کربلا اور دُختران اہل ِ بیت

معرکۂ کربلا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت کا حامل ہے۔


Muhammad Kamran Khalid November 23, 2012
دنیا کی تاریخ میں ایسی شجاعت و جرأت کا اظہار نہیں ہوا جس طرح امام حسین اور ان کے رفقاء نے کیا۔ فوٹو : فائل

واقعۂ کربلا حق و باطل، نیکی و بدی، نور وظلمت، غلامی اور حریت کی قوتوں میں جنگ کا وہی قدیم باب ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے، لیکن یہ جنگ عجیب حالات میں ہوئی جن کے سبب دنیا کے دوسرے معرکے واقعۂ کربلا کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی شجاعت و جرأت کا اظہار نہیں ہوا جس طرح امام حسین اور ان کے رفقاء نے کیا۔ اس واقعے سے پہلے تاریخ میں قربانیوں کی جو بھی داستانیں ہیں، وہ زیادہ تر انفرادی ہیں، مگر معرکۂ کربلا انفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی حیثیت کا حامل ہے۔

اس معرکے کے واحد رہنما نواسۂ رسول امام حسین ہیں۔ ان کے گرد ایک جماعت تھی جس میں ایک ہی قوم و نسل کے افراد شامل نہیں تھے، بلکہ اس جماعت کی حیثیت بین الاقوامی تھی۔ ان میں آزاد، غلام، عربی، قریشی، غیر قریشی، غرض ہر نسل اور ہر قبیلے کے سرفروش شامل تھے۔ ان سب کا مقصد ایک تھا جس میں وہ متحد تھے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس واقعے میں طبقۂ نسواں نے جس شان سے حصہ لیا، اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ان کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

٭حضرت فاطمۃ الکبریٰ:
آپ، حضرت امام حسین کی صاحب زادی تھیں۔ آپ نے ان کی شادی مدینے میں اپنے بھتیجے حضرت امام قاسم سے کر دی تھی۔ جب کربلا میں آپ کو شوہر کی شہادت کی خبر ملی تو آپ گریہ و زاری کرنے لگیں۔ آپ حضرت امام حسین کی وہ بیٹی ہیں جو کربلا میں بیوہ ہوئیں اور اسیران کربلا کے ساتھ مدینہ پہنچیں۔

حضرت سیدہ سکینہ بنت الحسینؓ:
آپ حضرت امام حسین کی چہیتی بیٹی اور عباسؓ علم دار کی محبوب ترین بھتیجی تھیں۔ آپ جناب رباب کے بطن سے تھیں اور شہزادہ علی اصغرؓ کی بہن تھیں۔ واقعۂ کربلا میں نہایت کم سن تھیں۔ جب امام عالی مقام جہاد کے لیے کربلا جارہے تھے تو آپ ذوالجناح کے سموں سے لپٹ گئیں۔ امام حسین نے سبب پوچھا تو عرض کیا:''میں آپ کے روئے مبارک پر ایک نظر ڈال کر اپنے سفر الم ناک کے لیے اس چہرے کے تصور کو زاد راہ بنانا چاہتی ہوں، تاکہ اس صابر چہرے کا تصور میرے لیے مصیبت انگیز سفر میں سرمایۂ تسکین بن سکے۔''

رباب بنت امراء القیس الکندی:
علی اصغر اور سکینہ کی والدہ اور حضرت امام حسینؓ کی رفیقۂ حیات تھیں۔ واقعہ کربلا میں موجود اور اسیری میں بھی اہل حرم کے ساتھ شریک رہیں۔ صبر و ضبط کا یہ عالم تھا کہ واقعۂ کربلا میں ان کی زبان اقدس پر مہر لگی رہی۔ اپنے شیر خوار لخت جگر کی شہادت پر بھی صبر کیا۔

حضرت لیلیٰ ثقفیہ:
علی اکبرؓ کی والدہ اور امام حسینؓ کی شریک زندگی تھیں۔ ابی ہریرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیری میں جناب زینب اور حضرت ام کلثوم کے ساتھ رہیں، مگر اس کے بعد کے ان کے حالات زندگی کہیں نہیں ملتے۔

بی بی رقیہ بنت حضرت علی:
ان کا عقد حضرت مسلم بن عقیل ؓ سے ہوا۔ مدینے سے اپنے شوہر کے ساتھ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ چلی تھیں۔ کربلا پہنچنے سے قبل اپنے شوہر کی شہادت کی خبر سنی۔ آپ نے اپنی تمام اولاد کربلا میں امام حسین ؓ پر قربان کردی۔ آپ اسیری میں اپنی دونوں بہنوں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم ؓ کے ساتھ رہیں اور زنداں کے مصائب برداشت کیے۔

حضرت ام کلثوم بنت علیؓ:
آپ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کی ولادت نبی پاکﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں ہوئی۔ تقریباً دو سال کی ہی عمر میں نانا اور اور اس کے چھے ماہ بعد والد ہ گرامی سے جدا ہوگئیں۔ پھر حضرت علیؓ اور بھائیوں کی تربیت میں رہیں۔ حضرت علیؓ نے اپنے بھتیجے محمد بن جعفر سے ان کا عقد کیا، مگر آپ جلد بیوہ ہو گئیں۔ اس کے بعد حضرت امام حسین کے ساتھ رہیں اور آپ کے ساتھ ہی کربلا تشریف لائیں۔ انہوں نے یزید سے دربار شام جانے کی خواہش کی اور کہا کہ مجھے اتنی اجازت دو کہ میں اپنے بھائی کا سر اٹھا لوں اور اسے بوسہ دوں۔ یہ سن کر اہل دربار میں موجود درد مند رونے لگے۔ اور جب اسیر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینے کی دیواریں نظر آئیں تو حضرت ام کلثوم ؓ رونے لگیں اور مدینہ کو مخاطب کر کے اشعار بھی کہے۔

حضرت زینب:
آپ حضرت علیؓ اور خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی صاحب زادی ہیں۔ آپ وہ خاتون تھیں جنہیں ارض کرب و بلا کی تیز و تند ہوائیں، کوفے کے سیاہ بادل، شام کی سیاہ بجلیاں اور ان سب کی مجموعی قوت بھی نہ ہلاسکی اور نہ کوئی نقص پیدا کرسکی۔

کتاب عشق کے دو باب ہیں: ایک کربلا اور دوسرا کوفہ و دمشق۔ کربلا کا باب حضرت امام حسین ؓ نے لکھا اور کوفہ و دمشق کا باب المصائب سیدہ زینب نے رقم کیا۔ آپ نے واقعۂ کربلا میں کبھی علیؓ کا رنگ بھرا اور کبھی حسین بن کر تسلیم و رضا کے نقوش کو ابھارا۔ آپ کے عزم و استقلال میں امام حسین ؓ کے عزم و استقلال کی جھلک تھی۔ آپ نے کوفہ و شام کے دربار میں جابر اور دشمن حکمرانوں کا سامنا کیا۔ جہاں اسلامی شریعت کی توہین ہورہی تھی، وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیا اور کلمۂ حق بلند کیا۔ اپنی حق گوئی اور جدوجہد سے سیدہ زینب نے اسلام کی تعلیمات کو بقا کی معراج پر پہنچایا۔ سیدہ زینبؓ نازک سے نازک موقع پر بھی حضرت علیؓ کے جاہ و جلال کے ساتھ حسین بن کو بولیں تو باطل کا سر کچل دیا اور حق کا بول بالا کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں