عکس پاکستان
ہالینڈ کے پاکستانی سفارت خانے نے وہ کام کیا جو ہمارے ہر سفارت خانے کو کرنا چاہیے۔
Pakistan Mirrored to Dutch eyes نام ہے اس کتاب کا جو اعزاز احمد چوہدری نے لکھی ہے اور جسے حال ہی میں سنگ میل پبلشرز لاہور نے شایع کیا ہے اور جس کا اردو ترجمہ شاید ''عکس پاکستان، ڈچ آنکھوں کے لیے'' ہوگا جو لفظی اعتبار سے درست ہونے کے باوجود ذوقی سطح پر کچھ کمزور سا لگ رہا ہے سو اسے ''عکس پاکستان'' تک ہی محدود رکھتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
ہالینڈ کے بارے میں دیکھا، سنا اور پڑھا تو بہت کچھ تھا لیکن (چند ماہ قبل تک) میرا اس سرزمین سے ذاتی تعارف ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ تک ہی تھا جہاں میں مختلف اوقات میں دوبار ٹرانزٹ کے لیے رکا تھا سو جب پاک ڈچ سوسائٹی اور سفارت خانۂ پاکستان کی طرف سے ایک تقریب کے حوالے سے دعوت نامہ ملا تو یہ جان کر اضافی مسرت حاصل ہوئی کہ پاک ڈچ سوسائٹی کے صدر سید اعجاز سیفی میرے تدریسی کریئر کے ابتدائی شاگردوں میں ہیں اور سفیر پاکستان اعزاز احمد چوہدری سے پہلی ملاقات 26 سال قبل اس وقت ہوئی تھی جب وہ اور ناروے کے موجودہ سفیر اشتیاق اندرابی قطر کے پاکستانی سفارت خانے میں قونصلر ہوا کرتے تھے میرا قیام چونکہ اعزاز چوہدری کے گھر پر ہی تھا اس لیے ان سے بات اور ملاقات کے لیے خاصا وقت مل گیا جو سارے کا سارا کوالٹی ٹائم کہلانے کے لائق ہے کہ ان جیسے ذہین، پرجوش اور اپنے کام سے کمٹڈ سفیر میرے ذاتی مشاہدے سے کم کم ہی گزرے ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کتاب نئی ہونے کے باوجود اپنے مواد کی حد تک میرے لیے قندمکرر کی حیثیت رکھتی ہے کہ میں اس کے بیشتر مندرجات کی عملی صورت کا چشم دید گواہ ہوں یہاں اس حقیقت اور تاثر کا اعتراف اور اظہار بھی ضروری ہے کہ سفارت کے نازک اور اہم کام کی ذمے داری جس طرح سے فارن سروس کے باقاعدہ اور تربیت یافتہ افسران نبھاتے ہیں اکا دکا مثال سے قطع نظر سیاسی تقرریوں سے مشرف اور نوازے جانے والے جرنیل اور سویلین سوسائٹی کے افراد ان کی ہوا کو بھی نہیں چھو پاتے۔ سفیر پاکستان اپنی پوسٹنگ کے ملک اورحکومت پاکستان کے درمیان تو ایک پل ہوتا ہی ہے لیکن اس کا زیادہ اہم کام متعلقہ ملک میں مقیم اور اس سے وابستہ پاکستانیوں کے حقوق کا خیال اور مسائل کا حل ہوتا ہے کہ عوام کی دوستی حکومتوں کی دوستی سے بھی زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔
اعزاز احمد چوہدری کی اس کتاب میں بھی زیادہ زور اسی بات پر دیا گیا ہے کہ انھوں نے کس خوبصورتی سے نہ صرف پاکستانی تارکین وطن اور ہالینڈ میں مقیم دیگر پاکستانیوں اور ہالینڈ کے عوام کے درمیان اعتماد اور رابطے کے پل تعمیر کیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کی حکومت اور عوام کے دلوں میں موجود پاکستان سے متعلق شبہات کو بھی دور کیا اور ایک ایسی دوستی کی فضا تعمیر کی جو فی زمانہ کم از کم یورپی ممالک کی حد تک ایک استثنا کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے ایک طرف تو مختلف میلوں، نمائشوں اور تقریبات کے ذریعے ہالینڈ کے عوام کو پاکستانی کلچر اور تہذیب کے خوبصورت پہلوئوں سے آگاہ کیا اور باہمی تجارت کو فروغ دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی کمیونٹی میں بھی اتفاق اتحاد اور یگانگت کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے ہر مثبت اقدام کی دل کھول کر مدد اور سرپرستی کی جس کی ترجمانی اس کتاب کے انتساب سے بھی ہوتی ہے جو کچھ یوں ہے۔
''پاکستان اور ہالینڈ کے عوام کی قربت اور ہم آہنگی کے نام''
کتاب کے آغاز میں چند ڈچ اور پاکستانی احباب کے تاثرات درج کیے گئے ہیں جن کی ایک ایک سطر اس بات کی گواہ ہے کہ ایک اچھے سفیر کو کیسا ہونا چاہیے! اور اعزاز احمد چوہدری نے اپنے اس منصب سے کیسے عمدہ انداز میں انصاف کیا ہے۔ پہلے باب میں جزوی طور پر سفرنامے کا سا انداز غالب دکھائی دیتا ہے کہ مصنف کی آنکھوں نے اس ملک کو کس طرح سے دیکھا اور محسوس کیا اور دوسرے باب میں اس موضوع پر بات کی گئی ہے کہ ہالینڈ کے لوگوں کو پاکستان سے روشناس کرانے، اس کا امیج بہتر بنانے اور ''ان کی آنکھوں'' کے لیے کیا منظر نامہ ترتیب دیا گیا۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ موجودہ ملکہ بیٹرکس کی والدہ ملکہ جولیانہ کی اولین پاکستانی سفیر بیگم رعنا لیاقت علی خان سے کیسی گہری دوستی تھی اور یہ کہ وہ جس میز پر برج کھیلا کرتی تھیں اسے اب پاکستانی سفارت خانے میں ایک یادگار کے طور پر محفوظ کردیا گیا ہے۔
(اسی حوالے سے ''پاکستان ہائوس'' کے بارے میں بھی ایک دلچسپ دستاویزی پس منظر واضح کیا گیا ہے) اس کے بعد ان اقدامات کی باتصویر تفصیل دی گئی ہے جن کی مدد سے دونوں ملکوں اور کمیونٹی کے درمیان رشتوں کو مضبوط تر کیا گیا اور تین سال کے مختصر عرصے میں ایک ایسی فضا ہموار کی گئی کہ نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت بڑھی اور تعلقات میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی بلکہ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی کو بھی ہر سطح پر اس قدر متحرک کیا گیا کہ سال کے ہر حصے میں کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رہی۔ کھیلوں کے مقابلے ہوئے جن میں ''دوستی'' کے نام سے ہاکی، کرکٹ اور گولف کے ٹورنامنٹ ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ کروائے گئے جن میں ڈچ لوگوں کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی مقامی خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس کے ساتھ ساتھ کلچرل ورثے اور روایت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے لکھے گئے باب میں بھی تاریخی پس منظر کے ساتھ بہت سے ایسے حقائق سامنے لائے گئے ہیں جن سے دونوں ملکوں کے عوام کے اشتراک اور کمیونٹی کی سطح پر ان پروگراموں کی تفصیل بھی سامنے آتی ہے جن کے مہمان شرکاء میں موسیقار سہیل رعنا، آسکر انعام یافتہ فلم میکر شرمین عبید چنائے، گلوکار شوکت علی اور ابرارالحق، ادیب مستنصر حسین تارڑ' مزاح گو مقبول شاعر انور مسعود اور راقم الحروف شامل ہیں، ان تقریبات کا اہتمام عام طور پر مقامی پاکستانی خواتین کی تنظیم PLAIN نے کیا اس کے علاوہ افطاری، آم میلے، برائیڈل شو، اقبال ڈے اور کبڈی کے مقابلے بھی کروائے گئے جن میں بعض مقامی تنظیمیں بھی شامل رہیں۔ بیشتر تقاریب میں دی ہیگ کے ڈچ عوام، فارن آفس اور کلچر کے نمایندوں نے بھی شرکت کی اور یوں ہالینڈ کے پاکستانی سفارت خانے نے وہ کام کیا جو ہمارے ہر سفارت خانے کو کرنا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ کتاب عام قارئین کے ساتھ ساتھ تارکین وطن، وزارت خارجہ اور ہمارے تمام عوامی نمایندوں کو اس لیے بھی پڑھنی چاہیے کہ اس کی وساطت سے ہم پاکستان کے اصل اور Soft امیج کو دنیا کے سامنے مؤثر انداز میں پیش کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں اس اہم اور دور رس کام کی اہمیت کو بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں قائم پاکستانی سفارتخانوں سے لیا جاسکتا ہے۔ اعزاز احمد چوہدری مبارک اور تعریف کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑے خوبصورت اور ماہرانہ انداز میں اس مہم کا آغاز کردیا ہے۔