سمندروں پر امریکی اجارہ داری کا خاتمہ

چینی شہ دماغوں نے بحری طاقت کے حصول کے لیے بہت پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھائے ہیں۔


Aslam Khan November 29, 2012
[email protected]

گزرے اتوار سمندروں پر امریکی اجارہ داری کا خاتمہ ہو گیا۔ چین کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز سے کثیر المقاصد چینی ساختہ J15 لڑاکا طیارے نے اڑان بھری اور مقررہ وقت تک پرواز کے بعد کامیابی سے لینڈ کر گیا۔

یہ چین اور انسانیت کے لیے تاریخی موڑ اور عظیم لمحہ تھا۔ اس سے پہلے یہ صلاحیت امریکا' روس اور چند یورپی ممالک کے پاس تھی۔ دنیا کی عظیم اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود چین اس صلاحیت سے محروم تھا۔

اسلام آباد میں ایک دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ چین کے لیے پہلا قدم ہی مشکل ہوتا ہے، اب آپ بہت جلد دیکھ لیں گے کہ بحر اوقیانوس سمیت تمام سمندروں پر چینی طیارہ بردار بحری جہاز حکمرانی کر رہے ہوں گے۔ نیو یارک کے ساحلوں پر کھڑے امریکی کھلے سمندروں میں سرخ چینی پرچم لہراتے دیکھیں گے۔ چینی شہ دماغوں نے بحری طاقت کے حصول کے لیے بہت پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھائے ہیں۔ پہلے انھوں نے یوکرائن سے طیارہ بردار جہاز خریدا، پھر اسے خاموشی سے کئی سال تک از سر نو مرمت اور اپ گریڈنگ کے محنت طلب عمل سے گزارا۔ خوفناک امریکی فوجی طاقت کی اصل بنیاد ہی اس کے طیارہ بردار جنگی جہاز ہیں۔ چند دن بعد دسمبر شروع ہو جائے گا۔ بہت سے پاکستانیوں کو یاد ہو گا کہ 1971ء میں ڈھاکہ کو بچانے کے لیے امریکیوں نے اپنا ساتواں بحری بیڑا روانہ کیا تھا لیکن وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکا تھا اور ڈھاکہ ڈوب گیا تھا۔

چین کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز کے بروئے کار آنے کے بعد سمندروں میں طاقت کا توازن یکسر بدل گیا ہے۔ چین کی بحری طاقت اور حربی صلاحیت امریکیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے۔ شاطر اور چالباز امریکیوں نے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بعض جزائر اور سرحدی حدود کے تنازعات کو ہوا دینا شروع کر دی ہے۔ اس وقت جاپان' ویت نام اور بھارت کے ساتھ چین کے جزائر اور سرحدی تنازعات کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا دی جا رہی ہے لیکن دانشمند اور ٹھنڈے مزاج کی حامل چینی قیادت بڑے تحمل سے ان دیرینہ اور پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہے۔

امریکا نے عالمی سمندروں میں 800 سے زائد بحری اڈے اور مختلف النوع کثیر المقاصد اسٹیشن قائم کر رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود چینی بحری طاقت کے نئے زاویے امریکیوں کے لیے اعصاب زدگی کا باعث بن رہے ہیں۔

حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار ''پیپلز چائنہ ڈیلی'' نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ امریکا چین کے خلاف علاقائی تنازعات کو ہوا دے کر اسے فلپائن' ویت نام' جاپان اور بھارت کے ساتھ الجھانا چاہتا ہے۔

امریکا چین کے مقابلے میں علاقائی طاقت کے طور پر بھارت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ بھارتی سیاسی قیادت نے روایتی چانکیائی چالبازی کو استعمال کرتے ہوئے ان کے دام فریب میں الجھنے سے اپنے آپ کو بچائے رکھا ہے لیکن سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر کے اسے اپنے توانائی کے بحران سے نمٹنے کی پیش بندی کرنی ہے۔ بھارت بھی سوویت دور کے ایک پرانے طیارہ بردار بحری جہاز کی تزئین و آرائش کے بعد اگلے سال اسے 2013ء کے وسط تک بحر ہند کی لہروں کے سپرد کر دے گا۔

2004ء میں بھارت نے سوویت دور کے اس جہاز کا سودا صرف 978-4 ملین ڈالر میں کیا تھا لیکن 2013ء میں اس جہاز کی قیمت اڑھائی ارب ڈالر ہو چکی ہے۔

بحری طاقت کے نئے توازن کے بارے میں امریکی عجیب طرز استدلال رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی بڑی تیزی سے اپنی خارجہ پالیسی کو بدل رہے ہیں۔ تباہ کن صلاحیتوں کے بحری بیڑے سمندروں میں اتارنا دراصل ان کی جارحانہ حکمت عملی کا پہلا مرحلہ ہو گا کیونکہ اپنے دفاع کے لیے تو انھیں بحری بیڑوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی، بحری طاقت میں اضافہ ان کے عالمی سطح پر جارحانہ عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پروفیسر رابرٹ ڈی کپلان نے تو پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ عالمی سطح پر طاقت کا کھیل بحر ہند کے کناروں پر کھیلا جائے گا۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ سمندروں پر حکمرانی اگلی دہائی میں نئی سرد جنگ کا پہلا باب ہو گی۔

حرف آخر یہ کہ امریکیوں نے 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں 15 ہزار فوجی رکھنے کا مقصد یہی بتایا ہے۔ اس لیے صدر اوبامہ کے افغانستان سے مکمل انخلا کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اس وقت 67 ہزار امریکی فوجی جب کہ 37 ہزار اتحادی ممالک کے فوجی افغان کوہساروں میں بروئے کار ہیں۔

دمشق کے محاذ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ میں شام کے مستقل مندوب نے سلامتی کونسل کو ہر ماہ مختلف محاذوں پر مرنے والے کرائے کے غیر ملکی لڑاکوں کی فہرست جمع کرانا شروع کر دی ہے۔ گزشتہ ماہ 143 غیر ملکی جنگجو مختلف محاذوں پر مارے گئے جن کے بارے میں تمام تفصیلات کے ساتھ سلامتی کونسل کو ثبوت مہیا کر دیئے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔