جن کو عوام اپنا حاکم بناتے ہیںحصہ اول

عوام پر مجموعی قرضے کی مقدار 191 کھرب67 ارب 90 کروڑ روپے ہو چکی تھی۔


خالد گورایا July 20, 2016
[email protected]

کتاب Statistical Supplement Pakistan Economic Survey 2014-15 دوسری کتاب Pakistan Economic Survey 2015-16 ان کتابوں کو فنانس ڈویژن اسلام آباد ہر سال شایع کرتا ہے۔ 7 اکتوبر 2015ء کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا بیان اخبارات میں شایع ہوا تھا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ''حکومت غیر ملکی قرضے ادا کرنے کے لیے قرضے لیتی ہے'' اصل حقیقت یہ ہے ہر دوکی حکومتوں نے سامراجی قرضے حاصل کیے اور ان حاصل شدہ قرضوں میں سے سابقہ قرضوں کا سود و اصل زر کٹوا کر باقی نقد ڈالر وصول کیے۔

متذکرہ کتابوں کے حوالے سے اور سال 2015-16ء کو شایع ہونے والی کتاب کے صفحے 117 کے مطابق مالی سال 1951-52ء سے مالی سال 2-14-15 کے دوران حکمرانوں نے کل قرضہ 95 ارب 92 کروڑ 20 لاکھ ڈالر حاصل کیا۔ اس قرضے میں سے مالی سال 2014-15ء تک 66 ارب 27 کروڑ 30 لاکھ ڈالر قرضوں کے سود و اصل زر کی مد میں کٹوائے گئے حکومتوں نے ہر دور میں صرف تین مالی سالوں کے علاوہ نقد کاغذی ڈالر 29 ارب 64 کروڑ 90 لاکھ ڈالر وصول کیے۔

64 سالوں کی مدت کے دوران صرف تین بار حکمرانوں نے پاکستان کی طرف سے نقد قرض ادائیگی کی مالی سال 2003-4ء کو 126.0 ملین ڈالر دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 61 سالوں کے دوران 29 ارب 64 کروڑ 90 لاکھ ڈالر وصول کیے گئے تھے اور مالی سال 2014-15ء کو عوام پر سامراجی قرض ادائیگی کا بوجھ 52 ارب 14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر موجود رہا جو نقد لیے گئے قرض پر 57 فیصد زیادہ بنتے ہیں۔ اس طرح مہنگے ترین قرض لینے کا کیا جواز تھا؟ قرضوں کی مقدار ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔

کتاب ''پاکستان اکنامک سروے 2014-15'' کے صفحے 152 پر دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق سال 1971ء میں ملکی قرضے کی مقدار 14 ارب روپے تھی اور غیر ملکی قرضے کی مقدار 16 ارب روپے تھی۔ کتاب ''پاکستان اکنامک سروے 2015-16'' کے صفحے 149 پر مارچ 2016ء میں عوام پر ملکی بینکوں کے قرضے کی مقدار 133 کھرب98 ارب 50 کروڑ روپے تھی اور غیر ملکی قرضے کی مقدار 57 کھرب 69 ارب 40 کروڑ روپے تھی۔ 2015ء تک ملکی قرضے میں اضافہ 95604 فیصد ہو چکا تھا اور غیر ملکی قرضے میں اضافہ 35959 فیصد ہو چکا تھا۔

عوام پر مجموعی قرضے کی مقدار 191 کھرب67 ارب 90 کروڑ روپے ہو چکی تھی۔ اسی کتاب Chapter 12 کے صفحے 199 پر مارچ 2016 میں ملکی آبادی 19 کروڑ 54 لاکھ تھی۔ اس طرح ہر شہری 98096 روپے کا مقروض ہوچکا تھا۔ حکمران اتنے بے حس بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ مفلوک الحال عوام کی ترقی کا نام استعمال کر کے رقوم حاصل کرتے ہیں۔

عوام کو اس کے بدلے ترقی کی سمت اوپر لے جانے کی بجائے غربت کے اندھے گہرے کنوئیں میں دھکیل رہے ہیں کیا ایسے حکمران ملک و عوام کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں؟ جو ملک کا سرمایہ لوٹ کر بیرون ملکوں کی کمپنیوں اور بینکوں میں لگائیں اور باہر ملکوں میں جائیدادیں بناتے جائیں۔ ان تمام اشرافیائی ٹولے کی وفاداریاں کاغذی ڈالرکی زنجیر سے بندھی سامراجی حاکموں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان سب کی حکمرانی کے دور میں ہی پاکستان اور عوام پر بدامنی، معاشی بدحالی بڑھتی جا رہی ہے اور حکمرانوں کی نسلوں پر خوشحالی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے لیڈر جتنی زیادہ دیر ملک پر مسلط رہیں گے اتنے ہی زیادہ ملک کے لیے خطرات اور عوام میں غربت بڑھتی جائے گی۔ یہ ملک و عوام کے لیے سیکیورٹی رسک ہیں ان کے اب تک خارجی اور داخلی منصوبوں کی وجہ سے عوام و ملک کا وقار پوری دنیا میں گر چکا ہے۔ پاکستان غربت زدہ اچھوت ملک بنا دیا گیا ہے۔ یہ حکمران باتوں، جلسے، جلوسوں، عوام کو باتوں اور وعدوں میں ہمیشہ دھوکے دیتے آ رہے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں دراصل اس کا الٹ ہی کرتے ہیں۔ ان کے مالیاتی منصوبوں سے ان کی خوشحالی لاکھوں، کروڑوں گنا بڑھ گئی ہے۔

عوام و ملک کی خوشحالی اسی نسبت سے بدحالی میں بدل گئی ہے۔ اصل حقیقت یہ عوام ان کے ''جمہوری قیدی ''ہیں۔

کتاب ''پاکستان اکنامک سروے 2015-16'' کے صفحے 58 کے مطابق مالی سال 2013-14 (یاد رہے کہ (ن) لیگ نے جون 2013 کو اقتدار سنبھالا تھا) کے بجٹ میں خسارہ 1388719.0 ملین روپے تھا۔ اسی کتاب کے صفحے 60 اور 61 پر حکومت نے عوام سے ٹیکس (ریونیو) غیر ملکی اور ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 1473988.0 ملین روپے وصول کیا تھا۔ حکومت نے جب مالی سال 2013-14ء کو غیر ملکی قرض3 ارب 76 کروڑ ڈالر کا حاصل کیا تھا۔ اس میں سے حکومت نے بروقت سامراجی ادارے کو سود کی مد میں 736.0 ملین ڈالر اور اصل زر کی مد میں 2074.0 ملین ڈالر دونوں بروقت حاصل شدہ قرض 3760.0 ملین ڈالر سے کٹوا کر باقی بروقت نقد 950.0 ملین ڈالر نقد وصول کیے تھے۔ اس طرح حکومت دروغ گوئی کی مرتکب ہوئی۔ ایک طرف حکومت کا کہنا ہے کہ پچھلے قرضوں کو چکانے کے لیے قرض لیتی ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔

ہر سال حکومت نقد ڈالر وصول کرتی ہے۔ پھر دوبارہ عوام سے غیر ملکی سود اور قرض ادائیگی کے نام پر ٹیکس وصول کرتی ہے جس کا ذکر ابھی کر دیا گیا ہے اگر مجموعی معیشت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ ہر لیڈر جمہوریت کے لیے پریشان کیوں رہتا ہے۔ فوجی حکومتوں کا یہ لیڈرکیوں حصہ بن جاتے ہیں؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ لیڈر عوام کو جمہوری قیدی بنا کر اقتدار حاصل کرتے ہیں اور ہر ادارے کو تابع کر لیتے ہیں۔ وزارت خزانہ ان لیڈروں کی شہ رگ ہے کیونکہ عوام سے حاصل ہونے والے کھربوں روپے کے ٹیکس کو یہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ فوجی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوتا ہے عوام ویسے ہی بے بس بے اختیار ہوتے ہیں ۔

اب آپ ان لیڈروں کی بجٹ سازی کا عمل دیکھیں۔ نون لیگ کے دور مالی سال 2013-14ء متذکرہ کتاب کے صفحے 58-59 کے مطابق بجٹ خسارہ 1388719.0 ملین روپے دکھایا گیا۔ اسی بجٹ میں ریونیو (آمدنی) نان ٹیکس ریونیوز 1072788.0 ملین روپے +ان ڈائریکٹ ٹیکسز Indirect Taxes کی مد میں 161158.0 ملین روپے اور Direct Taxes کی مد میں 893351.0 ملین روپے جن کا ٹوٹل 3637297.0 ملین روپے بنتا ہے یہی مالی سال 2013-14 کا ٹوٹل ریونیو تھا۔ بجٹ خسارہ اس میں شامل کیا جائے تو اخراجات 5026016.0 ملین روپے تھے۔ آمدنی میں حکومت نے ٹیکسز کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھایا؟

اب ہم ملکی مجموعی معیشت کے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ اسی کتاب کے صفحے 99 پر تجارتی خسارہ 19963.0 ملین ڈالر تھا۔ پاکستانی کرنسی میں 2047058.0 ملین روپے تھا بجٹ +تجارتی خسارے کا ٹوٹل 34 کھرب 35 ارب 77 کروڑ 70 لاکھ روپے بنتا ہے۔ معیشت کے دوسرے پہلو میں (I) کتاب کے صفحے 108 کے مطابق Worker Remittance مالی سال 2013-14ء کو 15 ارب 83 کروڑ77 لاکھ 10 ہزار ڈالر ملکی بینکوں میں آیا تھا۔ اسی کتاب کے صفحے 111 پر مالی سال 2013-14ء کو ڈالر ریٹ 102.8591 روپے تھا۔

اس طرح بیرونی زرمبادلہ پاکستانی کرنسی میں 16کھرب 29 ارب 5 کروڑ 25 لاکھ 97 ہزار روپے بنتا ہے۔(II) اسی کتاب کے صفحے 117 کے مطابق مالی سال 2013-14ء کو حکومت نے سامراجی ادارے سے 3760.0 ملین ڈالر کا قرض حاصل کیا۔ اس سے سابقہ سود و اصل زرکٹوا کر باقی 950.0 ملین ڈالر نقد وصول کیا۔ جس کی پاکستانی روپے میں مالیت (102.8591 روپے فی ڈالر) 97 ارب 71 کروڑ 61 لاکھ 45 ہزار روپے بنتی ہے۔ (III) اسی کتاب کے صفحے 148 کے مطابق سال 2012 کو عوام پر ٹوٹل ملکی بینکوں کا قرضہ 76 کھرب38 ارب روپے تھا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔