فن پہلوانی زوال پذیر پہلاحصہ

اکھاڑہ کافی بڑا تھا جس کے کچھ حصوں میں گڑھے کھدے ہوئے تھے


لیاقت راجپر June 30, 2016

میں جب چھوٹا تھا تو صبح سویرے لاڑکانہ میں واک کیا کرتا تھا اس دوران میں نے دیکھا کہ میدان میں ایک طرف عاشق پہلوان اور دوسری طرف ممتازکھوکھر ورزش کر رہے ہیں۔ دونوں کے اکھاڑوں میں پہلوانی سیکھنے والے ویٹ لفٹنگ کر رہے تھے، کچھ اٹھک بیٹھک لگا رہے تھے اور باقی ایک دوسرے کو گرانے کے لیے ایک دوسرے کے بدن پہ ہاتھ مارنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ان کے بدن پر لگا ہوا سرسوں کا تیل کسی کو بھی جسم پکڑنے میں کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔ چمکتا ہوا بدن جس پر کئی من گوشت چڑھا ہوا تھا وہ استاد تھے یا پھر پہلوانی کر کے تجربے کار ہو گئے تھے۔ اکھاڑے میں مٹی کے ڈھیر بھی تھے جس سے وہ ہاتھ مار کر پھسلتے ہوئے ہاتھ اور بدن میں پکڑ لانے میں استعمال کرتے ہوئے نظر آئے۔

اکھاڑہ کافی بڑا تھا جس کے کچھ حصوں میں گڑھے کھدے ہوئے تھے جس میں پہلوان اترکر یا پھر بیٹھ کر ٹریکٹر کو اپنے پیروں سے روکتے تھے یا گھوڑوں کو ہاتھوں سے آگے نہیں بڑھنے میں کام آتے تھے۔ آٹا پیسنے والی چکی کے بڑے بڑے پاٹ بھی پڑے نظر آئے جسے پہلوان اپنے سینے پر رکھتے یا پھر انھیں ہاتھوں سے یا پیروں سے اٹھاتے تھے۔

یہ دیکھ کر میرے دل میں بھی پہلوانی کرنے کا شوق پیدا ہوا مگر میں نے اکھاڑہ استعمال کرنے کے بجائے اپنے دوست غلام نبی شیخ کی اوطاق پر رکھے ہوئے پہلوانی کے سامان کو استعمال کیا۔ وہاں پر میرے علاوہ لیاقت منگی، الطاف منگی اور مختیار انصاری بھی آتے تھے۔ یہاں پرکافی سامان تو نہیں تھا لیکن ہمیں اپنی باڈی بہتر بنانے کے لیے کافی تھا۔ جب ہم نے پہلوانی شروع کی تو مجھ میں ایک تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ طاقت میں اضافہ ہوا، جسم کی ساخت میں خوبصورت کٹس پیدا ہو گئے۔ اب میں صبح نیند سے اٹھتے ہی دو دیسی انڈے توڑ کر کچے نگل جاتا تھا۔ اس کے بعد مکھن بیچنے والے سے ایک پاؤکا چوتھا حصہ منہ میں نگل کر نہانے کے لیے چلا جاتا۔ اسکول یا پھر کالج جانے سے پہلے گندم کی روٹی میں اصلی گھی ڈال کر اس کی پنجیری بنا کرکھا لیتا۔ جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلنے لگتا تو میری امی مجھے ڈرائی فروٹ سے بنا ہوا ایک لڈو تھما دیتی جو میں اسکول میں ہاف ٹائم میں کھا لیتا۔

دوپہر کھانے میں چھوٹا گوشت یا پھر پلہ مچھلی یا میٹھے پانی کی مچھلی کھانا ایک معمول تھا۔ شام ہوتے ہی ورزش دوستوں کے ساتھ مل کر کرتا تھا۔ ویٹ لفٹنگ کرنے کے بعد نہا کر سندھی تھادل کے تین تین گلاس پیتے جس میں خش خش، چھوٹی الائچی، بادام، پستے، اخروٹ، چینی سے بنی ہوئی مسری، خربوزہ یا تربوز کے بیج اور ایک ایسے پھول کے پتے ڈالتے تھے جس کا تاثر بہت ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ چھان کر مٹی کے بنے ہوئے کونڈے میں ڈال کر اسے لکڑی کے صاف ڈنڈے سے رگڑتے ہیں اور پھر اس کے سفوف کو صاف سفید کپڑے میں چھان کر پیا جاتا ہے۔

عام طور پر اس میں پانی ڈالتے ہیں مگر ہم لوگ اس میں دودھ ڈالتے تھے۔ اس کے پینے کے بعد ہماری آنکھیں لال ہو جاتی تھیں اور ہم پھر خوامخوہ لوگوں سے پھڈا کرتے تھے جس کا اب سوچ کر شرمندگی ہوتی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طاقت سے عقل ختم ہو جاتی ہے اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ پہلوانوں میں سے کوئی مشکل سے بڑا فلاسفر، محقق یا ادیب پیدا ہوا ہو۔ اس کے علاوہ ہم گوشت آدھا کچا، آدھا پکا ایک سے دو کلوکھا جاتے تھے۔ رات کو گھر جانے سے پہلے دودھ دہی کی دکان سے ایک کلو دودھ میں ایک پاؤ جلیبی ڈال کر کھاتے تھے۔ گاؤں کے لوگ بڑے محنتی اور طاقتور ہوتے ہیں مگر وہ بھی ہم سے کھانے پینے میں یا پھر پیدل چلنے میں پیچھے رہ جاتے تھے۔

آخر جب میں انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں سروس میں داخل ہوا تو پھر میرا رجحان پہلوانی سے لکھنے پڑھنے، صحافت اور ادب کی طرف ہوا۔ اب کچھ ہی سال پہلے میں لاڑکانہ گیا تو میرا گزر جناح باغ سے سول اسپتال جانے والے راستے سے ہوا تو میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو مجھے پہلوان لگ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ پاکستان اور سندھ کے مشہور پہلوان ممتاز سینڈو کے بیٹے ہیں تو میرا خیال ایک دم ممتاز کی طرف چلا گیا جو اپنے وقت کا نامور پہلوان تھا جس نے نام کمایا۔ وہ پہلوانی کے ساتھ سنارکی دکان پر کام کرتا تھا کیونکہ پہلوانی سے گھر نہیں چلتا ہے۔

پہلوانی بڑا مہنگا شوق اور فن ہے کیونکہ اس میں اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے بڑی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، چلو پہلے تو ہر چیز سستی تھی اور دوسری ضروریات زندگی کم تھیں گھر میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا، کیبل نہیں تھا، بجلی ہر ایک کے پاس نہیں ہوتی تھی، اسکول اور کالج کے خرچے بہت ہی کم ہوتے تھے، کچے مکان ہوتے تھے، دودھ، مکھن، گوشت، مچھلی، ڈرائی فروٹ بہت ہی سستا تھا۔ لوگ چارپایوں پر سوتے تھے، گھر میں موٹر کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، زیادہ سے زیادہ لوگ سائیکل عیاشی سمجھتے تھے ورنہ ٹانگہ سواری کا اہم ذریعہ تھا، گھر میں کپڑے دھلتے تھے، گھر میں جو پکتا لوگ کھا لیتے تھے، ہوٹلنگ زیادہ نہیں ہوتی تھی اور لوگ پارک میں جا کر بیٹھتے تھے۔ لوگ تفریح کے لیے صرف سینما کو سمجھتے تھے جس کی ٹکٹ بھی بہت ہی سستی ہوتی تھی اس لیے فلم دیکھنے کے لیے سارا گھر جاتا تھا۔

اب پہلوانی کے فن سے نوجوان اس لیے بھی بھاگتے ہیں کہ زندگی کا اسٹائل بدل گیا ہے۔ اب اگر ایک پہلوان دو کلو دودھ پیے گا تو اسے دو سو روپے خرچ کرنے ہوں گے، دو کلو گوشت کھائے گا تو دو ہزار خرچ ہو گا، پستہ، بادام، اخروٹ ایک ایک کلو چار سے پانچ ہزار تک کا ہو جائے گا۔ پھر خالص دیسی گھی پینا ہے جس کا ایک کلوکم ازکم 6 1سو روپے ہوں گے، مکھن تو آپ کو خالص ملے گا نہیں اگر مل جائے تو کتنے روپے کلو ہو گا۔ اب آپ بتائیں اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے ایک دن سے تین دن تک اتنا خرچہ آپ کہاں سے لائیں گے۔ اس کے علاوہ اکھاڑے میں آنا جانا، وہاں پر جسم پر سرسوں کا تیل ملنا اور آپ جانتے ہیں کہ سرسوں کا ایک کلو کتنے کا ہے۔

پھر آپ کو نہانے کے لیے صاف پانی کی ضرورت ہے وہ کہاں سے لائیں گے۔ اگر منرل واٹر استعمال کریں گے تو اس کے لیے کتنے لگیں گے۔ پہلے تو پہلوانوں کو بڑے پیسے والے لوگ پالتے تھے اور ان کا خرچہ اٹھاتے تھے اور پھر مقابلے میں انھیں لاتے تھے جیسے مرغے لڑائے جاتے ہیں اگر ایسا نہ بھی ہو تو پہلے گھر میں ایک باپ کماتا تھا سارے گھر والے کھاتے تھے، اب تو سب کماتے ہیں پھر بھی پورا نہیں ہوتا۔ (جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں