سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں نویں قسط

سنگاپور میں ہمارا قیام دو دن کا تھا اسلئے بیٹے نے تھوڑی عیاشی کا فیصلہ کیا اور ایک نہایت مہنگے میں بکنگ کرا رکھی تھی۔


سنگاپور کی سڑکیں صاف ستھری تھیں، سڑکوں کے دونوں جانب لش گرین پودے اور گھاس بھی ایسی جس پر مصنوعی ہونے کا گمان ہو۔

سنگاپور

مہاتیر جن دنوں سیاست میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کررہے تھے ان دنوں سنگاپور کا مسئلہ زوروں پر تھا۔ مہاتیر اپنے لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ سنگاپور اور ملائیشیا ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ سنگاپور امیروں کی آبادی ہے اور وہ اگر ساتھ رہے تو ملائیشیا کے غریب عوام کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اسی جہدوجہد میں سنگاپور جو ایک ریفرینڈیم کے ذریعے ملائیشیا نے تجویز کیا تھا، 1962ء میں عوام کے اکثریتی ووٹ کی بناء پر ملائیشیا فیڈریشن میں مدغم ہوا تھا۔ 1963ء میں ملائیشیا، سنگاپور، سراواک اور برنیو (موجودہ سباح) پر مبنی ملائیشیاء فیڈریشن وجود میں آئی لیکن ملائیشیا اور سنگاپور کا ادغام ناکام ہوگیا اور دو سال سے بھی کم عرصے میں سنگاپور 9 اگست 1965ء کو ایک بار پھر ملائیشیا سے علیحدہ ہوگیا اور ایک آزاد اور خودمختار جمہوری قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آیا۔ اسی سنگاپور کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر جہاز کے لینڈ ہونے کا اعلان ہوائی جہاز کا کپتان کر رہا تھا اور چند ہی لمحوں کے بعد ہمارا جہاز ہوائی اڈے پر لینڈ کر گیا۔

سنگاپور میں ہمارا قیام دو دن کا تھا اس لئے عدیل بیٹے نے تھوڑی عیاشی کا فیصلہ کیا اور ایک نہایت مہنگے ''بگ ہوٹل'' میں بکنگ کرا رکھی تھی اور وہ بھی اس کے ایگزیکٹو رومز میں۔

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (آٹھویں قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (ساتویں قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چھٹی قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)

ہمارے پاس سامان زیادہ تھا اس لئے ہوٹل تک جانے کے لئے بڑی گاڑی کی ضرورت تھی۔ ایئرپورٹ پر بنے کاونٹر سے بڑی گاڑی کا ٹوکن لیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بڑی گاڑی پہنچ گئی جس میں اپنا سامان اس اسٹیشن ویگن نما گاڑی میں رکھا اور گاڑی بڑی تیزی سے ہمارے ہوٹل کی جانب رواں ہوگئی۔ سنگاپور کی سڑکیں صاف ستھری تھیں، سڑکوں کے دونوں جانب لش گرین پودے اور گھاس بھی ایسی جس پر مصنوعی ہونے کا گمان ہو۔ درختوں کے پتے ایسے جیسے ابھی دھوئے ہوں۔ کسی جانب مٹی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہوائی اڈا ہوٹل سے کافی دور تھا لیکن ہمیں تمام رستے ایسا ہی سماں دکھائی دیا۔

ہم پاکستان میں پنجاب کے رہائشی کھلے ڈھلے ماحول کے عادی ہیں۔ سبزہ اگرچہ پنجاب میں بھی بہت ہے لیکن مٹی کا شمار بھی ہرگز کم نہیں جس کی وجہ سے سبزے کا وہ رنگ نظر نہیں آتا جو ان کا اصل رنگ ہے۔ مٹی سے اٹ کر وہ سبز بہرحال نہیں لگتے۔ سنگاپور کے رستوں سے گزرتے ہوئے انہیں خیالات میں گم گاڑی کس وقت بگ ہوٹل کی پارکنگ میں آ کر رگ گئی ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔

یہ پارکنگ دوسری منزل کی سطح پر واقع ہے۔ پارکنگ کے ایک کونے میں ایک ڈیسک بنا ہوا ہے جہاں اپنی بکنگ کا بتایا تو اس نے فون کرکے پورٹر کو بلایا جو کچھ ہی دیر میں سامان کی ٹرالی لے کر آگیا اور سامان لاد کر لفٹ کی جانب چلا اور ہمیں لے کر گراونڈ فلور پر لے آیا جہاں ریسیپشن ڈیسک بنا ہوا تھا۔ انہیں اپنی بکنگ کے کاغذات دکھائے تو ڈیسک پر موجود خاتون نے مسکرا کر بتایا کہ آپ کے کمرے تیار ہو رہے ہیں دوپہر دو بجے تک آپ کو مل جائیں گے۔ آپ سامنے انتظار گاہ میں تشریف رکھیں یا کہیں گھوم پھر آئیں۔ یہ پیغام سننے کے بعد ہم انتظار گاہ میں بیٹھ گئے۔ اب اِس موقع پر دو آراء تھیں۔ پہلی یہ کہ ہوٹل کے اردگرد کہیں مٹرگشت کر لیا جائے کیونکہ دو بجنے میں ابھی 3 گھنٹے باقی تھی۔ دوسری رائے خواتین کی جانب سے یہ تھی کہ فریش ہوئے بغیر کیا مزا آئے گا کہیں بھی جانے گا۔ پھر عنایا کا بھی مسئلہ تھا کیونکہ اُس کو کھانا بھی کھلانا تھا اور تھوڑی سی نیند کا بھی بندوبست کرنا تھا تاکہ جب سیر کے لئے نکلیں تو وہ بھی فریش ہو۔

سو فیصلہ خواتین کے حق میں ہوا اور ہم ریسپشن ڈیسک کے سامنے بنی آرام دہ انتظار گاہ میں بیٹھ گئے۔ وہاں پہنچے تو اُس روز کا تازہ اخبار موجود تھا۔ ہم نے وہ سنبھال لیا اور ورق گردانی شروع کردی جبکہ ہماری بہو نے ریسپشن کے ساتھ بنے کافی شاپ سے ایک پیالہ مستعار لیا تاکہ عنایا کا فوریج بنایا جا سکے۔ اسی تک و دو میں دو بج گئے اور ریسپشن سے نوید دی گئی کہ ایک کمرہ تیار ہوگیا ہے، آپ وہاں جاسکتے ہیں۔ ہم نے سوچا چلو ایک کمرہ تو تیار ہوا اسی میں سامان رکھ کر تیار ہوکر گھوم پھر آتے ہیں اور پھر واپس آکر دوسرے کمرے کی چابیاں لے لیں گے۔

لیکن اب شروع ہوتا ہے مایوسی کا سفر۔ ہمیں جس کمرے کی تیاری کی نوید سنائی گئی تھی اس کو جونہی ہم نے کھولا تو ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ سات ضرب پندرہ فٹ کا ایگزیکٹو روم ہمارے سامنے تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب تین فٹ ضرب چار فٹ کا باتھ روم سامنے بیڈ لگا ہوا اور بس۔ سامان رکھنے کے بعد کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی، بس یہی وجہ تھی کہ اب دوسرے کمرے کی تیاری کا انتظار ہونے لگا کیونکہ آدھا سامان وہاں شفٹ کئے بغیر گزارا نہیں تھا۔ خدا خدا کرکے وہ کمرہ ملا اور ہم باہر جانے کے لئے تیار ہونے لگے۔ اصل میں قصور ہوٹل انتظامیہ کا بھی نہیں تھا کیونکہ وہاں ایگزیکٹو روم میں ٹھہرنے والے میٹنگوں میں شرکت کے لئے آتے ہیں، اور ایسی صورت میں ایک مختصر سا بیگ ان کے پاس ہوتا ہے وہ آ کر ٹھہرتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔ ہم چونکہ ملائیشیا کے سفر کے بعد آ رہے تھے اور بے بی عنایا کی ضروریات کا سامان ہم سب سے زیادہ اور ضروری تھا اس لئے سامان کے نگ بڑھ گئے تھے۔

ہم لوگوں کا بیشتر وقت ہوٹل والوں نے کمرے تیار کرنے کے چکر میں ضائع کردیا اس لئے ہم نے سوچا کہ آج سنگاپور ڈائون ٹاون گھوم لیا جائے۔ بس پھر ہم ڈائون ٹاون میں مرلائن دیکھنے چلے گئے۔ مرلائن ایک ایسا اسٹیچو ہے جس کا سر شیر کا اور دھڑ مچھلی کا ہے۔ یہ سنگاپور کے سمبل کے طور پر ڈائون ٹاون میں استادہ ہے۔ 15 ستمبر 1972ء کو اس وقت کے وزیراعظم لی کیوان یائو نے سرکاری طور پر اسے وہاں نصب کرنے کی رسم ادا کی۔ اس میں mer کے معنی ہیں sea اور لائن کے معنی شیر کے ہیں۔ اس مجسمے میں فش کا دھڑ سنگاپور کے اوریجن کی نمائندگی کرتا ہے یعنی فشنگ ویلج جب اس جگہ کو تماسک کہا جاتا تھا جس کے معنی ہیں سی ٹائون جبکہ شیر کا سر اس کے اوریجنل نام کی نمائندگی کرتا ہے۔ 'سنگاپورا' جس کے معنی ہیں لائن سٹی یا کوٹا سنگا۔ اس مرلائن پارک میں یہ اصل مجسمہ 8.6 میٹر بلند ہے اور اس کا وزن 70 ٹن ہے۔



 

ہم نے اس مجسمے کو بڑے قریب سے دیکھا جس کے منہ سے پانی کی دھار نکل رہی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ پارک سنگاپور کے اصل کی یاد گار ہے۔ اِس مجسمے کا تصور سنگاپور کی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے پیش کیا تھا جسے حقیقت کا روپ دیا گیا۔ اس کے ارد گرد پارک میں جہاں بہت سی قابلِ دید اشیاء موجود ہیں وہیں سووینئر شاپس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا بھی ہیں۔ بچوں نے دل کھول کر وہاں فوٹوگرافی کی۔ ہم نے بھی بچوں سے کہہ کر ایک دو اپنی انفرادی تصاویر بنوائیں۔ وہاں تین چار گھنٹے گزار کر ہم اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ ہوٹل کے زیرِ سایہ ایک اور ریسٹوران بھی ہے جہاں بڑے بڑے حروف میں درج تھا کہ یہاں غیر حلال چیزوں کا استعمال ممنوع ہے۔ بس ہمارے لیے اِس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی تھی، ہم نے بریانی سے پیٹ پوجا کی لیکن بریانی کھانے کے بعد ہمارا متفقہ فیصلہ تھا کہ انہیں بریانی بنانا نہیں آتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں