دودھ کا جلا

90ء میں وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو دو سال بھی نہ گزرے ہوں گے کہ سندھ میں آپریشن کی باتیں کی جانے لگیں۔


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate November 23, 2012
[email protected]

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ متحدہ کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔

سینیٹ نے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ رابطہ کمیٹی نے کہا ہے کہ ہم پر 92ء کا سا آپریشن کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ تنظیم نے کارکنوں کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کی وارننگ دی ہے۔ اس ساری بات کو ہم نے ''دودھ کا جلا'' کا عنوان دیا ہے۔ اُردو کا محاورہ ہے کہ ''دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔'' احتیاط، خوف، ریاستی جبر، تشدد، ماورائے عدالت قتل کی داستان نوے کے عشرے میں رقم کی گئی تھی۔ آج کا تیس برس کا نوجوان بھی اسی دور میں چوتھی،کلاس کا طالب علم ہوگا۔ ہم ایم کیو ایم کی طرف نظر دوڑا رہے ہیں کہ نوجوانوں کو تاریخ کا سبق ملے اور ان سے بڑوں کی یاد دہانی ہوجائے۔

الطاف حسین نے جامعہ کراچی میں مہاجر طالب علموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، مقصد نوکری اور داخلوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔ ستّر کے عشرے میں قائم ہونے والی ''مہاجر قومی موومنٹ'' نے 80ء کے عشرے میں اُٹھان پکڑی۔ الطاف حسین کے حامیوں کے لیے نوے کا عشرہ سب سے نازک اور غم انگیز تھا۔ ہم ایم کیو ایم کی ابتدائی چودہ برسوں کی تاریخ پر سرسری گفتگو کے بعد اس عشرے پر آئیں گے جس میں ان کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ریاستی تشدد کے سانپ سے ڈسے اگر آج رسّی کے دکھائے جانے پر دُہائی دے رہے ہیں تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ ''سانپ کا ڈسا رسّی سے بھی ڈرتا ہے۔''

کراچی یونیورسٹی میں چند طالب علموں نے ''آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' کی بنیاد رکھی، یہ سن 78 کے موسم گرما کی بات ہے، چھ سال بعد طالب علموں کی اس تنظیم کو سیاسی پارٹی بنا دیا گیا۔ ابھی دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ مارشل لاء اُٹھ گیا اور سیاسی جلسوں کی اجازت دے دی گئی۔ اگست 86ء کے بھرپور جلسے نے سیاسی پنڈتوں کو مجبور کردیا کہ کراچی کی نئی اُبھرتی ہوئی قوت کی اہمیت کو محسوس کریں۔ 87 کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی و حیدر آباد سے میئر و ڈپٹی میئر کا انتخاب بلامقابلہ جیتا۔

ایک سال بعد ہونے والے قومی انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں کی واحد پارٹی بن کر سامنے آئی، بے نظیر اور الطاف حسین سندھ کے دونوں طبقوں کے غیر متنازعہ قائدین بن کر اُبھرے۔ 89 میں بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دیا اور ایم کیو ایم اسلامی جمہوری اتحاد کی حامی بنی۔ 90ء میں وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو دو سال بھی نہ گزرے ہوں گے کہ سندھ میں آپریشن کی باتیں کی جانے لگیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جس پر آج ہم تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

یہ سن 92ء کا پاکستان ہے۔ صدر غلام اسحٰق، وزیر اعظم نواز شریف تو آرمی چیف جنرل آصف نواز، سندھ بدامنی کی لپیٹ میں ہے، شہروں میں قتل و غارت گری اور بھتہ خوری تو دیہی علاقوں میں ڈاکو راج اور اغواء برائے تاوان۔ مئی میں بات ہوئی کہ 72 طاقتور مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اندرون سندھ کے چند وڈیروں کو پکڑا گیا، جنہوں نے رات کا سفر ناممکن بنادیا تھا، مئی گزرگیا اورجون آگیا، یہاں الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد چودہ برس مکمل کرچکی تھی۔ اس سفر کے ناراض ساتھی آفاق اور عامر تھے۔ ایجنسیوں نے ایم کیو ایم کا ایک گروہ ''حقیقی'' کے نام سے تیارکیا۔ 19؍جون 92ء کو جمعے کا دن تھا اور سرکاری چھٹی، شاید یہ دن اس لیے چُنا گیا کہ سرکار سے ایم کیو ایم کی چھٹی کرادی جائے۔

ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ ان کے ''باغیوں'' کو ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر بٹھا کر شہروں میں لایا گیا۔ تنظیم کے دفاتر پر قبضہ کرلیا گیا۔ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا کر الطاف حسین کے چاہنے والوں کو بھگا دیا گیا۔ کئی کو قتل اور بے شمارکو گرفتار کرلیا گیا۔ کارکنوں کو مجبورکردیا گیا کہ وہ انڈر گراؤنڈ ہوجائیں۔ ایم کیو ایم کی سیاسی سرگرمیوں کو صرف اسمبلی کی کارروائی تک محدود کردیا گیا۔ سات مہینے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر پاکستان کی سیاست نے کروٹ بدلی۔ نیا سال شروع ہوا تو جنرل آصف نواز اچانک انتقال کرگئے۔

صدر غلام اسحٰق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کا نئے آرمی چیف کی تقرری پر اختلاف ہوگیا، آٹھویں ترمیم کا حق استعمال کرتے ہوئے صدر نے جنرل عبدالوحید کو افواج پاکستان کا سربراہ مقررکردیا۔ اختلاف کی یہ ابتداء تھی۔ غلام اسحٰق کی میعاد صدارت ختم ہورہی تھی اور وہ دوسری مدت کے لیے نواز شریف کی حمایت کے محتاج تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ایک طاقتور صدر سے ہمیشہ خوفزدہ رہے ہیں۔ تقاضے اور انکار کی کھینچا تانی نے محاذ آرائی بڑھا دی۔ غلام اسحٰق نے 58-2(B) والا اختیار استعمال کرکے نواز شریف کی حکومت ختم کردی۔ سپریم کورٹ نے چالیس دن کی سماعت کے بعد شریف حکومت بحال کردی۔ صدر کی تجربہ کاری نے حکومت نہ چلنے دی۔ جنرل وحید نے دونوں سے استعفیٰ لے لیے۔ عبوری حکومت نے 93ء میں انتخابات کروا دیے۔

الطاف حسین آپریشن سے قبل اچانک لندن جا چکے تھے۔ اب ان کا اور ان کے ساتھیوں کا نیا سیاسی امتحان شروع ہوا۔ طاقتور حلقوں نے انھیں آدھی نشستیں ''حقیقی'' کے لیے چھوڑ دینے کی فرمائش کی۔ ایم کیو ایم نے یہ بات نہ مانی اور انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ بے نظیر اورنواز شریف کے امیدوار پندرہ بیس ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ پولنگ اسٹیشن ویران اور سڑکیں سنسان تھیں۔ ایجنسیوں کا داؤ نہ چلا تو ایم کیو ایم کو صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا موقع دیا گیا۔ اب ہر طرف رونق تھی اور جیتنے والے نے ساٹھ ستر ہزار تک ووٹ حاصل کیے۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھ گئی کہ کارکنوں کو تو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے لیکن عوام الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔ اب بے نظیر کی حکومت تھی اور آپریشن کی رفتار کو تیز کردیا گیا۔

بے نظیر نے ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کے لیے، جنرل نصیر اللہ بابر کو مقرر کیا۔ انھوں نے آپریشن کا انداز بدل دیا۔ رات کے دو تین بجے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا جاتا، بکتر بند گاڑیوں اور مخبروں کی مدد سے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو گرفتارکیا جاتا۔اس کارروائی کو صدر لغاری بھی مانیٹر کر رہے تھے،موبائل فونز نہ ہونے کے باوجود جاسوسی کا ایسا انتظام تھا کہ روپوش کارکن اپنے گھر آکر آدھے گھنٹے میں گرفتار ہوجاتا۔ شہر اور صوبے میں امن و امان کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، ایم کیو ایم اسے قبرستان کا سناٹا کہتی ہے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور ستمبر 96ء آگیا۔ آپریشن پانچویں برس میں داخل ہوگیا تھا۔ ایک بار پھر سیاسی منظر نامے پر وہی کہانی دوہرائی جارہی تھی۔ صدر اور وزیر اعظم کے اختلاف کی کہانی۔

صدر لغاری اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا مرتضیٰ کے قتل پر اختلاف پیدا ہوگیا۔ پی پی کی چیئرپرسن نے ایوان صدر پر الزام لگایا۔ لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت ختم کردی۔ فروری 97ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے قائد ایوان کا حلف اٹھایا۔ انھوں نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر ایم کیو ایم سے ہاتھ ملالیا۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف کو آگے رکھا جو اپنے اتحادی کے خلاف کارروائی کے مخالف تھے اور احتجاج بھی کرچکے تھے۔ اب مہاجر سے متحدہ بننے کے عمل سے گزرنے والی تنظیم نے سکون کا سانس لیا۔

الطاف حسین کے ساتھیوں کو نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوئے ڈیڑھ سال بھی نہ گزرا تھا کہ ایک اور آفت آگئی، حکیم محمد سعید اکتوبر 98ء میں شہید کردیے گئے۔ ایجنسیوں نے شک کا اظہار ایم کیو ایم پر کیا۔ نواز شریف نے سندھ حکومت ختم کردی اورگورنر معین الدین حیدر کو اختیارات سونپ دیے۔ ایک سال اور آپریشن جھیلنے والے ایک بار پھر دو طاقتور لوگوں کی لڑائی سے نجات پاگئے۔ اس مرتبہ اختلاف آرمی چیف پرویز مشرف اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تھا۔ مشرف برسر اقتدار آگئے تو آپریشن گومگو کی کیفیت کا شکار ہوتا گیا۔ یوں 2002ء کے انتخابات میں کامیاب ہوکر اور مشرف حکومت سے دوستی کے بعد متحدہ کو دس سالہ آپریشن سے نجات ملی۔

یہ وہ تلخ عشرہ تھا جس کی ایم کیو ایم ڈسی ہوئی ہے۔ اگر آپریشن دہشت گردوں، اغواء کاروں، بھتہ خوروں کے خلاف ہو تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی ایک علاقے اور پارٹی کو ٹارگٹ کیا جائے تو غیر مناسب ہوگا۔ ایم کیو ایم کے تحفظات کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ''چھاچھ کو وہ پھونک پھونک کر پیتا ہے جو ہو دودھ کا جلا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔