بُک شیلف

فت سحر طاہر ایسے جملے لکھتی ہیں کہ قاری کو سمجھنے کے لئے جملہ دوبارہ پڑھنا نہیں پڑھتا۔


فت سحر طاہر ایسے جملے لکھتی ہیں کہ قاری کو سمجھنے کے لئے جملہ دوبارہ پڑھنا نہیں پڑھتا۔ :فوٹو:فائل

شروحِ کلامِ اقبال
مصنفہ: ڈاکٹر اختر النساء
قیمت:650روپے
ناشر: بزمِ اقبال 2۔کلب روڈ ،لاہور



زیر ِتبصرہ ڈاکٹر اختر النساء کا مقالہ اقبال کی شرح نویسی کی تاریخ ہے اور اس کا تجزیہ بھی جو پی ایچ ڈی کے حصول کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیرِ نگرانی لکھاگیا ۔ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب اقبال کے ایک مجموعہ کلام کیلیے مختص کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی تفصیل،باریک بینی اور دقتِ نظر سے شروح ِ کلام اقبال کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے مجموعی طورپر 15شارحین اقبال کے کام کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ باب اول میں ''شرح کا مفہوم ،شرح نگاری کے اسباب ،شرح کی اقسام ،عربی فارسی اور اردو میں شرح نویسی اور کلامِ اقبال کی شرح نویسی کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔

شرح نویسی کی اہمیت کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں:'' کسی ادب پارے کی تفہیم کے لیے شرح لغت سے بہتر مدد بہم پہنچاتی ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں کسی عبارت کے لغوی معنی کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس سے مصنف یا شاعر کی کیا مراد ہے؟ گویا شرح کے ذریعے کسی متن کی پیچیدگی اور دشواری کو دور کرنے کی سعی کی جاتی ہے، اس کے پوشیدہ گوشے نمایاں کیے جاتے ہیں اور متن کو قابلِ فہم بنایا جاتا ہے، چنانچہ شرح کی ہر دور میں ضرورت پیش آتی ہے۔'' ہمارا خیال ہے کہ مجموعی تعلیمی معیار گر جانے اور عربی فارسی سے نابلد ہوجانے کی وجہ سے کلام اقبال کی تفہیم کے لیے شرحوں کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ شرح لکھتے وقت شارح کے پیشِ نظر کیا مقاصد تھے،مثلاً ''مولانا مہر (مولانا غلام رسول مہر) کی مطالب بانگِ درا کسی قدر معاشی مجبوری کے زمانے میں لکھی جانے والی فرمایشی شرح ہے۔(ص۔55)

مصنفہ نے 14شارحین کا جائزہ مختصرانداز میں لیا ہے۔ لکھتی ہیں:''یوں متعدد شارحین نے کلامِ اقبال کی جو شرحیں لکھی ہیں وہ سب اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں تاہم بعض شرحیں اپنے مواد ومعیار کے اعتبار سے زیادہ افادیت کی حامل ہیں جبکہ بعض اپنے معیار کے اعتبار سے کچھ زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہوتیں ۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اقبال جیسے دانائے راز ،مفکر اور عارف کے کلام کو سمجھنا اگر مشکل ہے تو سمجھانا اس سے زیادہ مشکل ہے اور کلام اقبال کو سمجھنے کے لیے ہمارا ذہنی افق ابھی محدودہے اور اس کی تفہیم کیلیے جس فکری بصیرت کی ضرورت ہے اس سے اکثر شارحین بے بہرہ ہیں اور وہ ایسی محنت سے جی چراتے ہیں جو کلام اقبال کی تفہیم کے لیے درکار ہے۔''(ص۔537)

بحیثیت مجموعی یہ کتاب اقبالیاتی ذخیرہ کتب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔

کتاب الزہد
مؤلف:بیرسٹر ظفراللہ خان
صفحات :102،قیمت:300روپے
ناشر:ایمل پبلیکیشنز،اسلام آباد


برصغیر کی دینی روایت میں تصوف کوایک خاص مقام حاصل ہے۔ تصوف کا بنیادی مقصد انسان کی ظاہری و باطنی اصلاح اور تہذیب ہے ۔قرآن وحدیث میںمیں تزکیۂ نفس سے متعلق احکامات تصوف کی تعلیمات کے بنیادی اور مستند مآخذ سمجھے جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب مؤلف بیرسٹر ظفراللہ خان نے صحاح ستہ میں موجود وہ ابواب سامنے رکھ کر ترتیب دی ہے جن کا تعلق زہد سے ہے ۔

کتاب کے آغاز میں حدیث و آثار کی روشنی میں زہد کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے ۔اس کے بعد(بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر زہد سے متعلق)ذیلی عنوانات کے تحت صحیح احادیث مرتب کر دی ہیں۔ معروف اسکالر اور اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر احمد جاوید صاحب نے کتاب کے مقدمے میں لکھاہے کہ ''ان کی مرتب فرمودہ ''کتاب الزہد''ناصرف یہ کہ زہد کے مسنون اصول و مظاہرکو جامعیت کے ساتھ ہمارے علم میں لاتی ہے بلکہ رسول ﷺ کے اس محبوب حال اور مزاج کو حتیٰ المقدور اپنے اندر منتقل کرنے کا ذوق اور جذبہ ابھارتی ہے۔''

کتاب کے پیش لفظ میں پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب نے ''کتاب الزہد'' کو اسلامی تعلیمات پر مبنی مثبت و پاکیزہ لٹریچر کے سلسۃ الذہب کی ایک مفید ترین کڑی قرار دیا ہے ۔کتاب عمدہ کاغذ پر انتہائی سیلقے سے شائع کی گئی ہے۔کتاب کے لگ بھگ ایک سو صفحات مواد کے ساتھ ساتھ حوالہ جات سے بھی مزین ہیں ۔ جو لوگ اسلامی تصوف میں دلچسپی رکھتے ہیں ،ان کے لیے یہ کتاب کسی خزانے سے کم نہیں ۔کتاب کا سروق دیدہ زیب ہے اور قیمت بھی مناسب ہے ۔

پیغمبرامن ﷺ
مصنفہ: کیرن آرمسٹرانگ،قیمت:300 روپے
ناشر:نگارشات پبلشرز،24 مزنگ روڈ لاہور


زیرنظرکتاب کی مصنفہ بنیادی طورپر برطانوی ہیں، سات برس تک کیھتولک نن رہیں۔ بعدازاں انھیں سامی مذاہب کے مطالعہ پر دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے دودرجن کتابیں بھی لکھیں جن کا مقصود دنیا بھر کے بڑے مذاہب بالخصوص اسلام، عیسائیت، اور یہودیت کا ایسا مطالعہ پیش کرنا ہے جس سے ان مذاہب کے ماننے والوں کی آپس میں قربت پیدا ہو۔

انھوں نے اسلام کا بھی ایک مخصوص نظر سے مطالعہ کیا اور اس پر رائے بھی ایک غیرمسلم کی حیثیت سے دی جس میں کہیں کم علمی یا پھر کہیں تعصب بھی جھلکتاہے۔ مثلاً ان کے خیال میں اسلام عالمگیر مذہب نہیں ہے، اسی طرح وہ واقعہ معراج اور قرآن مجید کی سورتوں کی ترتیب سے متعلق وہ مسلمانوں کے نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک غیرمسلم ہیں، اس لئے وہ اسلام اور مسلمانوں کے نظریات کو ایک مخصوص اندازہی سے دیکھیں گی۔

زیرنظرکتاب میں بھی کیرن آرمسٹرانگ نے رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ کتاب کے پانچ ابواب ہیں: مکہ، جاہلیہ، ہجرت، جہاد اور اسلام۔مصنفہ تسلیم کرتی ہیں کہ ایک راہنما شخصیت کے طورپر حضرت محمدﷺ کی سیرت نہ صرف مسلمانوں بلکہ اہل مغرب کے لئے بھی اہم اسباق رکھتی ہے۔ آپ کی زندگی ایک جہاد تھی۔ کتاب پڑھنے کے لائق ہے بالخصوص دیکھناہوگا کہ آج کے مستشرق رسول اکرم ﷺ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

کلام میر انیس
شاعر: میر ببر علی انیس،قیمت:600 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، پاکستان



میر انیس کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہان کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اْسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔ میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔

واقعات کربلا کو مرثیے کی صورت میں نظم کرنے والے میر انیس کا مرتبہ اردوشعرا کی صف اول میں نہایت ارفع واعلیٰ ہے، یہی وجہ ہے کہ میر ببر علی انیس کو دشت کربلا کا عظیم ترین سیّاح قرار دیا گیا ہے۔ اْن کے مرثیوں کی تعدا د بارہ سو (1200) کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ بیان کی سادگی، زبان کی شیرینی اور بندش کی خوبی میں بے مثل اور مصوری وواقع نگاری میں لاجواب تھے اور نازک خیالی بھی انہی کا حصہ تھی۔انھوں نے اردوشعراء میں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے۔

زیرنظرکتاب میرانیس کے بہترین مرثیوں، سلاموں اور رباعیوں کا مجموعہ ہے۔ انتخاب سیدمسعود حسن رضوی ادیب نے کیا۔ پہلے پہل یہ کتاب 1931ء میں شائع ہوئی تاہم کتاب میں موجود مرثیوں میں جگہ جگہ غلطیاں تھیں، بعدازاں رضوی صاحب نے سات نمائندہ مرثیوں کو منتخب کیا، ان کی صحت کو قدیم مسودوں سے جانچا اور پھر شائع کیا۔ پروفیسر مسعود حسن کے مقدموں کی روشنی میں جب ہم ان مرثیوں کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم ایک ایسے شاعر کو دریافت کررہے ہیں جس کے اندر بڑی اور اعلیٰ شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔

بن مانگی دعا(ناول)
مصنفہ: عفت سحر طاہر،قیمت: ایک ہزار روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، سرکلر چوک اردو بازار لاہور



اس کہانی کا ہیرو امتیاز ایک روایت پسند نوجوان ہے لیکن ہیروئن صالحہ خاندانی روایات سے باغی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ امتیاز کی محبت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ہم خیال نوجوان سے شادی کرتی ہے لیکن پھر اس کے سارے سہانے خواب شوہر کے اچھا ثابت نہ ہونے کے باعث ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ امتیاز کی شادی اپنی ایک کزن ہوجاتی ہے جو اسے ہروقت طعنے دیتی ہے کہ وہ صالحہ سے محبت کیاکرتاتھا۔ پھر صالحہ(ہیروئن) کا شوہر اپنی بیٹی کو جوئے میں ہاردیتاہے، تب صالحہ کی نظریں امتیاز کی طرف مدد کے لئے اٹھتی ہیں۔ پھر اس کہانی کے کردار کہانی کو ایسا گنجلک بنادیتے ہیں کہ قاری سرپکڑ کے بیٹھ جاتاہے۔ کچھ کردارایسے تھے کہ جن کی رسی خدا دراز کرتاہے، کچھ کرداروں کو اللہ نے ایسے جھٹکے دئیے کہ وہ ٹھہرنے اور سوچنے پر مجبور ہوئے، پھر ماحول بدلا اور کچھ ایسا ہوا کہ قاری حیران رہ جاتاہے کہ ایسا بھی ہوسکتاہے بھلا!

عفت سحر طاہر سادہ سے اسلوب میں عام لوگوں کی عام کہانیاں لکھنا پسند کرتی ہیں، ایسے جملے لکھتی ہیں کہ قاری کو سمجھنے کے لئے جملہ دوبارہ پڑھنا نہیں پڑھتا۔ زیرنظرناول میں انھوں نے بہت سے ایسے سبق سکھائے ہیں جو معاشرے کو حسن بخشتے ہیں۔ بن مانگی دعا کیسے قبول ہوئی، یہ تو آپ کو ناول پڑھنے سے ہی پتہ چلے گا۔ 'مکتبہ القریش' نے ناول کو اس قدرخوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے کہ طبعیت عش عش کراٹھتی ہے۔

زلزلے، زخم اور زندگی
مصنف: ڈاکٹرآصف محمود جاہ،قیمت:450 روپے
ناشر: علم وعرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ،40 ۔ اردوبازارلاہور



مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں:'' ہم جیسے لوگ جو لفظوں کے سوداگر ہوتے ہیں ہمارے لئے بھی اپنی تحریروں میں اپنے وطن سے محبت کرنا بہت آسان ہوتاہے اور ہم ساری زندگی یہی کچھ کرتے چلے جاتے ہیں لیکن اگرہمیں یہ کہاجائے کہ آپ اپنے گھر کی چوکھٹ پار کرکے اس وطن میں جو لوگ ابتلا اور آزمائش میں ہیں، قدرتی آفات نے انھیں بے گھر اور برباد کردیا ہے ان کے پاس پہنچ کر صعوبت آمیز سفروں کے بعد ان کے دکھ درد میں شریک ہوں، ان کے زخموں کا مداوا کریں تو یہ ہمارے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔

ڈاکٹرآصف محمود جاہ ایسے لوگ ہمیں شرمندگی سے بچالیتے ہیں، وہ ہرآفت کے دوران نہ صرف اپنا گھربار بلکہ کسی حد تک ملازمت کو پس پشت ڈال کر آفت زدہ علاقوں میں جاپہنچتے ہیں جہاں انسانیت ان کو پکارتی ہے، ان کی امداد اور ہمدردی کی منتظر ہوتی ہے، یہ دنیا کتنی بے رحم لگے اگر اس میں ڈاکٹر صاحب جیسے لوگوں کا وجود نہ ہو، ایسے لوگ ہی دنیا میں برکت اور خوبصورتی کا باعث ہیں''۔

انہی ڈاکٹرصاحب کی زیرنظرکتاب میں پاکستان میں 1935ء سے 2015ء تک آنے والے بڑے زلزلوں میں عزم و ایثار کی ولولہ خیز داستانیں شامل ہیں۔ پاکستان میں کہیں بھی آفت آئے، ڈاکٹر صاحب فوراً ادویات، اپنی ٹیم اور سامان لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں، ہفتوں تک وہاں ڈیرہ ڈالتے ہیں، متاثرین کی زندگی کو بحال کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔ وہ گزشتہ گیارہ بارہ برس سے یہی کچھ کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ ایک بڑے سرکاری افسر ہیں لیکن وہ ایک پرتعیش زندگی گزارنے کے بجائے اپنا سب کچھ آفتوں سے متاثرین پر لٹادیتے ہیں۔

زیرنظرکتاب میں ڈاکٹرصاحب نے اپنے تجربات، مشاہدات بیان کئے ہیں۔ ایسی داستانیں ہیں کہ کوئی بھی درد دل رکھنے والا انسان اپنے حال میں مست رہ نہیں سکتا بلکہ کچھ نہ کچھ کرنے کی طرف گامزن ہوجاتاہے۔

زندگی کے بعد، موت سے پہلے
مصنف: شکیل احمد چوہان
ناشر: دارالمصحف، اردوبازارلاہور



یہ کتاب دس کہانیوں کا مجموعہ ہے، ہرانسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت ضرور آتاہے جب وہ اپنی زندگی بسر کرچکاہوتاہے اور موت اس کی دہلیز پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ وقت مدت کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، چندمہینے، چند ہفتے، دن، گھنٹے یا پھر لمحے۔ ف، حرا کا حجاب، مولوی سلامو کا کچا کوٹھا، مائی چیمی کا فیصلہ، دل کے قصے، اکلوتا، جامین، تقریباً پونے گیارہ بجے... یہ سب کہانیاں بہت خوبصورت اندازمیں لکھی گئی ہیں، ننھے منے جملوں کے ذریعے بڑے بڑے سبق ملتے ہیں۔مصنف کا بھی کہناہے کہ کہانی اور کردار آپ کے اردگرد معاشرے ہی میں موجود ہوتے ہیں، انھیں سوچنے کے بجائے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مصنف نے ان کہانیوں میں کرداروں کو دکھایاہے ۔ آپ بھی پڑھئے گا، بہت مزے کی لیکن سبق آموز کہانیاں ہیں۔

کتاب:کامیابی کا مغالطہ
عاطف حسین،صفحات:122،قیمت:400 روپے
ناشر:ایمل پبلیکیشز،اسلام آباد



ترقی یافتہ مغربی ممالک میں طویل عرصے سے سیلف ہیلف لٹریچر کی دھوم ہے۔ وہاں اس موضوع پر لکھی گئی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ قریب دو عشروں سے پاکستان میں بھی مغربی سیلف ہیلپ لٹریچر کے تراجم کر کے دھڑا دھڑ فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کتابوں میں مختلف واقعات کی بنیاد پر زندگی کے سفر میں کامیابی کے گُر سکھائے جاتے ہیں۔ اب تو پاکستان میںکئی ایسے موٹیویشنل ٹرینر بھی ہیں جو مختلف تعلیمی اداروں اور دفاتر میں جاکر ورک شاپس منعقد کر کہ لوگوں کو کامیاب بننے کے طریقے سکھاتے ہیں ۔

ہمارا احساس ہے کہ ایک طویل عرصے سے ایسی کتابوں اور کامیابی کا سبق دینے والے خطیبوں کو ایک طرح سے Passive قسم کے قارئین و سامعین میسر تھے ۔ اس صورتحال میں یہ کتاب ان کے برعکس نقطہ نظر کے ابلاغ کا نقطۂ آغاز ہے۔ مصنف عاطف حسین نے پہلے ان موٹیویشنل سپیکرز کی ''چرب زبانیوں'' کا تعاقب فیس بک پر تبصروں کی صورت میں کیا۔

جب وہاں آراء کا تصادم ہوا تو انہوںنے سنجیدگی سے اس موضوع کا مطالعہ شروع کیا اور واقعی شواہد اور ذاتی تجربات کی بنیاد پر ان موٹیویشنل سپیکرز کے بلند بانگ دعوؤں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ کتاب میں انہوں نے حتی المقدور حوالوں کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش ہے۔

جہاں بھی کوئی انگریزی حوالہ دیا ہے اس کے ساتھ قارئین کی آسانی کے لیے اردو ترجمہ بھی شامل کر دیا ہے۔ مصنف نے موٹیویشنل سپیکرز کے کامیابی ،خوشی، قسمت وغیرہ سے متعلق مقبول نظریات اور کہانیوں کو ڈھکوسلے قرار دیا ہے اور ان کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کی کامیابی ، خوشی اور راحت کی تعریف الگ ہوتی ہے جو اس کے ماحول، روایت اور امکانات کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اسے کارپوریٹ دنیا کی عینک سے دیکھنا زیادتی ہے۔ مصنف کے کچھ تبصروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تاہم امید ہے یہ کتاب شائقین مطالعہ کی لائبریری میں مفید اضافہ ثابت ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں