سوالوں پہ مسکرا کر وہ مجھ کو حیرت میں ڈال دیگا
پلٹ کے دیکھوں تو اکثر یہ سوچتی ہوں سحر
میں اپنی عمر گزشتہ کے کس برس میں ہوں
یہ معذرت ہے مرے جسم ناتواں تجھ سے
تجھے پتہ ہے رہائش بدل رہی ہوں میں
لوگ جو کہہ رہے ہیں، کہنے دے
اب مجھے میرے ساتھ رہنے دے
اور اب عارفہ شہزاد کی نظموں سے کچھ اقتباسات
مجھے چاہیے ہیں
تمہاری آنکھیں، زمیں کی کوکھ سے پھوٹتی
سرخوشی کے رنگے دیکھنے کے لیے
اور مجھے چاہیے ہے
تمہاری ساری محبت
تم سے محبت کرنے کے لیے (عورت ہوں نا!)
میں روحوں کے اقرار کے وقت جانے کہاں تھی؟
کون سی صف میں تھی؟ یا نہیں تھی؟
اگر تھی تو اقرار بھی کیا تھا
عدم میں اگر روح خود مکتفی تھی
تو پھر خالقِ کن فکاں کی وہ کیا مصلحت تھی
کہ میں دوسری تھی؟ (وہ کیا مصلحت تھی؟)
یہ میرا ہاتھ تھامے
روشنی جو چل رہی ہے
راستے ہی سے پلٹتی ہے، پلٹ جائے!
اندھیرا میری شہ رگ سے لپٹتا ہے، لپٹ جائے
ذرا بھی ڈر نہیں لگتا (ذرا بھی ڈر نہیں لگتا)