ہم مصیبت کے مارے کدھر جائیں گے
امجد صابری کا قتل تسلسل ہے اس قتل عام کا جو اب کراچی کی تزئین وآرائش کا حصہ ہیں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے۔ امجد صابری بھی گئے۔ گویا:
ہمارے گھر بھی گئے اور بھی گھرانے گئے
چھتوں کے ساتھ ہی چڑیوں کے آشیانے گئے
امجد صابری کا قتل تسلسل ہے اس قتل عام کا جو اب کراچی کی تزئین وآرائش کا حصہ ہیں۔ ایک نہیں دو نہیں نجانے کتنے ان کے نقطہ نظر سے قتل، ہمارے عقیدے سے شہید ہوگئے۔ ہر سال، ہر ماہ قاتل بڑے آرام سے موٹر سائیکلوں پر، دوپہر، رات کا کھانا تناول فرمانے کے بعد، جگالی کرتے، پان کھاتے، سیٹیاں بجاتے بلکہ بعض اوقات گنگناتے ہوئے جسے شہید کرنا ہے اس کی (Racky) چوکیداری کرتے ہیں، پہلے حسن انتظام، پھر قتل عام۔ طے شدہ موڑ اور ٹھیک وقت پر۔ اپنا کام جسے وہ کچھ صورتوں میں فریضہ حق جب کہ اکثر حالتوں میں قوم کے مفاد کی جنگ قرار دے کر انجام دیتے ہیں۔ جس کے بعد وہ ٹہلتے ہوئے بڑے آرام سے کوئی عجلت نہیں یا تو قریب کی گلیوں یا آگے ٹریفک میں جا ملتے ہیں۔
ادھر بندہ جان سے گیا۔ اگرچہ ابھی طے ہونا باقی ہے کہ اسے شہید قرار دیا جائے یا مقتول۔ ذرا آگے چل کر اس پر گفتگو کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔بندہ گیا، پہلے بھیڑ لگی ، پھر میڈیا پہنچا۔ تصاویر یعنی Photo Session شروع۔ ابھی مختلف زاویوں سے مقتول کو Scan کیا جا رہا تھا کہ سائرن بجنا شروع۔ پولیس آگئی پولیس آگئی۔ ہٹو بچو!۔ ایک صاحب شام ڈھلے دھوپ کا گہرا چشمہ لگائے ہاتھ میں چھڑی لیے جائے وقوعہ کی طرف بڑھتے ہیں جو غالباً علاقہ SHO ہیں۔
وہ گھنٹہ بھر حادثے کا جائزہ لیتے رہے سوائے اس کے کہ انھوں نے مقتول کو نظر بھر کر دیکھنا گوارا نہ کیا۔ بہرحال بات ان کے بس کی نہیں لگتی کیونکہ رینجرز آگئی۔ اب معاملہ بھی سنجیدگی اختیار کرگیا۔ شاید مقتول کوئی اہم شخصیت ہیں، ورنہ خود میں نے لیاری ندی میں دنوں لاشیں تیرتی دیکھی ہیں۔ پتا چلا کہ مرحوم واقعی مشہور تھے۔ اب ناپ تول شروع ہوا۔ کچھ پاؤڈرز مذکورہ جگہ پر پھینکے گئے اور Dead Body کو ضروری انتظامات کے بعد یا تو ورثا کے حوالے کردیا گیا یا اسپتال کے۔
کراچی سمندر ہے لیکن اس کی لہریں دو کروڑ مجبور و محض بے بس اور غریب لوگ ہیں۔ کراچی سمندر ہے لیکن اس کا ساحل وہ بے شمار جھگیاں ہیں جو یا تو دھوپ سے جھلستی رہتی ہیں یا ان میں آگ لگ جاتی ہے اور ان لہروں کا جھاگ ہیں امجد صابری شہید کے وہ آخری الفاظ ''مجھے مت مارو...میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔'' ان لہروں کا جھاگ ہیں بہت سی آوازیں۔
آئیے! اگر آپ کے پاس وقت ہو، آپ بھی بہت مصروف نہ ہوں تو ان میں سے کچھ آوازوں کو سن لیتے ہیں۔ مثلاً ایک متواتر آواز ہے۔٭ کوئی میرے بچے کو نوکری دے دے۔ اس کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ اس کے پاس اعلیٰ تعلیم ہے۔ میں نے سب کچھ بیچ کر اس کی تعلیم پر لگا دیا۔٭ بھائی صاحب! میں سفید پوش ہوں۔ کچھ نہیں دے سکتا سوائے بیٹی کے۔ یہ بڑی ہنرمند ہے۔ سلیقہ شعار ہے۔ شریف ہے لیکن میں تہی دامن۔ ٭ ڈاکٹر صاحب! میرے بچے کی طبیعت بہت خراب ہے۔ اس کی سانس چل رہی ہے۔ آپ براہ کرم اسے پہلے دیکھ لیں۔ بیٹا ذرا صبر۔ بس ابھی ابھی نمبر آتا ہے۔٭ اس ماہ کیا ہوگا بچوں کی اسکول فیس بھی کئی ماہ سے نہیں دی۔گھر میں راشن کے نام پر کچھ نہیں۔ ٭ بھائی سلام! بھائی! اس ماہ میں پارٹی کی مدد نہیں کرسکوں گا۔ کاروبار بہت مندا ہے۔ آپ کی پرچی اگلے ماہ ڈبل کردوں گا۔ ماں قسم کھاتا ہوں۔ ٭ اللہ ہمیں پینے کا پانی فراہم کردے اور کچھ نہیں مانگیں گے۔ ٭ ارے گھر میں گٹر کا پانی آگیا۔ اللہ کی بندی بالٹی سے باہر پھنکوا دیتیں اس میں پریشانی کیسی؟ ٭ آگے گولیاں چل رہی ہیں، مت جانا ادھر ہی سے مڑ جاؤ۔ ٭ بھائی! میرے پاس صرف ایک موبائل ہے۔ میں دوسرے صوبے کا رہنے والا ہوں۔ روز گھر بات کرنی پڑتی ہے۔ ٭ ابو! عید پر جوتے دلا دو۔ کئی سال ہوگئے آپ نے چپل دلائی ہے۔ ٭ ابو! بس پانچ چوڑیاں لادیں گے۔ ٭ مجھے مت مارو۔ میں کوئی بھی ہوں مسلمان تو ہوں۔ میرے بچوں کا کیا ہوگا؟
لیکن اسی سمندر کا ایک اور حصہ بھی ہے۔ دولت کا طاقت کا، طاقت کا، استبداد کا۔ جس کی موجیں چند ہزار لوگ ہیں۔ جن کا لہجہ بڑا مضبوط ، جن کی چال میں تمکنت۔ ہتھیار جن کی ڈھال ہے۔ یہ بولتے نہیں دھاڑتے ہیں۔ یہ ہاتھ سے نہیں جان سے مارتے ہیں۔ جب گاڑی چلاتے ہیں تو انسانوں کو کچل دیتے ہیں۔ جب کھاتے ہیں تو من و سلویٰ سے کچھ نیچے کا۔ جب پہنچتے ہیں تو کمخواب، اطلس و دیبا۔ پیتے ہیں تو پانی ہزاروں کا۔ شراب لاکھوں کی۔ یہ خواب دیکھتے نہیں، خرید لیتے ہیں۔ یہ خواہش نہیں کرتے چھین لیتے ہیں۔
یہ تعداد میں کم لیکن یہی اصل سمندر ہیں اور اس کی بپھری ہوئی لہریں۔ کراچی ان سے ہے، کراچی ان کا ہے اور اس سمندر کا ساحل Beach کہلاتا ہے، حسین ساحل، سرسبز و شاداب، گھنے درختوں سے ڈھکا ہوا۔ 1000 گز، 2000 گز، 4000 گز کے وسیع و عریض بنگلوز، ایسے گھر جن میں ہر وہ نعمت، لذت، راحت، جن کے خواب دیکھنے کے لیے بھی Sleeping Pills لینی پڑیں۔ یہاں سے سمندر دیکھو تو لگتا ہی نہیں سمندر Down Town میں کچھ اور ہے Suburbs میں کچھ اور۔ موجیں یہاں بھی جھاگ بناتی ہیں۔ لیکن یہاں آوازیں بالکل مختلف ہیں۔ آئیے! انھیں بھی سماعت کرتے ہیں۔ ٭ تمہارے بچے کو نوکری نہیں مل سکتی، جاؤ اسے کسی کام پر لگا دو۔ ٭ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں ہے تو پہلے کچھ جمع کرو پھر بیٹی بیاہنا۔ ٭ بھائی نمبر وقت پر ملے گا۔ تیرا بچہ جیے یا مرے۔ ٭ بیٹا اپنی اوقات میں رہ ورنہ کل کا سورج نہیں دیکھ پائے گا۔ ٭ ابے او کنگلے! راستہ چھوڑ ہارن کی آواز نہیں سنتا بہرے۔ ٭ تیرا دھندہ چلا یا نہیں، پرچی پوری کر۔ ورنہ...! ٭ موبائل نکال وقت کم ہے، بھاشن نہیں دے۔ ٭ الو کے پٹھے میں تجھے تنخواہ دیتا ہوں ناں۔ میرے پاس ایڈوانس نہیں بیٹا جوتا مانگ رہا ہے تو اسے جوتا مار۔ ٭ یار! ایک تو ہر ماہ ان جھگیوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ سالے چرسی موالی۔ سگریٹ پھینک دیتے ہوں گے۔ دھواں ہم نگلیں۔ ٭ اف کس علاقے سے گاڑی گزر رہی ہے، اتنی بدبو... دماغ پھٹا جا رہا ہے۔ ڈارلنگ! یہ علاقہ کون سا ہے۔ ارے جھونپڑ پٹی ہے۔ ٭ ایک تو ان غریبوں کے گٹر جان کا عذاب ہوگئے، جب دیکھو بھرے ہوئے ہیں۔ قارئین کرام! قرآن کریم میں اللہ پاک نے ایک ہی سمندر کے دو حصوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ''میں نے ان میں ایک آڑ رکھی ہے، ایک کا پانی تم پیتے ہو، دوسرے سے غذا کا انتظام کرتے ہو۔'' مجھے اس سے آگے کا علم نہیں۔ میں خواص نہیں۔ میں سمندر پر بہت کم جاتا ہوں۔ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن میں نے زندگی میں قطروں کے سمندر بارہا دیکھے جو دھندلی، گدلی آنکھوں کے ساحل پر بہتے ہیں۔ ابھی تازہ تازہ امجد صابری شہید کے بیٹے کی آنکھوں پر ایک گہرا سمندر موجزن دیکھا۔ جو گا رہا تھا: ''کرم مانگتا ہوں، عطا مانگتا ہوں ، الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں'' جس پر ایک بڑی موج نے اٹھ کر کہا۔ ''تاجدار حرم! ہو نگاہ کرم، ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے''۔