’’بس‘‘ مزید نہیں

اس دور کو دورِ آشوب کہیں یا دورِ ابتلا۔ لیکن اردو کے مناسب استعمال کے مشاہدے کا وقت نہیں


[email protected]

اس دور کو دورِ آشوب کہیں یا دورِ ابتلا۔ لیکن اردو کے مناسب استعمال کے مشاہدے کا وقت نہیں، نہ کوئی دلچسپی لے گا۔ مسائل کی بھاری گٹھری پیٹھ پر لدی ہو تو اولین خیال اس سے چھٹکارے کا آتا ہے۔ الفاظ کی جگت بازی کا دھیان کون رکھے۔ ویسے بھی بات کھردرے لہجے میں کی جائے تب بھی دوسرے تک پہنچ جاتی ہے۔ چلیے آج یہی سہی مجھے اول توکوئی قابل ذکر موضوع سوجھ ہی نہیں رہا، دوئم مون سون کے اتنے سسٹمز ملک کے زیریں و بالائی علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں کہ نظریں ہمہ وقت آکاش پر لگی ہیں۔ جہاں دن بھر ایک سورج مسکراتے ہوئے استہزائیہ انداز میں آگ برستا رہتا ہے یا خاموشی سے انگلی نیچے زمین کی سمت کر دیتا ہے۔

لیکن میں نے ابتدا میں عرض کیا جسے ایک شعر میں دہرانے کی کوشش کرتاہوں:

'بارشیں چھت پہ کھلی جگہوں پہ ہوتی ہیں مگر

غم وہ ساون ہے جو ان کمروں کے اندر برسے

نجانے کس جماعت کی جانب سے آرمی چیف کو کچھ پوسٹرز آویزاں کر کے عجیب انداز میں دعوت دی گئی۔ متن کچھ اس طرح کا تھا۔ ''آئے ہو ابھی بیٹھو تو سہی جانے کی باتیں جانے دو''

بہر حال میں نے تو میڈیا پر وضاحتیں سنیں۔ حکومت، اپوزیشن، بیچ کے پھول، راستے کی دھول، سبھی نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کی۔ پاک فوج کی جانب سے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔ بعید از عقل۔ یا کہہ لیجیے ''جنوں کا خرد'' لیکن اس میں اب کوئی شک باقی نہیں کہ پاناما لیکس کا پاجامہ لیک ہو گیا، گفت و شنید باقی رہ گئی یا دور، دور سے ایک دوسرے پر فقرے کسنا، ڈرانا، دھمکانا ویسے نجی ملاقاتوں میں کوئی کمی نہیں۔ خوب گپ شپ ہو رہی ہے۔ وہاں پاناما لیکس کو چھوڑکر تمام معاملات پر Publicly Discussion، آف شورکمپنیز کا چرچا، پیسہ کہاں سے آیا۔ کہاں گیا؟

صاف لگتا ہے یہ معاملہ بھی نذر سیاست ہوا۔ بلکہ نذر تجارت اور نہیں ہو رہا تو انصاف۔ میڈیا پر ہونے والے صبح و شام کے مباحثوں نے اس قدر بیزار کر دیا کہ بہت سی گفتگو تو حفظ ہو گئی۔ مثلاً فلاں فلاں بات کا یہ جواب دے گا۔ پھر ادھر سے وہ سوال ہو گا بات چیت میں کس موڑ پر ماحول کو گرم ہونا ہے کہاں ٹھنڈا پہلے سے طے شدہ باتیں Dialogues اور پروگرام ختم۔ ایک معروف ٹی وی چینل پر Yes, No کا ایک Music Chair گیم بھی ضرور دیکھیے گا۔ جہاں کچھ حضرات چہروں پر سنجیدہ، گمبھیر تاثرات لیے سوال سے بے نیاز۔ البتہ جواب دینے کے لیے بے قرار لیکن احتساب نہ ماضی میں کبھی کسی کا ہوا نہ حال میں۔ پہلے بھی حکومت میں آنے کا یہ ایک ذریعہ تھا ایک نعرہ ۔ ہم آ کر آہنی ہاتھ استعمال کریںگے۔

آپ ایک دفعہ پھر ہم پر بھروسہ کریں اور عوام ... میں دعوے سے کہتاہوں کہ پوری دنیا میں جو اقوام عالم ہیں ان میں ہم جیسا کوئی نہیں، ہم کس قدر Special ہیں۔ یہ کوئی رازکی بات نہیں۔ باقی دنیا ہمارے بارے میں خوب علم رکھتی ہے لہٰذا ہم ہمیشہ اپنے دیانتدار رہنماؤں پر اعتبارکر لیتے ہیں۔ چل بھئی جلسے میں۔ کون آیا ... ؟ جس نے عوام کو اُلو بنایا۔ یا سب پے بھاری ... وہی شکاری ... اڑی اڑی رے میری پتنگ ... نیچے سارے ننگ دھڑنگ، آئی آئی، آندھی آئی، دوسری تیسری شادی آئی، نعرے ہی نعرے، جہاں سے جہاں تک سن لیں۔ دعوے ہی دعوے وہاں سے یہاں تک دیکھ لیں۔

صحرائے تھر میں غذائی قلت کے باعث دم توڑتے معصوم بچے۔ پیاس سے مرتی ہوئی بھینسیں اور عورتیں ایک طرف ایک کرسی پر سوتے، خراٹے لیتے ہوئے ایک نحیف و نزار بزرگ وزیراعلیٰ۔ کسی نے جگا دیا تو ہربڑا گئے۔ ملک میں انتہا پسندی کے خلاف آپریشن کیا جا رہاہے۔ ایسے حالات میں 30 کروڑ کی خطیر رقم سے ان کی مدد کرنا جن کی پوزیشن غیر واضح ہے۔ سمجھ سے بالاتر احتساب، فہم سے ماورا، انتساب ایسا ہے اپنا سیاست کا باب ایک عجیب و غریب کتاب، کردار ہیں تو الجھے ہوئے۔ فنکار ہیں تو بکھرے ہوئے۔ انجام معصوم۔ آغاز مبہم ... آخر کسی کنارے تو نیا کو لگانا ہو گا۔ کوئی تو اس کا بھی ساحل ہو گا۔ میں ان رہنماؤں کو آج واضح طور پر پیغام دینا چاہتاہوں جو ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ لوٹ چکے ہیں جو عوام کو گھن گیہوں کی طرح مہنگائی کی چکی میں پیس ڈالنا چاہتے ہیں کہ ''بس'' بہت ہو گیا۔

مزید نہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ معاملہ مزید کھینچا جا سکتا ہے، عوام کو صوبے اور صوبائیت پر مزید بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ میرا یقین ہے، نہیں، آپ مارے جائیںگے۔ ہم اب اور بے وقوف بننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ گھن چکر۔ جمہوریت، مارشل لا، بلدیاتی نظام ہم دیکھ چکے ہیں۔ ہر مسیحا کو آزما چکے۔ حتیٰ کہ باہر سے درآمد کر کے بھی۔ لیکن اب سمجھ چکے کہ یہ سب ٹوپی ڈراما ہے۔ ٹوپی جو کبھی آپ کے کبھی آپ کے بھائی کے سر پر۔ لیکن نہیں ہے تو ... بدترین حالات کی دھوپ میں جھلستی ہوئی عوام کے سر پر۔

جو اس قدر جل چکے ہیں تب چکے ہیں کہ اب بارش کے چند قطروں سے عارضی ٹھنڈک چاہتے ہیں آپ نفس کی ایسی بیماری کا شکار ہیں کہ 18 کروڑ انسانوں کو نگل کر بھی آپ کا پیٹ نہیں بھرنے والا۔ کیونکہ محلات تعمیر ہو چکے۔ باغات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آپ کے پاس۔ دولت انبار پر انبار، دنیا کے کس بینک میں آپ کا روپیہ نہیں۔ لیکن من ہے کہ بھرتا نہیں۔ اور، اور، اور بد قسمتی سے آپ کا لگایا ہوا یہ پودا جو خطرناک حد تک زہریلا ہے کے اثرات اب نیچے بھی منتقل ہونے لگے۔ یعنی ہر غریب اب وہی چاہتاہے شارٹ کٹ۔ کیوں کہ فصل افیون کی ہے۔

پودا ہیروئن کا۔ نشے سے بھرپور آج کسی ادارے کو دیکھ لیں۔ وہاں کام کرنے والے آفیسر سے لے کر چپراسی تک یہی چاہتاہے۔ ادارہ چلے نہ چلے۔ اس کا گھر ضرور چلے۔ پاکستان اسٹیل مل ہو، پی آئی اے یا پاکستان ریلوے عام جام لوٹ مار۔ اکثر اوقات میں سوچتا ہوں۔ ہمارا ہو گا کیا؟ دنیا کہاں جا رہی ہے، کہاں ڈیوڈ کیمرون کا استعفیٰ، کہاں ہمارے معصوم حکمران جو صبح و شام عوام کا خون چوستے ہیں، لیکن ان کی معصومیت نہیں جاتی اور کہے جاتے ہیں۔ یااﷲ، یا رسول قسم سے میں بے قصور، یا ''آخر کچھ لوگ ملک کو ترقی کرنے سے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟'' مجھے رفتہ رفتہ کچھ نام یاد آنے لگے۔ جیسے صدر صدام حسین، معمر قذافی، حسنی مبارک۔ لیکن کیوں؟ معلوم نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں