رمضان کا تحفہ فتح مکہ و تطہیر کعبہ

بنوخزاعہ اور بنوبکر ایک دوسرے کے پرانے رقیب اور حریف تھے،


[email protected]

KARACHI: بنوخزاعہ اور بنوبکر ایک دوسرے کے پرانے رقیب اور حریف تھے، مگر صلح حدیبیہ کی رو سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے، بنوبکر قریش کے حلیف بن گئے تھے۔ پرانی رقابت کی چنگاری، شعلہ بن کر بھڑک اٹھی، قریش نے بنوبکر کی حمایت، اعانت اور معاونت کر کے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ صفوان بن امیہ، حویطب بن عبدالعزیٰ، مکرز بن حفص بن الاحنف، عکرمہ بن ابی جہل، سہیل بن عمرو و غیرہ بھیس بدل کر ان کے ساتھ ہو گئے۔ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنوخزاعہ کے سوتے ہوئے لوگوں پر ہلہ بول دیا۔ آناً فاناً بیس یا تیس آدمی موت کی گھاٹ اتار دیے۔ جنھوں نے جان بچانے کے لیے حرم میں پناہ لی، انھیں وہاں بھی امان نہ ملی حرم کی زمین ناحق خون سے رنگین ہو گئی۔

جس رات مکہ میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا تھا خزاعہ کے چند مظلوم لوگوں نے آنحضرتؐ کا اسمِ گرامی لے کر فریاد کی ''اے خاتم النبیین! ہماری مدد کیجیے اور ہماری فریاد سنیے۔ ہم ظلم کے ماروں کا تمہارے سواکوئی آسرا نہیں'' اس وقت مولائے کل ختم الرُسلؐ، ام المومنین حضرت میمونہؓ کے حجرے میں وضو کر رہے تھے۔ آپؐ نے مظلوموں کی آہ وبکا، داد و فریاد مدینے سے سنی اور جواباً لبیک لبیک فرمایا۔ حضرت میمونہؓ نے سوال کیا کہ لبیک آپؐ نے کس کے جواب میں فرمایا۔ کہا بنو خزاعہ کے لوگوں نے مجھے مدد کے لیے پکارا، میں نے ان کی آواز کو سنا اور لبیک کہا ہے، عجیب تر یہ کہ بنو خزاعہ کے مظلوموں نے بھی مکہ میں مدینہ سے چلی آپؐ کی آواز سنی۔

کئی روز بعد عمرو بن سالم خزاعی چالیس سواروں کے ساتھ مدینے پہنچے اور حرب، ضرب اور کرب کی داستان ظلم، پردرد نظم میں سنائی۔ حضورؐ نے درد والم کی یہ کہانی سنی تو پرنم ہوگئے اورکہا:

''میری بھی مدد نہ کی جائے اگر میں اس چیز سے بنی کعب کی مدد نہ کروں جس سے میں اپنی مدد کرتاہوں یہ ابر بنی کعب کی مدد کے لیے ضرور برسے گا''

آپؐ مجسم رحمت تھے اس لیے ایک بار پھر دست صلح و امن قریش کی جانب بڑھایا۔ اپنا قاصد بھیجا اور تین شرائط پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک منظورکرلی جائے۔ (1) بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔ (2) قریشی بنوبکرکی حمایت چھوڑ دیں۔ (3) اعلان کر دیا جائے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ جوش اور طیش میں آ کر قریش کی جانب سے قرظہ بنی عمر نے کہا کہ ''ہم کو تیسری شرط منظور ہے'' جب جوش ٹھنڈا ہوا اور ہوش میں آئے تو بہت پچھتائے۔ فوراً ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینے روانہ کیا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب گیند مسلمانوں کی کوٹ میں تھی۔ ابو سفیان نے بڑے ہاتھ پیر مارے لیکن جب کوئی صورت نظر نہیں آئی تو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کو سفارش کرنے کو کہا مگر کسی نے حامی نہ بھری۔ آخرکار ابو سفیان ناچار بے نیل مرام واپس مکہ چلا گیا۔

فتح مکہ آپؐ کی عسکری صلاحیت، تفکر و تدبر اور حکمت کی منہ بولتی شہادت ہے، جملہ امورکو جنگی حکمت عملی کے پیش نظر مخفی رکھا۔ معاہدہ قبائل کو مطلع کر دیا۔ جنگ کی تیاریاں ہونے لگیں جنگ کی خبر توگرم تھی لیکن کب کہاں اورکس سے ہو گی اس کی خبر کسی کو نہ تھی یہ سب صیغہ راز میں تھیں۔

10 رمضان 8ھ (بمطابق2 جنوری 630ء بروز چار شنبہ) دس ہزار نفوس قدسیہ پر مشتمل اسلامی لشکر مکہ کی جانب روانہ ہوا۔20 رمضان المبارک 8 ء بمطابق 13 جنوری 630ء کو لشکر کی ترتیب قائم کی گئی۔ مکہ میں اسلامی لشکر کے داخلے سے پہلے اعلان عام کرا دیا گیا کہ جو شخص حرم میں چلا جائے گا یا اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے گا یا ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا اس کو امان ہے۔ اس اعلان کے بعد اسلامی لشکر مختلف دستوں کی شکل میں مختلف اطراف سے مکے میں داخل ہوا، اہل مکہ کی جانب سے کسی جگہ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی البتہ مکے میں داخل ہونے کے بعد نبی اکرمؐ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو 360 بتوں سے پاک کر کے پوری انسانیت کے لیے خالص توحید کا محورومرکز بنا دیا۔ لکڑی سے بت گراتے جاتے تھے اور زبان مبارک سے فرماتے جاتے تھے:

''جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا''

دوسرے روز 21 رمضان 8ھ کو بعد نماز ظہر آپؐ نے تاریخی خطبہ دیا، جس کا خطاب نہ صرف عرب بلکہ سارے عالم سے تھا۔

''ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اسی نے اپنے عاجز بندے کی مدد کی اور تمام جہتوں کو تنہا توڑ دیا، ہاں آج تمام مفاخر، سارے انتقام اور خون ہائے قدیم سب میرے قدموں کے نیچے ہیں۔ اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا تمام انسان آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے'' اس کے بعد کلام مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ) ''لوگو! میں نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤ'' لیکن خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے خدا جاننے والا اور واقف کار ہے''

خطبہ کے بعد آپؐ نے نظر اٹھاکر دیکھا تو جبران قریش سراسیمگی اور شرمندگی کی منہ بولتی تصویر بنے کھڑے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے پیکر اقدس کے ساتھ طرح طرح کی گستاخیاں، بد تمیزیاں کی تھیں۔ ہر طرح کی ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی تھیں۔ غریب مسلمانوں کو مشق ستم بنایا تھا۔ ان کے ہاتھوں سے مظلوموں کا لہو پکار رہا تھا، انتقام! انتقام! مگر آپؐ نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کچھ معلوم ہے میں تمہارے ساتھ آج کیا سلوک کروں گا؟ یہ سوالیہ فقرے کو سن کر قریش یعنی اہل مکہ جو مزاج شناس تھے۔ بول اٹھے آخ کریم و ابن اخ کریم تو شریف بھائی اور شریف بھائی کا بیٹا ہے۔ آپؐ نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ ''اچھا میں بھی تم سے وہی کہتاہوں۔ جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا ''لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطبقاء''(تم پر کوئی مواخذہ نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو)'' اس طرح رحمت عالمؐ کی سیل کرم کی ایک ہی موج ان کی سیاہ کاریوں کو بہا کر لے گئی۔

فتح مکہ کے بعد آپؐ نے سب کو امان دے دی، صرف چھ مردوں اور چار عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ مردوں میں (1)عکرمہ بن ابی جہل (2) ہبار بن الاسود) (3)عبداﷲ بن سعد بن ابی سرح (4)مقیس بن صبابہ (5)حویرث بن نقید (6)عبداﷲ بن ہلال بن خطل اور عورتوں میں (1)ہندہ بنت عتبہ (2) سارہ (3) فرتنا (4) قریبہ ۔ ان میں سے بھی صرف ابن خطل، حویرہ، مقیس اور قریبہ کو ان کے گھناؤنے جرائم کی بنا پر نا قابل معافی قرار دے کر دیگر مردوں اور عورتوں کو مختلف لوگوں کی سفارشات قبول کرتے ہوئے معاف کردیاگیا۔

آنحضرتؐ کے عفو عام سے ہر خاص وعام کے دلوں سے اسلام کی نفرت دور ہوگئی اور صدہا سر پر غرور آستان اسلام پر خم ہوگئے آنحضرتؐ مقام صفا میں ایک بلند مقام پر تشریف فرماتھے اورکفار جوق در جوق بیعت اسلام سے مشرف ہوتے گئے، مردوں کی بیعت سے فراغت پاکر آپؐ نے حضرت عمر فاروقؓ کو عورتوں سے بیعت لینے پر مامور فرمایا۔ ابتداً ان سے بیعت کا یہ طریقہ اختیارکیا گیا کہ پانی کے ایک برتن میں پہلے رسول اﷲؐ ہاتھ ڈالتے پھر وہ عورت ہاتھ ڈالتی اور خدا اور رسولؐ کی اطاعت کا اقرار کرتی۔ بعد میں صرف اقرار ہی پر اکتفا کیا گیا۔ پندرہ یوم قیام کرنے کے بعد معاذ بن جبلؓ کو نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے چھوڑ کر اور مکہ میں عتاب بن اسید بن ابی العیص بن امیہ بن عبدالشمس کو اپنا قائم مقام بناکر مدینہ واپس تشریف لے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں