غریب آسمانی بجلی کے بھی نشانے پر

ترقی پذیر دنیا میں برق سماوی سے ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں


Nadeem Subhan July 31, 2016
گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ فوٹو : فائل

پڑوسی ملک بھارت میں مون سون کا سیزن شروع ہوچکا ہے اور بارش خوب برس رہی ہے۔ کالی گھٹائیں گِھر گِھر کر آرہی ہیں، مگر حیات بخش پانی سے لبریزسیاہ بادلوں کو دیکھ کر کسانوں کے چہرے پر خوشی کے بجائے خوف و ہراس ڈیرے ڈال لیتا ہے۔ سبب یہ ہے کہ سیاہ بادلوں کے درمیان کڑکتی بجلی ان کے لیے موت کا پیغام لاتی ہے۔ طوفانی بارش کے شور میں فرشتۂ اجل کڑکتی بجلی کے روپ میں دھرتی کی جانب لپکتا ہے اور کھیتوں میں مصروف کار کسانوں کو زندگی سے محروم کردیتا ہے۔

مون سون کے موجودہ سیزن کے دوران بھارت میں اب تک 120 سے زاید افراد آسمانی بجلی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد کسانوں کی ہے جو حسب معمول کھیتوں میں کام کرتے ہوئے برق سماوی کا نشانہ بن گئے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق 90 ہلاکتیں صرف دو روز کے دوران ہوئیں۔ بجلی گرنے کے یہ واقعات چار ریاستوں بہار، اترپردیش، جھاڑکھنڈ اور مدھیہ پردیش میں رونما ہوئے۔ بیشتر ہلاکتیں بہار میں ہوئیں۔

ہندوستان میں آسمانی بجلی گرنے سے ہر سال لگ بھگ ڈھائی ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ اس طرح قدرتی آفات سے ہونے والی اموات کا آسمانی بجلی ایک بڑا سبب ہے۔ 2014ء میں2582 بھارتی باشندے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ رواں سال اس تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کیوں کہ دو برس کی خشک سالی کے بعد اس بار بادل کُھل کر برس رہے ہیں اور ان کی ہم راہی میں کڑکتی بجلیاں بھی غیظ و غضب سے بھری دکھائی دے رہی ہیں۔



بھارت کی طرح بنگلادیش کے کسانوں کے لیے بھی مون سون کی بارشیں موت کا پیغام لے کر آتی ہیں۔ ہندوستان کی طرح اس بار بنگلادیش میں بھی معمول سے زاید بارشیں ہورہی ہیں، اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی ماضی سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مارچ سے لے کر جون کے اختتام تک سابق مشرقی پاکستان میں 261 ہلاکتیں ہوچکی ہیں، جب کہ وہاں مون سون کا سیزن ہنوز جاری ہے۔ پچھلے سال کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کے دوران 265 بنگالی باشندے لقمۂ اجل بنے تھے مگر رواں سال صرف چار ماہ کے دوران یہ تعداد پوری ہوچکی ہے۔

طوفانی بارشوں کے دوران دھرتی کی جانب لپکتی برق کی بڑھتی ہوئی ہلاکت خیزی کے پیش نظر حکومت نے اسے قدرتی آفت قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام کے بعد حکومت آسمانی بجلی کے ' ہاتھوں' زندگی کی بازی ہار جانے والوں کے اہل خانہ کو امداد کے طور پر7500 سے لے کر 25000 ٹکا تک ادا کررہی ہے۔ اس مد میں مئی کے اواخر تک پندرہ لاکھ ٹکا ادا کیے گئے۔ بہار کی ریاستی حکومت نے بھی آسمانی بجلی سے ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کو چار لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔

٭آسمانی بجلی کیا ہے؟
آسمانی بجلی دراصل بادلوں میں پیدا ہونے والا برقی چارج ہے۔ یہ چارج اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بادل اور تیز ہوا ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہیں۔ جب بادل کے انتہائی منفی بار والے حصے سے چارج مثبت حصے کے حامل بادل کی طرف لپکتا ہے تو پھر چمک پیدا ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق زمین میں بھی مثبت یا منفی چارج ہوتا ہے۔ اس لیے آسمانی بجلی اس چارج کی طرف بھی لپکتی ہے اور زمین میں چلی جاتی ہے۔ برق سماوی میں کروڑوں وولٹ اور کروڑوں ایمپیئر کرنٹ ہوتا ہے۔ حد درجہ وولٹیج اور میگا ایمپیئرز کی وجہ سے آسمانی بجلی اپنے راستے میں آنے والی ہوا کو آیونائز کردیتی ہے، جس کی وجہ سے ہوا میں اس کا سفر ممکن ہوتا ہے۔ برستے بادلوں کے درمیان بجلی رہ رہ کر چمکتی ہے۔

بجلی کی ہر چمک ایک پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ اس عمل کے بعض حصوں کو سائنس داں اب تک کُلی طور پر نہیں سمجھ پائے۔ کروڑوں وولٹیج طاقت کی حامل بجلی جب زمین میں جذب ہونے کے لیے اس کی جانب لپکتی ہے تو راہ میں آنے والی ہر شے کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے، تاہم اگر اسے ایصالیت کے لیے موزوں راستہ میسر آجائے تو پھر یہ بنا تباہی پھیلائے زمین کے سینے میں جا چھپتی ہے۔ ایک اور حیران کُن حقیقت یہ ہے کہ بادلوں میں برقی چارج کی صورت میں بجلی جتنی بار چمکتی ہے، اس تعداد کا ایک چوتھائی ہی زمین کی طرف لپکتا ہے۔ یعنی اگر سو بار بجلی کڑکی تو پچیس بار زمین پر گرتی ہے اور پچھتر بار ایک سے دوسرے بادل کی جانب لپک کر ختم ہوجاتی ہے۔

٭آسمانی بجلی اور گلوبل وارمنگ کا باہمی تعلق
بھارت اور بنگلادیش میں طوفان برق و باراں اور بجلی گرنے کے واقعات کو گلوبل وارمنگ سے جوڑا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تغیرات کا اثر اب ہر سال محسوس کیا جانے لگا ہے۔ ایک سال بادل کُھل کر برستے ہیں تو اگلے برس پانی کی ایک بوُند گرائے بغیر گزر جاتے ہیں۔ یہ گلوبل وارمنگ کی کارستانی ہے جس کی وجہ سے اب موسم کی درست پیش گوئی پیش کرنا ممکن نہیں رہا۔



2014ء میں امریکا کی کیلے فورنیا یونی ورسٹی سے وابستہ سائنس دانوں کی ایک تحقیق منظر عام پر آئی تھی۔ اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا تھا عالمی درجۂ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ سائنس دانوں نے اس تحقیق میں ثابت کیا تھا کہ درجۂ حرارت میں ایک ڈگری اضافے سےطوفان برق و باراں کے دوران زمین پر بجلی گرنے کے واقعات 12 فی صد بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے اگر گلوبل وارمنگ میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تو بجلی گرنے کے واقعات موجودہ سے 50 فی صد تک بڑھ جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ پھر ہلاکتیں اور دیگر نقصانات بھی بڑھ جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں سالانہ 24000 ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔

٭ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہلاکتیں کیوں؟
ہندوستان اور بنگلادیش میں رواں مون سون سیزن کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے اب تک چار سوکے قریب اموات ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں ان واقعات میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان جہاں اور بہت سے فرق موجود ہیں وہیں آسمانی بجلی سے ہلاکتوں کے ضمن میں بھی تفاوت پایا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ دنیا میں، تیسری دنیا کی نسبت اس قدرتی آفت ( بنگلا دیشی حکومت کے مطابق) کا بہت کم لوگ نشانہ بنتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان میں ہر دس لاکھ میں سے ایک شخص اس کا شکار ہوتا ہے۔ امریکا میں یہ شرح تیس لاکھ میں سے ایک ہے۔ یورپی ممالک کے لیے یہ شرح اور بھی کم یعنی پچاس لاکھ میں سے ایک ہے۔ ان کے مقابلے میں ایشیا اور افریقا میں یہ شرح سو گنا زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر زمبابوے میں ہر دس لاکھ میں سے بیس افراد اس ذریعے سے لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ ملاوی میں آسمانی بجلی کے ' حملے' میں سالانہ ہر دس لاکھ میں سے چوراسی افراد موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غریب اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ان میں بھی اکثریت کاشت کاروں کی ہوتی ہے جو کھیتوں میں مصروف کار ہوتے ہیں۔



ترقی یافتہ اور تیسری دنیا کے مابین پائے جانے والے اس فرق کی وجہ کیا ہے؟َ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا کے اُس حصے میں لوگ آسمانی بجلی سے بچاؤ کے طریقوں پر عمل کرتے ہیں۔ حکومتوں نے گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے جو ضابطے مقرر کیے ہیں، دوران تعمیر انھیں مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کتنے لوگ مکانات تعمیر کرتے ہوئے آسمانی بجلی سے محفوظ رہنے کے لیے ایصالی نظام کا اہتمام کرتے ہیں؟ کتنے گھروں کے اوپر آسمانی بجلی کا ایصال کرنے والی دھاتی سلاخ لگی ہوئی نظر آتی ہے؟

انیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں، امریکا میں صرف ایک فی صد گھروں میں بجلی کی ایصالیت کا نظام موجود تھا۔ 1950ء کے عشرے میں، اس سلسلے میں قواعد و ضوابط وضع اور لاگو ہونے کے بعد ہر گھر میں آسمانی بجلی سے بچاؤ کا یہ نظام نصب ہوگیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں آسمانی بجلی سے بچاؤ کے اور بھی کئی نظام وجود میں آچکے ہیں، بل کہ ان حفاظتی نظاموں کی ضرورت نے پوری ایک صنعت کو جنم دے دیا تھا۔ امریکا میں گذشتہ بیس برسوں کے دوران گھروں پر آسمانی بجلی گرنے سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، کیوں کہ بجلی گرتے ہی اوپر موجود سلاخ میں داخل ہوکر ایصالی تاروں میں سے ہوتی ہوئی زمین میں جذب ہوجاتی ہے۔

ایک صدی قبل امریکا میں، آسمانی بجلی گرنے سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں ایک چوتھائی تعداد کسانوں کی ہوتی تھی جو کھیت کھلیانوں اور باڑوں میں مختلف کام کرتے ہوئے اس کا نشانہ بن جاتے تھے، مگر آج یہ تعداد انتہائی محدود ہوچکی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ کسانوں کا زیادہ وقت ٹریکٹر میں گزرتا ہے۔ امریکی کاشت کاروں کے پاس ایسے ٹریکٹر ہیں جو انھیں طوفان برق و باراں کے دوران آسمانی بجلی کی زد میں آنے سے بچاتے ہیں۔ جدید مشینوں کے استعمال کی وجہ سے وہاں کاشت کاروں کو زیادہ وقت کھیتوں کھلیاں میں گزارنے کی ضرورت نہیں رہی۔ کھیتوں میں کام کاج کا دورانیہ کم ہوجانے سے بھی آسمانی بجلی کے ہاتھوں ہلاکتوں کی شرح کم ہوئی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسان اور عام شہری جانتے ہیں کہ طوفانی بارش اور گرج چمک کے دوران انھیں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔

احتیاطی تدابیر:
٭ گھروں، عمارتوں، اور فارم ہاؤسز میں آسمانی بجلی کی ایصالیت کا نظام (لائٹننگ کنڈکٹر) ضرور نصب کروائیں۔
٭ بجلی کی کڑک سنتے ہی عمارت میں یا گاڑی کے اندر پناہ لینے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں کہ بجلی گرنے کے لیے بارش کا ہونا ضروری نہیں۔ لہٰذا کڑک سنتے ہی بچاؤ کی کوشش کریں۔
٭ آخری بار بجلی چمکتی ہوئی نظر آنے یا کڑک سنائی دینے کے نصف گھنٹے بعد تک بجلی گرنے کا خطرہ موجود رہتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں باہر نکلنے سے گریز کریں۔
٭ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو اگر فوری طور پر جائے پناہ میسر نہ آئے تو انھیں بیٹھ یا لیٹ جانا چاہیے، کیوں کہ بجلی بلند مقامات یا چیزوں پر گرتی ہے۔
٭ آسمانی بجلی گرنے کو سنجیدگی سے لیں اور آئندہ کے لیے احتیاطی اقدامات اختیار کرنے میں تاخیر نہ کریں۔

خوش قسمت ترین انسان جو سات بار برق سماوی کی زد میں آنے کے باوجود زندہ رہا



امریکی شہری روئے سلیون کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس پر سات بار آسمانی بجلی گری مگر خوش قسمتی سے ہر بار وہ زندہ بچتا رہا۔ روئے کا تعلق ریاست ورجینیا سے تھا۔ یہاں وہ محکمۂ جنگلات میں ملازم تھا۔ اس پر آسمانی بجلی گرنے کے بیشتر واقعات بھی دوران ڈیوٹی پیش آئے جب وہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں دفتر سے باہر جنگل میں ہوتا تھا۔ ان حملوں میں اس کی جان تو بچتی رہی مگر وہ زخمی اور مختلف اعضا سے محروم ضرور ہوتا رہا۔ پہلی بار آسمانی بجلی کا نشانہ وہ 1942ء میں بنا تھا۔

جان تو بچ گئی مگر وہ ایک پاؤں کے پنجے سے محروم ہوگیا تھا۔ پھر 1969ء میں 24 سال بعد ایک بار پھر اسے برق نے چُھوا اور نشانی کے طور پر اس کی بھویں ساتھ لے گئی۔ جولائی 1970ء میں اس کا بایاں شانہ جل گیا۔ 16 اپریل 1972ء کو سر کے بال جل گئے۔ سات اگست 1973ء کو ایک بار پھر وہ برق آسمانی کی زد میں آیا۔ اس مرتبہ اس کی دونوں ٹانگوں کی کھال جل گئی اور سر ایک بار پھر بالوں سے محروم ہوگیا۔ پانچ جون 1976ء کو اس کا گھٹنا زخمی ہوگیا۔ بعد ازاں آخری حملے میں اس کا سینہ شدید متاثر ہوا۔ آسمانی بجلی حملوں میں ہر بار زندہ بچ جانے کی وجہ سے اسے ہیومن کنڈکٹر ( انسانی برقی موصل) کہا جانے لگا تھا۔ لاکھوں وولٹ شدت کے بجلی کے حملوں میں زندہ رہنے والے روئے نے ستمبر 1983ء میں، محبت میں ناکامی سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی تھی۔

جب برقِ سماوی نے 21 گائیں بھینسیں جلاڈالیں
انسانوں کے علاوہ جانور بالخصوص مویشی بھی آسمانی بجلی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ اس نوع کا ایک واقعہ رواں برس امریکا میں پیش آیا۔ جنوبی ڈکوٹا کے ایک مویشی فارم میں آسمان بجلی گرنے سے اکیس گائیں اور بھینسیں ہلاک ہوگئیں۔ طوفانی بارش کے دوران گایوں کے رکھوالے انھیں باڑے کے اندر بند کرنا بھول گئے تھے یا محض بے پروائی کی وجہ سے انھیں باہر کُھلے احاطے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔



بدقسمتی سے یہ تمام مویشی ایک بڑی دھاتی کُھرلی کے گرد بندھے ہوئے تھے۔ طوفان برق و باراں کے دوران بجلی کڑکی اور چشم زدن میں دھاتی کھرلی پر آگری۔ ایک زور دار دھماکا ہوا اور اطراف کھڑی ہوئی تمام گائیں بھینسیں موقع پر ہی جل کر بھسم ہوگئیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ اس سے ایک ہفتے قبل میسوری میں پیش آیا تھا، جس کے دوران ایک درخت کے نیچے کھڑی ہوئی گائیں آسمانی بجلی کا شکار ہوگئیں۔ گذشتہ برس مسی سپی کے ایک مویشی فارم میں بجلی گرنے سے تینتیس مویشی ہلاک اور پچیس زخمی ہوگئے تھے۔

آسمانی بجلی کے پسندیدہ ترین مقامات
دریائے کیٹاٹیمبو، ونیزویلا: دریائے کیٹاٹیمبو، ونیزویلا کے شمال مغربی حصے میں بہتا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ز میں اسے اس مقام کے طور پر شامل کیا گیا ہے جہاں فی مربع کلومیٹر میں سب سے زیادہ بار آسمانی بجلی گرتی ہے۔ یہاں ایک گھنٹے کے دوران 3600 بار بجلی گرتی ہے، یعنی ہر سیکنڈ میں 60 بار ! بہ ظاہر یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے مگر سائنسی تحقیق سے یہاں اوسطاً اتنی تعداد میں بجلی کا گرنا ثابت ہوچکا ہے۔

کیفوکا، عوامی جمہوریہ کانگو: کانگو کے شمالی پہاڑی علاقے میں کیفوکا نامی چھوٹا سا قصبہ ہے۔ سطح سمندر سے 975 میٹر کی بلندی پر واقع پہاڑی قصبے میں طوفانی بارشوں کے دوران، سال میں فی مربع کلومیٹر میں 158 بار بجلی گرتی ہے۔ ناسا کے گلوبل ہائڈرولوجی اینڈ کلائمیٹ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق بحراوقیانوس کی سمت سے چلنے والی ہوائیں جب پہاڑیوں سے ٹکراتی ہیں تو طوفانی بارشیں ہوتی ہیں جن کے دوران بجلی بھی گرتی ہے۔



ٹیریسینا، برازیل: ٹیریسینا، ریاست پیاوی کا دارالحکومت اور گنجان ترین شہر ہے۔ شمالی برازیل میں واقع یہ شہر اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
وسطی فلوریڈا: امریکا کی تمام ریاستوں میں آسمانی بجلی سب سے زیادہ فلوریڈا کو نشانہ بناتی ہے۔ وسطی فلوریڈا میں آسمانی بجلی گرنے کی شرح 20 مرتبہ فی مربع کلومیٹر ہے۔ بجلی عام طور پر ٹیمپا اور ٹیٹوسویلے کے درمیانی علاقے میں گرتی ہے۔ اور برق آسمانی سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی اسی حصے میں ہوتی ہیں۔

ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، امریکا: ایک سو دو منزلوں پر مشتمل ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دنیا کی انتیسویں اور امریکا کی پانچوں بلند ترین عمارت ہے۔ ہر سال اوسطاً23 بار اس عمارت کو آسمانی بجلی چُھوتی ہے۔ ایک بار تو محض 24 منٹ کے دوران آٹھ بار اس پر آسمانی بجلی گری تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں