سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں ساتویں قسط

بوٹ دور ہوتی گئی اور کچھ دیر بعد ایک غبارہ نما بڑی سی پتنگ اڑی جس کے نیچے دو وجود لٹکے ہوئے تھے۔


جب بچے واپس آئے اور کہنے لگے آج بڑا مزا آیا تو ہم مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ بچے جب جوان ہوجائیں تو مسکرایا ہی جاسکتا ہے، دل کی حالت نہیں بتائی جاسکتی کیونکہ بچے کب مانتے ہیں۔

QUETTA:
روہو بیچ پر پیراسیلنگ

واٹر فال کی طرف جاتے ہوئے کئی ایسے مقامات نظر آئے جو ساحلِ سمندر کی مانند تھے، ایسے مقامات پر مقامی لوگ ایک ڈالہ نما گاڑی میں اشیائے خوردونوش لے کر آکھڑے ہوتے ہیں۔ کھانے تو ان کے مقامی و روایتی ہی ہوتے ہیں لیکن ساتھ میں تربوز بھی رکھا ہوتا ہے، جس کی آٹھ قاشیں بناتے ہیں۔ ٹھنڈے تربوز کی ایک قاش یہ 3 رنگٹ کی فروخت کرتے ہیں اس طرح ایک درمیانے حجم کے تربوز کے باآسانی 24 رنگٹ کمالیے جاتے ہیں۔ ہم نے سوچا واپسی پر کسی ایسے ہی مقام پر کچھ دیر ٹھہریں گے، کچھ فوٹو گرافی کریں گے۔ بس واپسی پر ایسا ہی کیا۔

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چھٹی قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)

 

ایک مقام پر دور سے ہمیں وہ ڈالہ نما گاڑی نظر آئی تو ہم نے اسی مقام پر ٹھہرنے کا ارادہ کیا۔ نزدیک سے وہ جگہ واقعی ایسی لگی کہ کچھ دیر وہاں بیٹھا جا سکتا تھا، سو عدیل بیٹے نے گاڑی اس جانب موڑ دی۔ سڑک سے تھوڑی سی ڈھلوان اتر کر درختوں کے نیچے گاڑی کھڑی کردی۔ ڈالہ نما گاڑی کے مالکان نے چند کرسیاں بھی وہاں بچھا کر جنگل میں منگل کیا ہوا تھا۔ بچوں کی خواہش تھی کہ تربوز کھایا جائے، اس لیے عدیل بیٹا اٹھا اور ٹھلے کی جانب بڑھ گیا اور وہاں سے ٹھنڈی ٹھنڈی چار قاشیں لے لایا۔ تربوز بلاشبہ بہت شیریں اور لذیذ تھا۔

لنکاوی میں جیٹی کے علاوہ جتنے ساحلِ سمندر ہیں وہ انتہائی پرسکون ہیں۔ ایسا ہی ہم نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کے کورنشوں کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ ان ممالک میں ساحلِ سمندر کو کورنش کہتے ہیں۔ سمندر کی اس خاموشی سے تنہائی کا ایک خاص احساس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں کراچی کے ساحل سمندر کی طغیانی سی زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہی تندی اور تیزی کراچی کے عوام میں بھی نظر آتی ہے۔ وہاں کے حالات کے باوجود زندگی وہاں بڑی متحرک نظر آتی ہے۔ لنکاوی میں جتنے بھی ساحلِ سمندر ہیں ان میں اونچی لہریں نظر نہیں آتی بلکہ شاید موجود ہی نہیں ہیں۔ اُس وقت جس جگہ ہم موجود تھے وہاں کوئی باقاعدہ ساحلِ سمندر نہیں تھا بلکہ یہ تو بس سمندر کے کنارے ایسی جگہ تھی جہاں بس تھوڑی دیرٹھہرا جاسکتا تھا۔ یہ سمندر قطعی طور پر وہ حیثیت نہیں رکھتا تھا جہاں گھنٹوں لیٹ کر سن باتھ لیا جاسکتا ہو، جہاں واٹر اسکوٹر یا سمندر میں نہایا جاسکتا ہو یا کسی بوٹ میں تفریح کی جا سکے۔

ہم نے ایسے ہی لنکاوی میں مٹر گشت کرتے ہوئے ایک ساحلِ سمندر دیکھا تھا۔ یہ ساحل شاید برائو بے کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک پر جاتے دیکھا تھا، لیکن اب یاد نہیں آرہا تھا۔ ہم نے بیٹے عدیل سے کہا کہ کل تو ہمیں سنگاپور چلے جانا ہے اور ویسے بھی آج ابھی آدھے سے زیادہ دن پڑا ہے تو آو اِس بیچ پر چلتے ہیں جہاں سے گزرتے ہوئے تم نے کہا تھا کہ ریلکس کرنے ایسے بیچ پر آنا چاہئیے۔ کیا کہتے ہو؟ عدیل بیٹا کہنے لگا پنٹا سناں بیچ پر تو پیراسیلنگ کا انتظام تھا اور وہ جو ہم نے گزرتے ہوتے بیچ دیکھا تھا اسے شاید روہو بیچ کہتے ہیں۔ وہاں پتا نہیں پیرا سیلنگ ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ خیر اس بیچ کو بھی دیکھ لیتے ہیں، بس پھر لنکاوی کی آخری شام روہو بیچ کے نام اور گاڑی اسی جانب موڑ لی۔

تن جنگ روہو بیچ لنکاوی کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ اس بیچ پر پانی بالکل شفاف تھا۔ یہاں پائی جانے والی ریت کھردری ہونے کی بجائے پوڈر کی مانند باریک تھی۔ اس بیچ تک پہنچنے کے لئے ایک جنگل کے کوریڈور سے گزرنا پڑتا ہے جہاں کہیں کہیں بندر سڑک پر بھی نظر آجاتے ہیں۔ اس ساحلِ سمندر کا ماحول جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا خاموش اور پُرامن ہے، اگرچہ لنکاوی میں گرمی کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے لیکن اس ساحلِ سمندر پر ہوا مزیدار، صاف اور ٹھنڈی محسوس ہوتی ہے۔ ارد گرد چند کھانے پینے کے ٹھیلوں کے علاوہ باقی ہر طرف خاموشی ہے۔ ساحل پر نام نامی فرم نے چھتریاں نصب کی ہوئی ہیں جس کے نیچے ریلکس کرنے کے لئے لیٹنے والی کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کرسیوں پر وہی لوگ بیٹھ سکتے تھے جو وہاں کوئی سرگرمی کریں، جیسے کشتی کی سیر کریں یا پھر واٹر اسکوٹر کرائے پر لیں یا پیرا سیلنگ کریں۔ یہ معلوم ہونے پر کہ یہاں پیرا سیلنگ ہوسکتی ہے بچے خوش ہوگئے، اور خوش کیوں نہ ہوتے کہ عدیل بیٹے اور ہماری بہو نے پیراسیلنگ کا پروگرام پہلے ہی بنایا ہوا تھا اور آج اُن کو یہ سب کرنے کا یہاں موقع مل گیا تھا۔



وہ دونوں چھتریوں کے نیچے ہمیں ہماری پوتی عنایا کے ساتھ چھوڑ کر پیراسیلنگ کے لئے چلے گئے۔ ہماری پوتی پانی دیکھ لے تو بے قابو ہوجاتی ہے۔ سمندر کا پانی دیکھ کر وہ کبھی اِدھر کو بھاگے تو کبھی اُدھر کو، بڑی مشکل سے ہم نے اسے ریت سے کھیلنے کے لیے راغب کیا۔ ہمارے ساتھ ہی دوسری چھتری کے نیچے ایک چینی عورت بیٹھی تھی، اُس نے بھی ہماری پوتی جتنا بچہ پکڑا ہوا تھا، جب عنایا ریت سے کھیلنے لگی تو وہ بچہ بھی اس کے پاس آبیٹھا اور دونوں بچے بکٹ میں ریت ڈالنے کا کھیل کھیلنے لگے۔ ہم نے سمندر کی جانب نظر دوڑائی تو سامنے دو چھوٹے چھوٹے جزیرے نظر آئے۔ ایک بوٹ پر عدیل اسکی بیگم اور تین اور مسافروں کو پیراسیلنگ کے لئے لے جا رہی تھی۔ پھر یہ پتنگ اتنی اونچی ہوگئی کہ سامنے نظر آنے والے جزائر سے بھی اونچی۔ پندرہ بیس منٹ کا یہ کھیل اسی طرح چلتا رہا، کھبی بہت بلند اور کبھی اتنا نیچے کہ دونوں وجود آدھے پانی میں چلے جاتے۔ پھر دونوں بوٹ میں لینڈ ہوگئے۔

دنیا کا دستور ہے کہ جب ہم بچے تھے ہمارے والدین ہمیں روکتے تھے ہم نہیں رکتے تھے، اِس قسم کی حرکات پر ہمارے والدین کے دل کی کیا حالت ہوتی تھی اس وقت ہم نہیں جانتے تھے، لیکن آج جب ہمارے بچے پیراسیلنگ کرتے ہوئے آسمان اور زمین کے درمیاں لٹکے ہوئے تھے تو اس وقت ہمارے دل کی جو حالت تھی ہم جانتے تھے۔ لیکن جب بچے واپس آئے اور کہنے لگے آج بڑا مزا آیا تو ہم مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ بچے جب جوان ہوجائیں تو مسکرایا ہی جاسکتا ہے، دل کی حالت نہیں بتائی جاسکتی کیونکہ بچے کب مانتے ہیں۔

بچوں کے واپس آتے ہی ان کے بچے نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پانی میں جانے کی ضد کی تو وہ حفاظتی جیکٹ پہنا کر اپنے ساتھ کنارے کنارے پانی میں نہلانے لگے۔ وہ چینی بچہ جو ہماری پوتی کے ساتھ کھیل رہا تھا اس کے ماں باپ بھی آگئے اور انہوں نے ہماری بیگم سے ہماری پوتی کی عمر پوچھی۔ ہم نے بتایا کہ 14 ماہ کی ہے ابھی تو۔ پھر اُس چینی خاتون نے بھی اپنے بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ اس سے بڑا ہے چار ماہ بڑا ہے۔ ہماری بیگم کو بھی چینی زبان کے کچھ کچھ الفاظ کہنے آتے تھے جس کی بڑی وجہ ہمارے سالے صاحب تھے جو چین میں 20 سال رہ کر آئے ہیں۔ بس ہماری بیگم اُس چینی بچے کی نانی سے انہی چند الفاظ کے استعمال سے گفتگو کرنے لگیں۔ میں ان دونوں کو گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوتا رہا کہ یہ عورتیں کتنی جلدی آپس میں گھل مل جاتی ہیں۔



اب سورج ہمیں خدا حافظ کہہ رہا تھا، بس سورج کے تیور دیکھ کر ہم نے بیٹے کو آواز دی تو وہ روتی پیٹتی عنایا کو پانی سے نکال کرلے آیا اور ہم واپس چل دئیے کیونکہ صبح ہمیں جلدی ائیرپورٹ نکلنا تھا سنگاپور کے لئے اور ابھی پیکنگ بھی کرنی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں