’’صرف بہنوں کے لیے‘‘
سعودی عرب میں خواتین کا صنعتی شہر بسانے کا منصوبہ۔
سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین پر ڈرائیونگ کرنے کی پابندی ہے۔
اسی طرح سعودی خواتین ووٹ دینے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ خواتین کے لیے بنائے گئے مخصوص قوانین کی روشنی میں سعودی حکومت نے اب یہ منفرد اعلان کیا ہے کہ اگلے برس سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک بن جائے گا جہاں ایک ایسا صنعتی شہر رونق پذیر ہوگا، جس کے طول و عرض پر صرف خواتین کی اجارہ داری ہوگی۔
اس حوالے سے سعودی انڈسٹریل پراپرٹی اتھارٹی، جسے عربی میں مدن (MODON) کہا جاتا ہے، کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل صالح الرشید کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی وہ خواتین جو جدید زمانے کے شانہ بشانہ ترقی کرنا چاہتی ہیں، ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کو ملکی ترقی میں شامل کرنے کے لیے یہ منصوبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، جہاں صرف خواتین ہی تاجر اور ملازم ہوں گی۔
واضح رہے کہ Modonکے قیام کا بنیادی مقصد سعودی عرب میں غیرملکی تاجروں اور ملازمین پر انحصار کم کرکے سعودی شہریوں کے لیے ملازمتیں اور کاروباری مواقع پیدا کرنا ہے، لیکن چوں کہ سخت اسلامی قوانین کی پاس داری کے باعث سعودی خواتین کے لیے مردوں کی شراکت میں کاروباری معاملات چلانا مشکل ہے، لہذا سعودی حکومت نے مشرقی صوبے الاحساء کے اہم شہر الہفوف (Al-Hafuf) میں خواتین کے صنعتی شہر کا منصوبہ شروع کیا ہے، جس میں ابتدائی طور پر 133ملین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ابتدائی طور پر غذائی اجناس کی پروسیسنگ، ٹیکسٹائل اور ادویات کے شعبوں میں پانچ ہزار سے زاید ملازمتیں پیدا ہونے کافوری امکان ہے۔ مبصرین کے مطابق سعودی عرب میں، جہاں خواتین کا صنعتی شعبوں میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے، اس منصوبے کی تکمیل سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
واضح رہے کہ امسال جولائی میں لندن اولمپک میں سعودی خواتین کی شرکت او ر ستمبر میں شاہ عبداﷲ کی جانب سے 2015میں خواتین کو ووٹ دینے اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان اور اب خواتین کے صنعتی شہر کے قیام سے مغربی حلقوں میں سعودی حکومت پر صنفی امتیاز برتنے کے الزام میں کمی واقع ہوگی۔ دوسری طرف مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مشہور رومانوی داستان کے مرکزی کردار لیلیٰ مجنوں کے مدفن والے شہر الہفوف کے نخلستان میں خواتین کے صنعتی شہر کی تعمیر سعودی معاشرے میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے سنگ میل ثابت ہوگی۔