عید خوشیاں بانٹنے کا دن

افسوس کہ ہمیشہ کیطرح اس عید پر بھی اسکے بچے دوسرے بچوں کی اترن پہن کر اپنے مرے ہوئے باپ کو یاد کرتے ہوئے دن گزار دینگے


قیصر اعوان July 06, 2016
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنی خوشیوں میں سے تھوڑا سا حصّہ دکھی دلوں کے ساتھ بھی بانٹ لیں تا کہ کچھ لمحوں کے لیے ان کے رستے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔

آج عید کا دن ہے، یعنی خوشیاں بانٹنے اور سمیٹنے کا دن، سارے گلے شکوے بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگانے کا دن، ایک دوسرے کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا دن، حالات کے ستائے ہوئے اُن لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا تہوار جن کی زندگیوں میں یہ دن بھی بس عام دنوں کی طرح آکر گزر جاتا ہے۔

مگر ہماری خود غرضی دیکھئے کہ ہمیں دوسرے محلے میں بیٹھے شیخ صاحب کو عید کے مہنگے مہنگے تحائف بھیجنا تو یاد رہتا ہے مگر اپنے پڑوس میں بیٹھی وہ بیوہ عورت نظر نہیں آتی جو بیچاری دن بھر لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے معصوم بچوں کا پیٹ تو پال رہی ہے مگرل اکھ ضد کرنے کے باوجود بھی اپنے جگر گوشوں کو عید کے نئے کپڑے سلوا کر نہیں دے سکی۔

ہمیشہ کی طرح اس عید پر بھی اُس کے بچے دوسرے بچوں کی اُترن پہن کر اپنے مرے ہوئے باپ کو یاد کرتے ہوئے دن گزار دیں گے، مگر ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے، شیخ صاحب تو بڑے سرکاری افسر ہیں اور ان سے سو کام پڑسکتے ہیں مگر یہ بیچاری جو خود دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہے کسی کے کیا کام آئے گی؟ ہمارے لئے صرف اپنے بچوں کی خواہشات اور خوشیاں اہم ہیں، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں اور غریب کے بچے بھی وہی خواب دیکھتے ہیں جو امیر کے بچے، بس کسی کو تعبیر نصیب ہوتی ہے اور کوئی محروم رہ جاتا ہے۔

کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہمیں ہر سال کی طرح اس عید پر بھی پر اپنے ہم پلّہ عزیز و اقارب کے لئے عید ملن پارٹی کا اہتمام کرنا تو اچھی طرح سے یاد ہے مگر آگ برساتی گرمی میں اپنی بھوک مٹانے کے لئے لائنوں میں لگے وہ غریب لوگ بھول گئے جو آج کا سارا دن بھی بس یونہی روٹی کے چند نوالوں کے لئے لڑتے جھپٹتے گزار دیں گے۔ ہماری نظروں سے تو یقیناً وہ لوگ بھی اوجھل رہیں گے جو پچھلے کئی گھنٹوں سے گھر کے ارد گرد یہ سوچ کر چکر لگا رہے ہیں کہ کب پارٹی ختم ہو، کب پلیٹوں میں چھوڑا ہوا کھانا باہر پھینکا جائے اور کب وہ اُس سے اپنی بھوک مٹانے کا بندوبست کریں۔

کوئی دوسرے شہر ہو یا دوسرے ملک، سب اسی کوشش میں ہوتے ہیں کہ عید جا کر اپنوں میں ہی منائی جائے۔ اگر آپ کا کبھی پردیس میں اکیلے عید منانے کا اتفاق ہوا ہو تو یقیناً آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ اپنوں کی یاد اور اکیلے پن کا احساس جتنا عید کے موقع پر محسوس ہوتا ہے اُتنا شاید ہی کسی اور موقع پر ہوتا ہو۔ مگر پھر بھی ہم اپنی عید کی خوشیوں میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ ہم ایدھی ٹرسٹ اور دوسرے خیراتی اداروں میں رہنے والے اُن بے سہارا لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، جو ہر عید آنکھوں میں آنسو لئے اپنوں کی راہ تکتے تکتے گزار دیتے ہیں مگر اُن کا انتظار ہمیشہ کی طرح انتظار ہی رہ جاتا ہے اور اُن سے ملنے کوئی نہیں آتا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنی خوشیوں میں سے تھوڑا سا حصّہ ان دکھی دلوں کے ساتھ بھی بانٹ لیں تا کہ کچھ لمحوں کے لیے ان کے رستے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔

غیر تو غیر ہم تو اپنی خوشیوں کے چکر میں اب اتنے خود غرض ہوچکے ہیں کہ ہمارے پاس اب اپنے ان عزیز و اقارب کے گھر جا کر ہمدردی کے دو بول بول کر آنے کی بھی فرصت نہیں رہی جن کا کوئی پیارا ابھی حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوا ہے اور آج عید کے دن انہیں ہمارے دلاسے کی بہت ضرورت ہے۔ اپنوں کے یوں چھوڑ کر چلے جانے کا غم کیا ہوتا ہے اور ان موقعوں پر اُن کی یاد کیسے کلیجہ چھلنی کرتی ہے اس کا اندازہ تو آپ کو بھی ہوگا، آخرکبھی تو آپ بھی اس مشکل وقت سے گزرے ہوں گے۔

عید تو خوشیاں بانٹنے اور سمیٹنے کا دن ہے مگر ہم بدقسمتی سے سارا دن صرف اور صرف اپنے لئے خوشیاں سمیٹنے میں ہی گزار دیتے ہیں۔ آپ آج اپنی خوشیوں میں اُن لوگوں کو شریک کرکے تو دیکھیں جو ان خوشیوں سے محروم ہیں، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ آج عید کی وہ حقیقی خوشی اور لذت محسوس کریں گے جو آج سے پہلے آپ نے کسی عید پر محسوس نہیں کی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔