افطار گلاب اور اے حمید صاحب
اردو کے عظیم رومان نگاراے حمید صاحب اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کر رہے تھے
اردو کے عظیم رومان نگاراے حمید صاحب اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کر رہے تھے۔ اپنے بچپن کی سحری کا جو نقشہ انھوں نے کھینچا ، وہ آپ گزشتہ کالم میں پڑھ چکے ہیں ۔
وہ بولے 'یوں تو محلے کی دوسری دکانیں بھی خوب اہتمام سے سجائی جاتی تھیں مگر کاکا عمدو کی دکان کی سج دھج نرالی ہوتی تھی۔ کاکا عمدہ بوسکی کی قمیض ، ریشمی تہمد ، اورکالا پمپ شو پہنے خوشی سے جھوم جھوم کر دکان کے اندر باہر پھررہا ہوتا تھا ۔ وہ اپنا سماوار تخت پر لا رکھتا تھا ، اورافطار کی نوبت بجتی تو سبز چائے کا خوشبوار گھونٹ پی کر روزہ افطار کرتا تھا ۔
اس کا کاریگر سینڈو گاہکوں کو سودا دینے میں مصروف ہو جاتا تھا لیکن ساتھ ساتھ چائے بھی پیتا جاتا تھا۔ عنایتی حلوائی کی دکان پر بھی بجلی کے قمقمے روشن ہوتے ۔اس کا کاریگر مٹھائی کے سرخ گلاب بنانے میں بڑا ماہر تھا یہ گلاب بالکل سرخ گلاب کے پھولوں کی طرح مٹھائی کے ہرتھال میں ہاروں کی طرح سجے ہوتے تھے ۔ دور سے وہ اصلی گلاب کے ہار معلوم ہوتے تھے ۔ گھر میں جب کبھی مٹھائی کی ٹوکری آتی تو میں گلاب کا پھول اٹھا کر اپنی الماری میں چھپا لیتا تھا ۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ مٹھائی کے وہ گلاب نہیں بنتے ہیں ، بلکہ گلاب بھی ویسے دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔ سرخ گلاب سے تو بیاہ شادی یا جنازے پر ہی ملاقات ہوتی ہے ۔
عشا کی نماز کے بعد تراویح کا وقت ہوتا تو محلے کی رونق مزید بڑھ جاتی تھی ۔ ستائیسویں کی رات کو شہر، خاص طور پر ہمارے محلے میں بڑی گہماگہمی ہوتی تھی ۔اس رات شاید ہی کوئی شخص سوتا ہو گا۔ مسجدوںکے دروازوں کوکیلے کے پتوں اور گیندے کے کیسری پھولوں سے سجایاجاتاتھا۔ ان دنوں گیندے کے کیسری اور زرد پھولوں میں ایک عجیب قسم کی مہک ہوا کرتی تھی ۔
یوں تو شہر کے باغوں اور کھیتوں میں سجا پیازی رنگ کا گلاب بھی کثرت سے پایا جاتا تھا ، لیکن گیندے کا رواج زیادہ تھا۔ شبینے کا ہم بڑی بے تابی سے انتظار کیا کرتے تھے بلکہ ساری رات جاگ کر گزارتے تھے ۔ ابھی مسجد الون مییں ہیں اور ابھی مسجد جان محمد میں ۔ وہاں سے اٹھے ہیں تو ہال بازار والی مسجد خیرالدین میں تبرک کھارہے ہیں۔ ایک مسجد کے رونث پر بیٹھ کر نان اور حلوہ کھاتے تھے ، دوسری مسجد میں شکرپاروں سے جیب بھر لیتے تھے اورتیسری مسجد میں جا کر تیز نمک والی سبز چائے پیتے تھے ۔
سبز چائے کے بڑے بڑے پتیلے ہر مسجد کی ڈیوڑھی میں آگ پر چڑھے ہوتے تھے ۔دوایک بوڑھے ان کے پاس بیٹھے آگ تاپ رہے ہوتے تھے اور ساتھ ساتھ پتیلے میںپانی کے ڈونگے میں انڈیلتے جاتے تھے ۔مسجد کے صحن سردی میں ٹھٹھر رہے ہوتے تھے۔رمضان کی آخری ایام بڑے دل گداز اور اداس ہوتے تھے۔ تراویح پڑھنے کے بعد روزہ دارایکدوسرے سے مصافحہ کرتے تھے۔ حافظ اور سامع کو نذرانہ دیا جاتا تھا ۔ اس کے سر پر پٹکا باندھا جاتا تھا ۔ اب سحری کے وقت بہت کم ڈھول بجانے والے آتے تھے ۔ صرف گونگا بگل والا ، حافظ نوبت والا اور نعت خواں ٹولیاں رہ جاتی تھیں ۔گلی کی نکڑ پراکتارے والا سائیں نمودار ہوتا ، لمبی جٹائیں ، سرخ آنکھیں ، پرسوز آواز ، اور کندھے پر پیوند لگا کمبل ، وہ اکتارے پر گا رہا ہوتا تھا ،
تیرا ہو جائے گا باغ ویران
تے مالی نے ٹر جاناں
پچھلے پہر گلی کی ٹھٹھرتی سنسان فضا غمگیں لبادہ اوڑھ لیتی تھی ۔ میں گلی میںآ کر ایک ایک نعت خواں کو تکتا رہ جاتا تھا ۔ اب یہ شکلیں ایک برس تک دیکھنے کو نہیں ملیں گی ۔کون پچھلی رات کو ستاروں کی چھاوں میں اٹھتا ہے اور گلی گلی نعتیں پڑھتا ہوا روزہ داروں کو جگاتاپھرتا ہے۔میں ان کے غم زدہ الوداعی گیت سن کر اداس ہو جاتا تھا ۔ بعض نعت خوانوں کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی تھیں ۔ مجھے لگتا کہ جیسے گلی میں سے کوئی دلہن ڈولی میں بیٹھ کر رخصت ہو رہی ہے ۔ بابل کے پیارے گھر کو چھوڑ کر سسرال جا رہی ہے ۔
مجھے سحری ایک دلہن کے روپ میں دکھائی دیتی تھی، سرمگیں آنکھوں اور تاروں بھرے آنچل والی دلہن ۔ بابل کی دہلیز سے قدم نہیں اٹھ رہے ، مگر جانا بھی ضرور ہے ۔ جدائی مقدر ہو چکی ہے ۔الوداع اے عروس رمضان کہ تو نے گجر دم اٹھ کر ہمارے منہ شبنم سے دھلائے ۔ ہمیں ستاروں کی چھاوں میں گیندے اور گلاب کے باغوں کی سیر کرائی ۔ہم نے تیرے دامن کو تھام کر صبح کی شبنمی ہوا میں پرواز کی، اور تیرا خیال دل میں لے کر سوئے اور تیری یاد ہی کو گلے لگا کر تجھ سے رخصت ہوئے ۔ الوداع اے عروس رمضان ۔
یہ الوداعی کلمات کہہ کے اے حمید صاحب خاموش ہو گئے ۔ آج جب سوچتا ہوں کہ اے حمید صاحب اپنے ماضی کی ان خوبصورت یادوں کے ساتھ خود بھی ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئے ہیں تو یقین نہیں آتا، اورانکو اے حمید مرحوم کے بجائے اے حمید صاحب لکھنا ہی اچھا لگتا ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ،
جاگنے کی دھند میں کوئی خواب گم ہو گیا ہے
اب یہ خواب کبھی پھر دکھائی دے گا
دکھائی دے گا یا نہیں
جاگنے کی دھند میں کوئی چہرہ گم ہو گیا ہے
اب یہ چہرہ پھر کبھی دکھائی دے گا
دکھائی دے گا یا نہیں