ایک درخواست
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں<br />
دیکھنا۔ حد نظر سے آگے بڑھ کر<br />
دیکھنا بھی جرم ہے
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا۔ حد نظر سے آگے بڑھ کر
دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا... اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر
سوچنا بھی جرم ہے
آسمان در آسمان اسرار کی پرتیں ہٹا کر
جھانکنا بھی جرم ہے
''کیوں'' بھی کہنا جرم ہے!
''کیسے'' بھی کہنا جرم ہے!
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس ''کچھ اور بھی'' کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
اے خداوندان ایوان عقائد
زندگی کے نام پر بس اک عنائت چاہیے
مجھ کو ان سارے ''جرائم'' کی اجازت چاہیے
یہ بہت ہی مبنی بر حقیقت، دلدوز، چشم کشا اور عہدآفرین منظوم درخواست اس بے مثل تخلیقی فن کار احمد ندیم قاسمی کی ہے جس نے ستر برس تک اردو زبان اور شعر و ادب کی ایسی خدمت کی جس کی مثال ہماری تاریخ میں کم کم ہی ملتی ہے۔ اگرچہ دس جولائی 2016ء کو ان کی اس فانی دنیا سے پردہ کیے کیلنڈر کے حساب سے دس برس ہو جائیں گے مگر ان کا فن ہر بڑے فن کار کے فن کی طرح ماہ و سال کی قید سے آزاد ایک ایسا پھول ہے جو ہر موسم میں کھلا رہتا ہے۔
اس نظم میں ان کے مخاطب وہی لوگ ہیں جنھیں علامہ اقبال نے ''ملائی و سلطانی و پیری'' کہا تھا کہ یہی وہ چھلاوے ہیں جو بھیس بدل کر گھروں کو مکان اور مکانوں کو آسیب زدہ مقامات کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔ نئی فکر، نئی سوچ، نیا سوال ان کے لیے پروانۂ موت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس طرح کی ہر بات پر وہ ''جرم'' کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔
روایتی معنوں میں یہ ظالم اور بے انصاف حکمران، جاہل اور فرقہ پرست ملا اور مردوں کا رزق کھانے والی ان روحانی گدیوں کے مجاور تھے جو مل جل کر عوام کے حقوق کو غصب اور پامال کر رہے تھے لیکن اب ان کا دائرہ بہت پھیل گیا ہے کہ ان کی صفوں میں کئی ٹی وی اینکرز، صحافی، دانشور، قلمکار، سرکاری افسران اور ہر طرح کے اہل زور و زر بھی نام اور بہروپ بدل بدل کر شامل ہوتے جا رہے ہیں اور جو کوئی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا اس کا منہ بند کرنے کے لیے یہ ہنرمندان آئین و سیاست اور خداوندان ایوان عقائد ایسے قوانین وضع کرتے ہیں کہ ہر سچ بولنے والے کو کسی نہ کسی جرم کے نام پر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
قاسمی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس نظم میں ان حاکمان وقت سے نہ تو انصاف مانگا ہے اور نہ معافی بلکہ اس کی جگہ انھوں نے ان تمام سچائیوں کو بیان کرنے کی معنی خیز اجازت طلب کی ہے جنھیں جرائم کا نام دے دیا گیا ہے۔ ہم صدسالہ جشن ندیم کمیٹی کے ارکان مل کر ان کے ایک سوویں یوم پیدائش 20 نومبر 2016ء کے حوالے سے پاکستان سمیت پوری اردو دنیا میں ''ندیم فہمی'' اور ان کی خدمات کی سپاس گزاری کے لیے مختلف تقاریب کا اہتمام کر رہے ہیں جن میں سے ایک ان کے فن و شخصیت کے حوالے سے ایک بھر پور ''ڈاکیومینٹری'' کی تیاری بھی ہے جس پر گزشتہ کئی مہینوں سے کام جاری ہے۔ اس کے دو ورژن ہوں گے۔
ایک دس سے پندرہ منٹ کا جو مختلف تقریبات کے دوران دکھایا جا سکے اور دوسرا ایک مفصل اور بھرپور ڈاکیومینٹری فلم جس کی طوالت نوے منٹ تجویز کی گئی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ قاسمی صاحب کا کام، معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے ''سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا'' کی مثال بنا ہوا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرکار اپنی وزارت ثقافت اور دیگر متعلقہ محکموں کے توسط سے تمام قومی مشاہیر کے بارے میں اس نوع کی فلمیں تیار کرواتی کہ ہماری آیندہ آنے والی نسلیں ان کے کمال فن سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو بھی بہتر انداز میں جان سکتیں جن کے یہ مشاہیر ترجمان اور نمایندہ تھے اور پھر وزارت خارجہ کے توسط سے انھیں مناسب اور ضروری ڈبنگ کے بعد عالمی برادری تک بھی پہنچایا جاتا کہ وہ بھی ہمارے مشاہیر کو اسی طرح سے جان سکتے جیسے ہم ان کے بڑے لوگوں کو جانتے ہیں اور اس فہرست میں صرف اہل قلم ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق لوگوں کو شامل کرنا چاہیے۔
ایک بار میں نے اپنے الفلاح انشورنش کے CEO عزیز دوست نصرالصمد قریشی کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ ان کا ادارہ ایک ایسی ڈائری شایع کرے جس کے ہر ہفتے کے اختتام پر کسی ایسے رول ماڈل کی تصویر اور اس کی ان غیر معمولی خدمات کا ذکر، اعتراف اور تعارف پیش کیا جائے جن کی وجہ سے وہ اپنے شعبے کے ساتھ ساتھ عوام کی نظروں میں بھی معزز اور محبوب ٹھہرا۔ یقین جانیے کافی سخت انتخابی شرائط کے باوجود ایسے لوگوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔ کم و بیش ایسی ہی صورت حال گزشتہ برس برادرم مسعود علی خان کی کوششوں سے بننے والے پاکستان کے پہلے Hall of Fame کے ضمن میں بھی پیش آئیں اور اقبال کا یہ مصرعہ بار بار دھیان اور درمیان میں آیا کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی''
قاسمی صاحب کو بھی اپنی مٹی کی زرخیزی اور انسان کی عظمت پر ایسا ہی یقین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم ''ایک درخواست'' میں بظاہر تو وہ ہر طرح کے حاکمان وقت سے کچھ ''جرائم'' کی اجازت مانگ رہے ہیں مگر بین السطور پیغام یہی ہے کہ تاریخ اور معاشرے کے اصل مجرم یہی ہنرمندان آئین و سیاست اور خود ساختہ خداواندان ایوان عقائد ہیں جن کے پھیلائے ہوئے جبر کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود آخری فتح حق انصاف اور عوام دوستی ہی کی ہو گی اور یہ اجازت کی درخواست اصل میں درخواست نہیں بلکہ وہ نقارہ جنگ ہے جس کی دھمک میں ہر چیز کے معنی بدل جائیں گے۔