ذمے دار کون…

اس لیے ملازمت کے تمام عرصے میں ایسی سیچوئشنز پیدا ہوتی رہیں جو اجنبی بھی تھیں اور ناخوشگوار بھی۔


Amjad Islam Amjad June 18, 2016
[email protected]

یہ ستر کی دہائی کے اولین برسوں کی بات ہے کہ پاکستان کے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومیا لیا گیا اور یوں ان کے تمام ملازمین بیٹھے بٹھائے سرکاری ملازم بن گئے جن میں میرے، دلدار بھٹی اور عطاء الحق قاسمی سمیت بہت سے ایسے لیکچرر بھی شامل تھے جن کا تعلق ادب، صحافت اور شوبز کے شعبوں سے بھی تھا۔ یہ لوگ نہ تو سرکاری ملازمت کے آداب و قواعد سے کچھ زیادہ واقف تھے اور نہ ہی انھوں نے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اس کوچے میں قدم رکھا تھا۔

اس لیے ملازمت کے تمام عرصے میں ایسی سیچوئشنز پیدا ہوتی رہیں جو اجنبی بھی تھیں اور ناخوشگوار بھی۔ مثلاً یہی کہ آپ کو بیرون ملک روانگی کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے عجیب و غریب کاغذات جمع کرنے پڑتے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ کے علاقے کے تھانے کا میٹرک پاس محرر آپ کے کردار کی تصدیق کرتا تھا اور پروفیسر حضرات کو اس کے لیے اس کی باقاعدہ خوشامد کرنا پڑتی تھی لیکن سب سے دلچسپ وہ حکم نامہ تھا جس کے تحت سرکاری ملازمین کو اخبارات میں لکھنے سے منع کیا گیا تھا۔

اگرچہ یاروں نے اس پابندی سے آزادی کے کچھ نہ کچھ رستے نکال لیے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی کرتے چلے گئے مگر یہ انگریز کے زمانے کا بنایا ہوا قانون سرکاری کتابوں میں آج تک موجود اور قائم ہے۔ اگرچہ عملی طور پر اب اس کا اطلاق ایک پرانے لطیفے سے ہی ملتا جلتا ہے۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک داخلے کے گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ تن کر کھڑا تھا کسی نے اس سے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر متعلقہ شخص نے کہا کہ یہ جو اتنے لوگ آ جا رہے ہیں تم ان کو کیوں نہیں روکتے! سیکیورٹی گارڈ نے جواب دیا ''اس لیے کہ انھوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہی نہیں۔''

یہ ساری باتیں یاد لانے کا سہرا عزیزی عبدالرحمن کے سر جاتا ہے جو ایک دور دراز علاقے کے کسی سرکاری اسکول میں پڑھاتے ہیں اور اخباری کالم لکھنے اور چھپوانے میں دلچسپی رکھتے۔ انھوں نے ای میل کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ سرکاری ملازمین کے لکھنے لکھانے کی پابندی کے حامل اس قانون سے خوفزدہ ہیں اور اپنے نام سے یہ کالم چھپوا کر کسی مشکل میں پڑنا نہیں چاہتے۔ اس لیے میں ان کا یہ کالم کسی فرضی یا پھر اپنے نام سے چھپوا دوں گا۔ اس پر پہلے تو مجھے محبوب خزاں مرحوم کا ایک شعر یاد آیا کہ؎

خزاںؔ یوں آدمی اچھے بہت ہیں
ملازم پیشہ ہیں، ڈرتے بہت ہیں

اور پھر ان پر رحم اور یہ قانون بنانے والوں پر ہنسی آئی کہ دونوں ہی ایک ایسی صورتحال میں مبتلا ہیں جو عملی طور ''موجود'' ہی نہیں۔ جہاں تک عزیزی عبدالرحمن کے کالم ''منیجر بدل دو'' کا تعلق ہے یہ بہت دلچسپ اور سلیقے سے لکھا ہوا کالم ہے۔ اگرچہ اس کا موضوع نیا نہیں کہ روزانہ رات آٹھ سے گیارہ بجے کے دوران مختلف چینلز پر بہت سے خواتین و حضرات اس بات کو اپنے اپنے لفظوں میں دہراتے ہیں۔

مجھے یاد ہے چند برس قبل ایک ٹی وی مذاکرے میں میں نے بھی یہی بات ایک اور تناظر میں کہی تھی جس پر اس وقت کی حکومت کے ایک ترجمان (جو اتفاق سے حکمران جماعت کی تبدیلی کے باوجود اس وقت کی حکومت کے بھی ترجمان ہیں) لاجواب کم اور ناراض زیادہ ہوئے تھے۔ بات کچھ یوں ہوئی کہ وہ عوام کے لیے حکومت کی ایک نئی امدادی اسکیم کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے جو پرانی حکومت کے ایک پروگرام کی جگہ لائی جا رہی تھی جس پر میں نے یہ عرض کی کہ بھائی عوام کو روٹی چاہیے جو انھیں مل نہیں رہی اور آپ انھیں روٹی دینے کے بجائے ہر دوسرے دن ''باورچی'' بدل دیتے ہیں جب کہ ان کا مسئلہ روٹی ہے۔ باورچی نہیں۔

ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں مسائل زیادہ اور وسائل کم ہوتے ہیں لوگ حکومت سے بہت جلد ناراض اور بیزار ہو جاتے ہیں لیکن اگر حاکم موجود اور محدود وسائل کو اصلی مسائل کے حل کے بجائے کچھ اور کاموں میں خرچ کرنے پر اڑ جائیں تو پھر یہ عمومی احتجاج ایک مخصوص رویے اور سمت میں ڈھل جاتا ہے۔ عبدالرحمن کا یہ کالم بھی اسی صورت حال سے تحریک یافتہ ہے اور اس کا عنوان بھی انھوں نے ''منیجر بدل دو'' رکھا ہے میں اپنی ذاتی رائے کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کا ابتدائیہ درج کررہا ہوں۔ فیصلہ آپ خود کیجیے۔

''ایک آدمی ہوٹل میں کھانا کھانے گیا، سالن کے دوران کھانے میں کوئی چیز نکل آئی تو آدمی نے غصے سے بیرے کو بلایا، بیرا دوڑتا ہوا آیا اور کہا ''جی سر'' آدمی نے غصے سے پوچھا تمہارا منیجر کہاں ہے؟ بیرے نے کہا سر وہ دوسرے ہوٹل میں کھانا کھانے گئے ہیں۔ آدمی کا بہت زیادہ غصہ دیکھ کر بیرے نے کہا کہ حضور منیجر صاحب تو تنخواہ کے علاوہ کھانے کے اضافی پیسے بھی ہوٹل کے اکاؤنٹ سے لے کر گئے ہیں۔

آدمی نے تھوڑی دیر سوچا پھر اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور وہ کھانا چھوڑ کر چلا گیا۔ قارئین کرام سالن میں مسئلہ تھا تو آدمی نے نہ تو باورچی کو بلایا اور نہ انتظامیہ میں سے کسی اور کو بلایا۔ اس نے سیدھا منیجر کا پوچھا کہ اگر سالن میں کوئی مسئلہ ہے تو یہ باورچی کا نہیں منیجر کا قصور ہے اور جب اس کو پتہ چلا کہ یہاں کا منجیر ہی کسی دوسرے ہوٹل میں کھانا کھانے گیا ہے تو اس نے تھوڑی دیر سوچا کہ منیجر سے بات کرنا فضول ہے کہ وہ تو خود یہاں کھانا نہیں کھاتا ہے۔ اس منیجر کو صرف اپنی تنخواہ یا پیسوں سے غرض ہے۔ ہوٹل میں کیا ہو رہا ہے! کیسے ہو رہا ہے! ٹھیک ہو رہا ہے یا خراب ہو رہا ہے اسے کسی بھی چیز سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

ذرا تھوڑی دیر کے لیے سوچئے کہ ہوٹل میں کھانا خراب تھا تو بدنامی بیرے کی ہوئی، باورچی کی یا منیجر کی! لوگوں کی نظر میں کون بدنام ہوا! ان پڑھ آدمی نے آ کر بھی یہی پوچھا کہ منیجر کہاں ہے؟ کیوں؟ ؟ ؟

کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہوٹل کی چار دیواری میں ہونے والے ہر سیاہ و سفید کا ذمے دار صرف منیجر ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔