پوری دنیا دہشت گردوں کے نشانے پر
دہشت گردوں کے بے دریغ حملوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے
دہشت گردوں کے بے دریغ حملوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف رواں سال میں اب تک دہشت گردی کے 1272 حملے ہو چکے ہیں، جن میں پوری دنیا میں 11,772 سے زیادہ افراد مارے گئے۔ جولائی کے مہینے میں دہشت گردوں نے 13 ملکوں میں 39 حملے کیے، جن میں 615 جان سے گئے اور 740 زخمی ہوئے۔
جن ملکوں کو ان دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان میں وہ ملک بھی شامل ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور وہ مغربی ترقی یافتہ ملک بھی شامل ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ دہشت گرد القاعدہ کی نظریاتی حکمت عملی سے متاثر ہیں جسے اسلامی ریاست (IS) کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے۔
اسلام پسندوں کی طرف سے اس وقت امریکا اور یورپ میں مسلسل دہشت گرد حملوں کا مقصد اسلامی خلافت کی توسیع کے خلاف لڑنے اور مسلمان اکثریت والے ملکوں میں دھوکے باز حکومتوں کی پشت پناہی پر انھیں سزا دینا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں سیکولر حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے مذہبی عسکریت پسندوں کی حمایت کی جو خطرناک پالیسی اختیار کی تھی اب اس کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ مگر واشنگٹن، لندن، پیرس اور برلن کے عقل مندوں نے ابھی تک اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
اس مستقل عالمگیر اسلامی انقلاب کی قیادت اب IS کر رہی ہے، جس نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے ایک ریاست قائم کر لی ہے۔ اگرچہ اس دہشت گرد ریاست کے خلاف دنیا متحد ہے اور اس کے ساتویں صدی کے بے رحمانہ اور وحشیانہ قوانین کے بارے میں بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ یہ ایک جدید ریاستی حکومت کی طرح منظم ہے۔ ان لوگوں نے 35 گورنروں میں اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں اور مختلف موضوعات کے لیے ان کی مناسب وزارتیں بھی موجود ہیں۔ ان کے محاصل کا سب سے بڑا ذریعہ تیل کی دولت ہے، کیونکہ تیل کے کچھ کنوؤں اور ایک ریفائنری پر ان کا کنٹرول ہے۔ یہ تیل بلیک مارکیٹ میں کون خریدتا ہے، یہ الگ سوال ہے۔
اس بنیادی اساسی ڈھانچے اور مغرب کی طرف سے پیش کی جانے والی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خلاف ایک متبادل نظریے کے باعث وہ پوری دنیا کے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور چین کے ''مارکیٹ سوشلزم'' کی طرف مُڑ جانے کے بعد عالمی سوشلسٹ تحریک اگر ختم نہیں بھی ہوئی تو کمزور ضرور ہو گئی ہے۔ سوشلسٹ تحریک کے اس ڈیفالٹ سے پیدا ہونے والے خلا کو اسلامی عسکریت پسند تحریکوں کی طرف سے پر کیا گیا ہے۔
یہ حقیت کہ یہ لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں، مسلم نوجوانوں کے لیے ایک رومانوی کشش پیدا کرتی ہے اور سائبر اسپیس کو اچھے طریقے سے استعمال کر کے ان نوجوانوں میں باآسانی جوش و ولولہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ان نوجوانوں یا ان کے والدین نے ترک وطن کے لیے جن ملکوں کو پسند کیا، یہ لوگ وہاں معاشی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے اپنے آپ کو جذب کرنے میں ناکامی کا الزام امتیازی سلوک پر عائد کرتے ہیں۔ اسلام پسند، ساتویں صدی کی اقدار دوبارہ زندہ کرنے کی جنگ میں اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی سے واقف ہیں۔
اس ضمن میں جو تین سوال بار بار پوچھے جاتے ہیں وہ اس طرح ہیں: اول، کیا مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اضافہ صرف اسلام کے پیروکاروں میں ہوا یا دیگر مذاہب کو بھی اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے؟ دوئم، مسلمان دہشت گردوں پر اسلام کا لیبل کیوں لگایا جاتا ہے، جب کہ دوسرے دہشت گردوں کو ان کے مذہب کے ساتھ شناخت نہیں کیا جاتا؟ اور سوئم، کیا اس مسئلے کی سنگینی میں گزشتہ 60 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے؟ عام طور سے پوچھے جانے والے ان تین سوالوں پر مختصر سی بات کرنا مناسب ہو گا۔
اول، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی میں اضافہ صرف اسلام کے ماننے والوں پر ہی موقوف نہیں ہے، دوسرے مذاہب بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عیسائیت، ہندو ازم، برہمن ازم اور یہودیت میں بڑی دہشت گرد تحریکیں موجود نہیں ہیں۔ ناقدین کہہ سکتے ہیں کہ ان مذاہب کی طرف سے ریاستی دہشت گردی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی ریاست جہاں ان مذاہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، یہ دعویٰ نہیں کر رہی کہ یہ لوگ اپنے ملک اور دوسرے ملکوں کے عوام پر بزور طاقت اپنا مذہب مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
دوئم، مذکورہ بالا وضاحت اس سوال کا بھی جواب ہے کہ میڈیا اور عام لوگوں کی اکثریت کی طرف سے اسلامی دہشت گردوں کے مذہب کا حوالہ کیوں دیا جاتا ہے۔ جب فلسطینیوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے دہشت گرد حملوں کا سہارا لیا تو ان پر کسی نے اسلامی دہشت گردوں کا ٹھپہ نہیں لگایا تھا۔ بات اس مقصد کی ہے جس کو آگے بڑھانے کے لیے یہ لوگ دہشت گردی کرتے ہیں، اس لیے ان کی شناخت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تاہم مذہبی انتہاپسندوں اور انتہاپسندی کی شناخت ان کے مذہب کے حوالے سے ہی کی جاتی ہے۔
سوئم، مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عرصے میں دنیا بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے، اس جنگ سے پانچ ہزار سال قبل کے عرصے میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی جتنی کہ اس جنگ کے بعد ہوئی ہے۔ انسانی تعلقات، ریاست اور لوگوں کے درمیان تعلقات اور ریاستوں کے مابین تعلقات میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک عالمی ولیج میں سمیٹ دیا ہے۔ پوری انسانی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔
ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں جو سماجی، سیاسی اور معاشی تعلقات میں تبدیلی کی مزاحمت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نہ صرف تبدیلی کی مزاحمت کر رہے ہیں بلکہ اس سے خوفزدہ بھی ہیں۔ وہ تاریخ کے آگے کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے مذہبی اصولوں کی آڑ لیتے ہیں۔ یہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ہر نظریے کو وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مخصوص صورت حال ہے جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ مزاحمت پسندوں کے پرتشدد حربوںکی وجہ سے مسلم اکثریت والے ملکوں میں ان لوگوں کے درمیان جو مستقبل کا سوچتے ہیں اور ان انتہاپسندوں کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی ہے جو معاشرے کو واپس ساتویں صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
اور آخری بات: اچھی خبر یہ ہے کہ Move on Pakistan کی طرف سے فوج کو بلانے کے بارے میں جو مہم چلائی جا رہی تھی اس سے پتہ چل گیا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی میں سے کوئی بھی اس مال کا طلب گار نہیں ہے۔ وہ دن خواب ہوئے جب یہ لوگ ایک جماعت کو دوسری جماعت کے خلاف کھڑا کر دیتے تھے اور اس طرح منتخب حکومت کی چھٹی کر ادی جاتی تھی۔ کیا اب سیاست دان اور میڈیا سمجھ دار ہو گئے ہیں؟ ترکی کے عوام کی طرف سے فوجی بغاوت کی مزاحمت سے پاکستان میں بغاوت کے حامیوں کو مثبت اشارے ملے ہیں۔