شفقت تنویر مرزا
آج کی نئی نسل ماضی کے ایک شاندار اور ٹرینڈ سیٹر اردو اخبار ’’امروز‘‘ کے کام تو کیا شائد نام سے بھی واقف نہ ہو۔
1965ء کی جنگ ستمبر سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں نے نیا نیا حلقہ ارباب ذوق کی ہفتہ وار ادبی مجالس میں جانا شروع کیا تھا جو ان دنوں وائی ایم سی اے کی عمارت کے گرائونڈ فلور پر واقع ایک کمرے میں ہوا کرتی تھیں۔
اس سے چند قدم کے فاصلے پر پنجابی ادبی سنگت والے جمع ہوتے تھے اور یہیں میں نے پہلی بار شفقت تنویر مرزا صاحب کو دیکھا۔ 47 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مجھے ان سے وہ پہلی ملاقات اور ان کا چہرہ اچھی طرح یاد ہے۔ ملاقات اس لیے کہ اس زمانے میں بھی وہ پنجابی زبان وادب پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاصے زود رنج اور غصہ کرنے والے بھی مشہور تھے۔ مگر جس محبت اور وضاحت سے انھوں نے شاہ حسین کے ایک مصرعے کے حوالے سے ہمارے اعتراض نما استفسار کا جواب دیا، اس کا ان کی اس ''روایتی شہرت'' سے دور دور کا تعلق بھی نہیں تھا اور چہرہ اس لیے کہ آخری دنوں تک کمزوری اور بیماری کے باوجود ان کی ظاہری ہیئت میں بہت کم تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں ہم لوگ کبھی کبھار حلقے سے اٹھ کر پنجابی ادبی سنگت کے اجلاس میں بھی جا بیٹھا کرتے تھے۔
مرزا صاحب عام طور پر بحث کے آخر میں بڑے پنے تلے' مدلل اور عالمانہ انداز میں اپنی رائے اس طرح سے دیتے کہ بہت کم کوئی ان سے اختلاف کی جرات کر پاتا، وہ اختلاف رائے کو اگر پسند نہیں تو برداشت ضرور کرتے تھے لیکن جہالت کی بات کا جواب دیتے وقت ان کا چہرہ سرخ اور آواز بلند ہو جاتی تھی اور وہ علمی دلائل اور حوالوں کے ساتھ اعتراض کنندہ کی ایسی خبر لیتے کہ اسے جان بچانا مشکل ہو جاتا۔
ڈیفنس کی جامع مسجد میں ان کی نماز جنازہ پر کئی ایسے احباب سے بھی ملاقات ہوئی جو اس طرح کے مناظر کے چشم دید گواہ تھے۔ نجم حسین سید صاحب سمیت کچھ تو ایسے محترم بھی تھے جو پہلی نظر میں پہچانے بھی نہ جا سکے اور ان کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے نوجوان لکھاری بھی نظر آئے جن سے پہلے کبھی ملنے کا موقع نہ ملا تھا لیکن سب کے سب اس بات پر متفق اور یک زبان تھے کہ مرزا صاحب پنجابی زبان کے ایک ایسے خادم اور علم بردار تھے جن کے پائے کے لوگ اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتے ہیں۔
مرزا صاحب کی ساری زندگی پنجاب اور پنجابی زبان کے حقوق کے لیے عملی جدوجہد میں گزری، ان کا آبائی تعلق وزیر آباد سے تھا مگر جب وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور میں صحافت کے پیشے سے متعلق ہوئے تو پھر اسی شعبے اور اسی شہر کے ہو کر رہ گئے۔ پنجابی کے کلاسیکی اور جدید ادب اور لسانی مسائل پر ان کی بہت گہری نظر تھی۔ مجھے پچھلے چند برسوں میں ان کے ساتھ مختلف کمیٹیوں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے، بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جب بھی وہ کسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے تو علامہ صاحب کا یہ مصرعہ بار بار یاد آنے لگتا تھا کہ۔
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں۔
آج کی نئی نسل ماضی کے ایک شاندار اور ٹرینڈ سیٹر اردو اخبار ''امروز'' کے کام تو کیا شائد نام سے بھی واقف نہ ہو لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا اخبار تھا جس سے متعلق بیشتر صحافی اپنے دور کے مستند اور معروف ادیب بھی تھے۔ یوں مرزا صاحب کا تعلق ہماری ادبی تاریخ کے اس نامور گروپ سے تھا جس میں چراغ حسن حسرت' احمد ندیم قاسمی' حمید اختر' حمید جہلمی' عبداللہ ملک' ظہیر بابر اور مسعود اشعر سمیت کئی اہم ادیب شامل رہے ہیں، اس اخبار کو یہ تخصیص بھی حاصل رہی ہے کہ اس میں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی کا ادبی صفحہ بھی شائع ہوتا تھا۔ اپنی لسانی ٹریڈ یونین اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انھیں کئی بار ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے مگر ان کی اپنے اصولوں سے کمٹ منٹ میں کبھی کمی نہیں آئی۔ گزشتہ دس بارہ برس سے وہ ''ڈان'' میں بزبان انگریزی کالم لکھ رہے تھے لیکن پیرایہ' اظہار اردو ہو' انگریزی یا پنجابی۔
وہ ہر جگہ اپنے نظریات کا کھل کر اظہار اور پرچار کرتے رہے اور یوں انھوں نے پنجابی زبان کی اہمیت' مسائل اور پاکستانی معاشرے میں اس کی حیثیت کے تعین کے حوالے سے قارئین کو ایسی بھرپور اور عالمانہ معلومات فراہم کیں جن کی وجہ سے نہ صرف پنجابی کا مقدمہ روشن اور واضح ہوا بلکہ یہ مغالطہ بھی دور ہوا کہ وہ کسی تعصب کی وجہ سے اردو یا اردو بولنے والوں کے خلاف ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کی شاید ہیں کہ وہ پنجابی کے جائز حقوق اور پاکستان میں بننے والی اردو زبان اور اس کے دیگر پاکستانی زبانوں سے تعلق کے بارے میں ایک معتدل اور حقائق پر مبنی طرز فکر کے حامی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں بولی جانے والی اردو زبان پورے ملک کی تہذیبی نمایندگی کرے اور ایک ایسا گل دستہ بن جائے جو اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان عناصر یعنی پھولوں کے تشخص کی بھی نمایندگی اور حفاظت کرے جن کے اشتراک سے یہ گل دستہ تیار ہو رہا ہے۔
آج کل وہ بیماری کے باوجود پنجاب رائٹرز فنڈ کمیٹی کے اشاعتی پروگرام کے لیے سید وارث شاہ کی ہیر اور شاہ حسین کی کافیوں کا اردو ترجمہ کر رہے تھے تا کہ ہمارے ان مشاہیر کے کلام تک (مفہوم کی حد تک) تمام اہل وطن کی رسائی ممکن ہو سکے اور بلاشبہ فی الوقت اس کام کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص کو ڈھونڈنا نا ممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔
ابھی ابھی فون پر ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ پشتو اور اردو کے مشہور ادیب' شاعر محقق اور ڈرامہ نگار ڈاکٹر محمد اعظم اعظم بھی انتقال کر گئے ہیں۔ مرحوم نے بھی ساری زندگی پشتو زبان و ادب کی خدمت میں بسر کی تھی، رب کریم سے دعا ہے کہ وہ اپنی اپنی زبان کے ان دونوں بزرگوں کے درجات کو بلند کرے اور ان کی روحوں کو اپنی امان میں رکھے کہ یہ لوگ امن' انصاف اور محبت کے پیغام بر تھے اور شاید ایسے ہی زندہ ضمیر لوگوں پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی