فن پہلوانی زوال پذیر آخری حصہ

اب فن پہلوانی میں بڑے لوگوں کے بچے ہیلتھ کلب کے ذریعے اپنا شوق پورا کرتے ہیں


لیاقت راجپر July 01, 2016

اب فن پہلوانی میں بڑے لوگوں کے بچے ہیلتھ کلب کے ذریعے اپنا شوق پورا کرتے ہیں ، اپنے جسم کو خوبصورت بنانے کے لیے ماڈرن طریقے سے ورزش کرتے ہیں اور ایسے وٹامنز کا استعمال کرتے ہیں جن سے ان کا جسم موٹا نہیں ہوتا۔ مگر اس میں ایک خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ان طاقت دینے والی ادویات یا پھر وٹامنز میں Steroid ملا ہوا ہو، تو وہ جان لیوا ہوتا ہے ،کچھ عرصہ پہلے آپ نے پڑھا ہوگا کہ لاہورکے ایک کلب میں ورزش کرنے والے دو تین ممبرز نے طاقت کی دوائیاں استعمال کی جن کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی، کیونکہ طاقت کے پریشر سے دل کی دھڑکن کچھ زیادہ بڑھ گئی اور لوگوں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ مرگئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلوانی کرنے سے نوجوان کئی برائیوں سے بچ جاتے ہیں اورکہیں ادھر ادھر جانے کے بجائے اپنی صحت کو بنانے میں لگے رہتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اس فن اور شوق کی تکمیل کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ اس دور میں تو نوکری ملتی نہیں، بزنس پیسے کے بغیر ہو نہیں سکتا اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی گھرکے اوپر بوجھ بن کر بیٹھنا اور پھر پہلوانی کے لیے پیسوں کا تقاضا کرنا کیسے ممکن ہے۔ ؟

ممتازسینڈو جسے یہ خطاب ذوالفقارعلی بھٹو نے دیا تھا اور باقی ٹائٹل جس میں وہ رستم سندھ اور رستم پاکستان حاصل کرچکے ہیں، وہ جب لاہورگئے اور ان کی ملاقات بھولوبرادران سے ہوئی اور انھوں نے ان کے ساتھ مل کر پہلوانی کے جوہر دکھائے تو کئی انعامات اورکپ جیتے۔ وہ ان کے ساتھ سعودی عرب اوردبئی میں کئی مقابلے جیت چکے تھے، اس زمانے میں ہر ٹور کے پانچ ہزار روپے ملتے تھے جو آج کل کے حساب سے 5 لاکھ بنتے ہیں لیکن وہ زیادہ وقت بھولو برادران کے ساتھ نہیں رہ سکے اور واپس لاڑکانہ چلے آئے اور وہیں پر اپنے فن کو جاری رکھا۔

ممتاز دو روسی ٹریکٹرز کو اسپیڈ سے چلتے ہوئے روک لیتے تھے، چار Jeeps کو روک کر داد حاصل کرتے ، اور چارصحت مند گھوڑوں کوتیز بھاگنے سے ہاتھوں میں رسیاں باندھ کر روکتے تھے۔ ایک مرتبہ بھولو برادران نے ممتاز کو بلوا کر ان کی تاج پوشی کی کیونکہ وہ ان کی پہلوانی کے فن سے بڑے متاثر تھے اوران سے کہتے رہے کہ وہ ان کے ساتھ لاہور میں رہے مگر اپنے گھر والوں سے زیادہ دن دور نہیں رہ سکتے تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی زندگی کے باقی دن وہیں گزار دیے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم نے ایسے شخص کو بھلادیا ہے۔بھولو برادران نے ان کی قدر افزائی کی۔

ممتازکے بیٹے زاہد کھوکھر بھی پہلوانی کی موروثی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلوانی کا فن ان کے پاس سات پشتوں (نسلوں) سے جاری ہے اور یہ کیسے جاری ہے اور اس سلسلے میں انھیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس میں خاص طور پر مالی معاملہ ہے اور اس کے علاوہ اکھاڑے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملتی ہے اور وہ جہاں پراکھاڑہ بناتے ہیں اسے وہاں سے ہٹوایا جاتا ہے۔ گزشتہ ادوار میں فن پہلوانی کی بڑی عزت ہوتی تھی اور بڑے سیاستدان جس میں بھٹو بھی شامل ہیں ہر قسم کی مدد اور امداد کرتے تھے اور ان کے فن کو دیکھنے آتے تھے۔

اس کے علاوہ ضلع انتظامیہ اور مالدار لوگ ان کی سرپرستی کرتے تھے۔ اب تو اس کے بالکل برعکس ہوگیا ہے۔ زاہد نے 7 سال کی عمر سے پہلوانی شروع کی تھی اور اس وقت وہ 7 من کی پتھر کی چکی اپنے سینے پر 2 منٹ تک رکھواتے ہیں۔ اپنے جسم کو مضبوط بنانے کے لیے وہ تقریباً 250 مرتبہ اٹھک بیٹھک کرتے ہیں ، رسی سے جمپ لگاتے ہیں، ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں اور کشتی لڑتے ہیں۔

انھیں صبح اذان کے ساتھ جاگنا پڑتا ہے۔ اس پہلوان کی یہ خوبی ہے کہ وہ دانتوں میں رسی پکڑ کر جیپ کو کھینچتے ہیں، روسی ٹریکٹرزکو اپنے سینے کے اوپر سے کراس کرواتے ہیں، لوہے کی زنجیر کو ہاتھ سے توڑتے ہیں، جیپ کو اپنے پیروں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اب 12 من کا وزن بھی اپنے سینے کے اوپر رکھ کر نیچے سے لوہے کی کیلیں لگی پٹ پر رکھ کر سوجاتے ہیں،کبھی کبھی تو یہ وزن 25 من تک بھی رکھوا لیتے ہیں جب کہ ایک من کا وزن ایک ہاتھ سے اٹھا لیتا ہے۔

پہلوانی میں آنے کے لیے ایک اصول یہ ہے کہ اپنی بیوی کے علاوہ سب عورتوں کواپنی ماں بہن سمجھے، اپنے شاگردکواپنا بیٹا تصورکرے، ہر قسم کے نشے سے دور رہنا ، خوامخواہ وقت بے کار کاموں میں ضایع کرنا منع ہے، میں نے اکثر دیکھا ہے کہ پہلوانوں کے جسم پر گوشت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی ہے کہ جب وہ کوئی وزن اٹھاتے ہیں،کبھی کوئی بھاری چیز ان پرگر پڑتی ہے یا پھر کوئی چوٹ لگتی ہے تو یہ گوشت ان کی ہڈیوں کی حفاظت کرتا ہے اور اس گوشت میں نرمی پیدا کرنے کے لیے سرسوں کا تیل خوب ملا جاتا ہے اور پھر اسے ورزش کے ذریعے جسم میں جذب کیا جاتا ہے۔

جب وہ لوہے کی کیلوں پر لیٹ کرکوئی وزن اپنے اوپر رکھواتے ہیں تو انھیں اپنی سانس کو روکنا پڑتا ہے جس سے انھیں درد کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی muscles میں جو Flexibility آجاتی ہے وہ انھیں کئی نقصانات سے بچاتی ہے۔ اس وزن کو قائم رکھنے کے لیے سیکھنے والوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے اور انھیں سامان بھی اکھاڑے میں استاد کی طرف سے ملتا ہے اور یہ سامان وہ جو انھیں انعامات کی رقم ملتی ہے، اس سے لیتے ہیں۔

زاہد نے بھی رستم سندھ کا خطاب 1996 میں جیکب آباد میں ہارس اینڈ کیٹل شو میں حاصل کیا تھا اور اس کے ساتھ ٹرافی، سرٹیفکیٹ اور رقم دی گئی تھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلوانی کے فن کی سرپرستی کرے اور مالی امداد کے ساتھ ہر ضلع میں اکھاڑے بناکر اس میں ضرورت کا سامان دیا جائے اور پہلوانوں کو اس میں کوچ کے طور پر نوکری دی جائے۔ اس کے علاوہ جب ہفتہ کھیل منعقد کیے جائیں تو اس میں پہلوانی کے مقابلوں کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ یہ طاقت کا مظاہرہ دکھانے والا کھیل بہت قدیم ہے جسے تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے بچپن میں پہلوانوں کو دیکھا کہ وہ لوگوں کے جوڑوں کا علاج کرتے تھے اور اس کے علاوہ وہ حکمت کا کام بھی کرتے تھے مگر زیادہ تر یہ کام مفت میں کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کا ان کے پاس بڑا رش رہتا تھا۔

اس وقت بھی جاپان اور چائنا میں پہلوانی کا فن عروج پر ہے، اہل پاکستان انوکی پہلوان سے خوب واقف ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا اور دوسرے بڑے ممالک میں wrestling کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور لوگ اسے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں تو پھر ہمارے پاکستان میں اس کی ترقی کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ اس میں پہلوانوں کا اپنا بھی قصور ہے کہ وہ چپ ہوکر بیٹھ گئے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کریں اور لوگوں میں اس فن کے لیے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے حکومت سے مسلسل رابطہ رکھیں۔ حکومت کو بھی اس کھیل اور فن کی سرپرستی کرنی چاہیے جس نے ماضی میں پاکستان کا نام بلند رکھا تھا۔ اس طرح نوجوان نسل بری عادتوں سے بھی بچ جائے گی اور اپنی صحت کی طرف توجہ دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں