برطانیہ کا منفرد اسکول جہاں 42 زبانیں بولی جاتی ہیں

اسکول میں بچوں کی تعداد 450 ہے اور یہاں انگریزی سمیت بیالیس زبانیں بولی جاتی ہیں


غ۔ع July 12, 2016
اسکول میں بچوں کی تعداد 450 ہے اور یہاں انگریزی سمیت بیالیس زبانیں بولی جاتی ہیں:فوٹو : فائل

PUNJAB: کلیری مونٹ پرائمری اسکول ناٹنگھم میں واقع ہے، برطانیہ کے ہزاروں پرائمری اسکولوں اور اس اسکول میں بہ ظاہر کوئی فرق نہیں ۔ خوب صورت وسیع و عریض عمارت میں بنے ہوئے کمرہ ہائے جماعت میں کئی سو بچے علم حاصل کرتے ہیں۔ اسمبلی کے وقت بچے مخصوص جگہ پر قطاروں میں جمع ہوتے ہیں اور پھر اسمبلی کی کارروائی ختم ہونے پر کمروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سفید، سیاہ، گندمی رنگت اور مختلف قومیتوں کے حامل بچے ہوتے ہیں۔ کلیری مونٹ کی وجۂ شہرت یہ ہے کہ اس اسکول میں بیالیس زبانیں بولی جاتی ہیں!

برطانیہ غالباً واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ لندن کو اسی لیے عالمی دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ متنوع تہذیبوں اور ثقافتوں کے اس ملک میں ہر خطے کی ثقافت نظر آتی ہے۔ عوامی مقامات کی طرح تعلیمی اداروں میں مختلف ثقافتوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ کلیری مونٹ پرائمری اسکول میں بھی ثقافتوں کا یہی تنوع، لسانی رنگا رنگی کی صورت میں نظر آتا ہے۔

اسکول میں بچوں کی تعداد 450 ہے اور یہاں انگریزی سمیت بیالیس زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسکول کے اساتذہ اس صورت حال سے کیسے نمٹتے ہیں؟ اس بارے میں اسکول کے ہیڈ ٹیچر اینڈر یوگیلاگر کہتے ہیں ''ابتدائی گریڈز کے بچوں کو پڑھانے میں کافی مشکل پیش آتی ہے کیوں کہ وہ انگریزی اچھی طرح نہیں سمجھ پاتے۔ '' ان بچوں کو باقاعدہ تعلیم کے آغاز سے قبل دو ہفتے پر مشتمل انگریزی زبان کا خصوصی کورس کروایا جاتا ہے۔ کورس کی تکمیل کے بعد انھیں کلاسوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اینڈریو کا کہناہے کہ ان طلبا کی اکثریت گھرپر مادری زبان بولتی ہے اس لیے یہ انگریزی سے نابلد ہوتے ہیں۔ انگریزی بہتر بنانے کے لیے کلاس کے اندر ہر بچے کو انگریزی روانی سے بولنے والے بچے کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے۔

اسکول کے نتائج غیر معمولی تو نہیں البتہ قومی اوسط 80 فی صد کے مطابق ضرور ہیں۔ 1992 میں یہاں نصف تعداد میں انگریز بچے تعلیم حاصل کرتے تھے مگر اب ان کی تعداد محض 15 فی صد ہے۔ مشرقی یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے والدین کے بچوں کی تعداد 18 فی صد ہے۔ باقی بچے ایشیائی، افریقی، شمالی و جنوبی امریکی نژاد ہیں۔

مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کی وجہ سے اسکول کی انتظامیہ نے خصوصی پالیسی تشکیل دی ہے جس میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اسکول پر کسی بھی طرح نسل پرستی کا الزام عائد نہ کیا جاسکے۔ اس پالیسی کے تحت باقاعدہ ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس کا کام اسکول میں نسل پرستی کی علامات تلاش کرنا ہے۔ کئی بچوں کے والدین انگریزی اچھی طرح سمجھ اور بول نہیں پاتے۔ اساتذہ اور والدین کے اجلاس کے دوران ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کو یقینی بنانے کے لیے انتظامیہ نے مترجموں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ ناٹنگھم میں رہائش پذیر تارکین وطن میں یہ اسکول خاصا مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چار برس کے دوران یہاں زیر تعلیم طلبا کی تعداد سے بڑھ کر 450 تک پہنچ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں