اشرافیہ کا عوام پر غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ پہلا حصہ
مالی سال 1948-49 سے مالی سال 1955-56 کے دوران اشرافیائی حکمرانوں نے عوام سے 1948-49 کو 956.4 ملین روپے کا ٹیکس لیا
KARACHI:
مالی سال 1948-49 سے مالی سال 1955-56 کے دوران اشرافیائی حکمرانوں نے عوام سے 1948-49 کو 956.4 ملین روپے کا ٹیکس لیا اور 1955-56 کو 1376.806 ملین روپے کا عوام سے ٹیکس لیا تھا۔ 8 سالوں میں مجموعی ٹیکس 33.50 فیصد عوام سے لیا گیا۔ جو ایک سال میں اوسطاً 4.187 فیصد تھا۔ یہ حکومتی ٹیکس تھا جو حکومت نے حکومتی اداروں کو عوام کی بہتری کے لیے رواں رکھنے کے لیے لیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ جب تک بیرونی ملک دشمنوں کو ملک کے اندر ملک و عوام دشمن غدار نہیں ملتے اس وقت دشمن عوام و ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بیرونی ملک دشمن عناصر عوام میں موجود تضادات کو ابھار کر ملک میں موجود گروہوں کو خرید کر تنظیموں، پارٹیوں، کو عوام و ملک کے خلاف استعمال کرکے ہی عوام و ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چاہے دشمن کتنا ہی طاقت ور ہو اگر حکومتی اعلیٰ عہدیدار سامراجی آلہ کار بن جائیں تو ملک و عوام کی تباہی سامراجی مداخلت کی شکل و طریقہ کار کی نسبت سے لازماً ہوجاتی ہے۔
جب سکندر مرزا نے اپاہج گورنر جنرل غلام محمد کے دو ماہ رخصت بیماری پر جانے کے بعد جون 1955 کو قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ حاصل کرلیا تو جولائی 1955 کو اس نے امریکا اور آئی ایم ایف کے حکم پر پاکستانی 3.340 روپے سے 4.762 روپے کا امریکی کاغذی ڈالر کردیا تو فوری پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی 43 فیصد ہونے کا منفی مجموعی اثر پورے ملک کی معیشت پر سامنے آیا۔ سامراج اور حکومت دونوں نے کہا ملکی تجارت کو بڑھانے کے لیے کرنسی کی قیمت میں کمی کرنا ضروری تھی۔ انھوں نے یہ تجارت کیسے بڑھائی؟
ملکی تجارت مسلسل 1952-53 سے 1954-55 تک سرپلس تھی۔ ایکسپورٹرز نے حکومتی اور سامراجی حمایت و مدد سے مالی سال 1955-56 کو عالمی منڈی مقابلے میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر زیادہ سے زیادہ اشیا فروخت کر کے سرپلس ٹریڈ میں 458.6 روپے یا 137.305 ملین ڈالر حاصل کرلیے اور ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی 1.422 روپے فی ڈالر ہونے کا فائدہ ڈالر ٹریڈنگ پر ان ڈالروں پر 195.2477 ملین روپے کا ''ڈالر نفع'' پاکستان میں حاصل کیا۔ اس ''امریکی مالیاتی ڈالر ٹیکس'' سے امریکا نے پسماندہ ملکوں کی معیشت کو پیچھے دھکیل دیا (1 )۔ جس ملک کی کرنسی کی قیمتیں گرائی جاتیں اس ملک کے صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھتی گئیں۔ (2)۔ یہ بات قابل غور ہے کہ 1948-49 سے 1955-56 تک حکومت نے 8 سالوں کے دوران عوام پر 33.50 فیصد ٹیکس لگایا۔
سالانہ 4.187 فیصد عوام پر مہنگائی بڑھی تھی اور سامراجی ڈالر ٹیکس جولائی 1955 کو لگنے سے مہنگائی یک دم 43 فیصد بڑھ گئی۔ ملکی بجٹ، تجارت خسارے میں چلے گئے۔ عوام پر دو ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ (3)۔ باہر سے آنے والی مشینری، پرزہ جات، کیمیکلز، ادویات، پٹرول، خوراک ودیگر تمام اشیا 80 فیصد کمی کی نسبت سے مہنگی خریدنی پڑیں۔ (4)۔ بیرونی ملکوں سے آنے والی اشیا کے مقابلے میں مقامی اشیا کی لاگتوں کے بڑھ جانے سے بیرونی منڈی کی اشیا کے مقابلے میں مہنگی ہوکر فیل ہوتی گئیں۔ اس طرح امریکا نے پسماندہ ملکوں کو سامراجی ترقی یافتہ ملکوں کی منڈیاں بنانے کا غیر انسانی مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کیا۔ (5)۔ ان ملکوں کو امریکا کا معاشی غلام بنالیا۔ ان ملکوں کی معیشت کو خسارے میں ڈال کر سامراجی قرضوں کی طرف دھکیلا گیا معاشی غلام ملکوں کی اشرافیہ کے لیے یورپ کے دروازے کھول دیے۔
اشرافیہ کو زیادہ یورپ تحفظ کے لیے اچھا لگا، معاشی غلامی میں جکڑے جانے سے قبل جون 1955 میں 3.40 روپے فی ڈالر کے حساب سے پاکستان اوسطاً قیمت 1.64 ڈالر فی بیرل 5.4776 روپے کا ایک بیرل پٹرول لے رہا تھا۔ وہ پٹرول روپے کی قیمت میں کمی کے بعد 4.762 روپے فی ڈالر کے حساب سے عالمی منڈی میں پٹرول اوسطاً قیمت 1.64 ڈالر فی بیرل کے لیے پاکستان کو 7.81 روپے فی بیرل زیادہ ادا کرنے پڑے۔ امریکا اوراس کی دلال اشرافیہ نے کہا تھا کہ تجارت بڑھانے کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔
ایکسپورٹرز نے ملی بھگت سے مالی سال 1955-56 کی تجارت مصنوعی طور پر سڈمڈ سے سرپلس کرلی تھی۔ لیکن حقیقتاً یہ تھیوری Currency Devaluation Minus Economic Development تھی اس CDMED سڈمڈ یا غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس کے منفی اثر سے 1956-57میں پاکستان کی تجارت 727.00 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی۔ پاکستان کا بجٹ جو مسلسل سرپلس تھا مالی سال 1956-57 میں 24.886 ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا۔ جنرل ایوب خان 27 اکتوبر 1958 سے 25 مارچ 1969 تک رہا۔ اس نے کرنسی کی قیمت کم نہیں ہونے دی۔
جس کے نتیجے میں ملک میں 11 سالوں کے دوران صنعتی کلچر لاگتیں نہ بڑھنے سے صنعتی کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ انڈیا اور پاکستان کی جنگ 1965 کے نتیجے میں بجٹ 1965-66 میں 7 سالوں بعد جنگی اخراجات کی وجہ سے 535.613 ملین روپے سے خسارے میں چلا گیا انڈیا کی معیشت بھی خسارے کا شکار ہوگئی۔ پاکستان تجارتی خسارہ 1964-65 میں پچھلے تمام خساروں سے بڑھ کر 2532.00 روپے ہوا جو 533.00 ملین ڈالر تھا۔ اگرچہ ڈالر کی قیمت 4.758 روپے فی ڈالر ہی تھی، لیکن حکومتی اخراجات اور جنگ کے نتیجے میں عوام پر بے انتہا ٹیکسوں میں اضافے ہوئے اور 1957-58 سے 1969-70 تک 430 فیصد ٹیکسوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کے خلاف عوامی طوفان برپا ہوگیا۔ اس میں کراچی کی تمام مزدور تنظیموں نے بھی ایوب خان کے خلاف ہڑتالیں شروع کردیں۔ مزدور اتحاد اور عوامی ریلا جنرل ایوب خان کی حکومت کو بہا لے گیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے اقتدار 20 دسمبر 1971 کو فوجی جنرلوں کی مدد سے حاصل کیا۔ روٹی، کپڑا، مکان سوشلزم کو معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو کہنے والے نے صوبائی اور قومی اسمبلی میں ''عام آدمی'' کو ٹکٹ نہیں دیا اور 1973 میں ہی کراچی میں صنعتی ورکرز پر جبر توڑا گیا۔ عوامی طاقت سے بننے والی حکومت نے خود بھی عوام کی ''معاشی آزادی'' چھین لی۔ لیکن اپنے ساتھ سامراج کو بھی شریک جرم کرلیا۔ مئی 1972 کو حکومت نے امریکا اور آئی ایم ایف کے حکم پر پاکستانی روپے کی قیمت4.762 روپے سے 11.03 روپے فی ڈالر کردی یہ کمی 132 فیصد تھی۔ یعنی جو شے عوام کو باہر کی 100 روپے کی لے کر استعمال کر رہے تھے۔ اس سڈمڈ لگنے کے بعد 232 روپے کی وہ چیز خریدنے پر مجبور ہوگئے۔
کتاب IFS Year Book 1982 کے صفحہ 81 پر عالمی مارکیٹ میں پٹرول 1971 میں اوسطاً قیمت 2.5466 ڈالر کا ایک بیرل تھا۔ جو پاکستان 4.762 روپے ڈالر کے حساب سے 12.127 روپے کا ایک بیرل لے رہا تھا۔ سڈ مڈ لگنے کے بعد 1972 اگست سے یہی پٹرول 11.031 روپے فی ڈالر کے حساب سے 28.092 روپے کا لینا پڑا اور باہر سے آنے والی ہر شے عوام کے لیے 132 فیصد مزید مہنگی کردی گئی۔ ایکسپورٹرز نے حکومتی سائے تلے 1972-73 میں تجارت کو سڈ مڈ کے مصوعی انجکشن سے 153.00 ملین روپے سے سرپلس کرلیا تھا۔ حکومت نے بجٹ خسارے سے نکلنے کے لیے 355.00 ملین ڈالر کا سامراجی قرض بھی لیا۔ یاد رہے کہ اگست 1955 اور جولائی 1972 میں سڈ مڈ لگنے کے بعد ملکی مجموعی معیشت خسارے میں چلی گئی حتیٰ کہ 2015 تک تجارتی اور بجٹ خسارہ لگاتار بڑھتا آرہا ہے۔ (جاری ہے)