زندگی ملک و عوام کی امانت ہے
اس کی رپورٹ 26 فروری 2015 کو ملی۔ جس میں دوبارہ بائیوپسی کی ہدایت درج تھی۔
جولائی 2014ء کو راقم نے چینی ڈاکٹر سے دانت بنوائے اور چینی ڈاکٹر نے دانت لگاتے وقت میری زبان میں تار چبھو دی تھی۔ زبان پر زخم بظاہر معمولی سا تھا، تھوڑا درد بھی ہوتا تھا، اس کے لیے میں بار بار چینی ڈاکٹر کے پاس جاتا رہا، چینی ڈاکٹر دانت نکال کر گھس کر روئی میں دوائی لگاکر زبان پر لگاکر دانت فٹ کر دیتا تھا۔ چینی ڈاکٹر نے ہر بار یہی کہا کہ نمکین نیم گرم پانی سے کلیاں کرتا رہوں، زخم خود ٹھیک ہو جائے گا۔
جب تکلیف محسوس ہو تو اس کے کلینک آ جایا کروں۔ جب بھی میں نے ڈاکٹر سے زبان کے زخم کے ٹھیک نہ ہونے کا ذکرکیا تو اس نے کہا معمولی زخم ہے، خود ٹھیک ہو جائے گا۔ فروری 2015 کو زبان کے زخم کی جگہ گول چھوٹے سے دائرے میں نیم سرخی مائل پپڑی یا کھرنڈ بن گیا، کھرنڈ بننے کے عرصے کے دوران زبان کی تکلیف کم محسوس ہوتی تھی، زخم زبان کے اوپر سامنے نہیں تھا، بلکہ الٹی سائیڈ نیچے کی طرف تھا۔ جو زبان کو پکڑ کر اٹھائے بغیر نظر نہیں آتا تھا۔ زخم کے نیچے پپڑی یا کھرنڈ کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ زخم ٹھیک ہوگیا ہے۔اب پپڑی یا کھرنڈ اترجائے گا۔
اکثر زخموں پر پپڑی یا کھرنڈ بننے کے بعد یہ علامت ہوتی ہے کہ زخم یا پھوڑا ٹھیک ہونے کے بعد کھرنڈ خودبخود جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ اس بات کا میں نے اندازہ لگانے کے لیے انگلی سے زخم کو چھوا۔ محسوس ہوا کہ پپڑی یا کھرنڈ کی سطح سخت بن چکی تھی۔ اس کے نیچے جوں ہی میں نے انگلی لگائی تو محسوس ہوا کہ اس پپڑی یا کھرنڈ کے نیچے زبان کے اندر ہی اندر ایک بڑا Tumour یا غدود بن گیا تھا۔ اس غدود کو چھونے سے شدید درد محسوس ہوا۔ اس کے بعد میں چینی ڈاکٹر کے کلینک گیا، مجھے دانت نکال دینے کا کہاگیا اور ایک جیل لکھ کر دی کہ اس پر لگاتے رہو۔ جیل لگانے سے کھرنڈ کی سخت سطح نرم ہوکر اترگئی۔ زخم یا ٹیومرکی سطح پھول کی پنکھڑیوں کی طرح نظر آنے لگی۔ اس ٹیومر میں مواد یا پیپ یا خون نظر نہیں آتا تھا، لیکن اسے چھونے سے سخت درد ہوتا تھا۔
اس کے بعد میں سول اسپتال کے ڈینٹل سرجن کے پاس گیا۔ انھوں نے زخم کا معائنہ کرتے ہی کہا یہ میرا یا ڈینٹل سرجری کا کیس نہیں ہے، آپ فوراً سول اسپتال کے ای این ٹی کے شعبے کے ایسوسی ایٹ پروفیسرکے پاس جائیں۔ ڈاکٹر نے 4 فروری 2014 کو میری MRI کرائی۔ 16 فروری 2015ء کو ڈاکٹر نے میری زبان کو سن کرکے Specimen لے کر بائیوپسی (Piopsy) کے لیے ڈاؤ لیبارٹری میں بھجوادیے، اس کی رپورٹ 26 فروری 2015 کو ملی۔ جس میں دوبارہ بائیوپسی کی ہدایت درج تھی۔
ڈاکٹر نے دوبارہ Biopsy کے لیے زخم کی گہرائی سے Specimen لے کر 2 مارچ 2015 کو ڈاؤ لیبارٹری بھجوائے، جس کی رپورٹ 12 مارچ 2015 کو مل گئی، جس میں لکھا تھا Tissue from the border of the tongue, Squamapro life reative Lesion اس رپورٹ سے واضح ہوگیا کہ راقم کو زبان کا کینسر ہوگیا ہے۔ سول اسپتال کے ای این ٹی شعبے کے پروفیسر نے مجھے مشورہ دیا کہ ایک ماہ تک دوائیں کھاتا رہوں۔ اس کے بعد زبان کا آپریشن کیا جائے گا۔ راقم نے سینئر ڈاکٹر نور محمد شیخ اور پروفیسر ڈاکٹر ابو طالب سے مشورہ کیا، جس پر دونوں ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ راقم چونکہ دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہے اور کئی آپریشنز سے پہلے گزرچکا ہے۔
اس کے لیے بہتر ہوگا کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع سے آپریشن کرایا جائے تو نتائج صحیح آئیں گے۔ اس کے بعد جناح اسپتال کی ENT او پی ڈی میں 14 مارچ 2015 کو میں گیا۔ ڈاکٹر نصیر احمد نے ای این ٹی کے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر Punch Biopsy کے لیے زبان کو سن کرکے زخم کا کافی مقدار میں حصہ آغا خان لیبارٹری بھجوا دیا۔ اس کی رپورٹ 18 مارچ 2015ء کو آگئی، رپورٹ میں لکھا تھا:Diagnosis lesion on tonge, well differentiated squamous cell carcinomea اس رپورٹ کو لے کر میں گھر آ گیا۔ ماہر ای این ٹی ڈاکٹر نور محمد شیخ نے دوائی کی پرچی پر پروفیسر ڈاکٹر طارق رفیع اور ہیڈ ماہرکینسر کو Refer کر دیا تھا۔ لیکن مزید رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔
عوامی جمہوری آزادی کے لیے ایک کارکن کی طرح محاذ سے پیچھے ہٹنا میرے خواب اور میری زندگی کے مقصد کی موت تھی، مجھے زندہ رہنا ہے اور اس کے لیے رات 10 بجے کے قریب میرے ذہن میں آیا کہ ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی سے ذکرکرتا ہوں تاکہ کوئی راستہ نکل آئے۔ میں نے طاہر نجمی سے زبان کے کینسر کا ذکر کیا، انھوں نے مجھے تسلی دی اور کہا ابھی دیکھتا ہوں، کچھ دیر بعد ایکسپریس کے سینئر ہیلتھ رپورٹر طفیل صاحب کا فون آیا کہ میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر 21 مارچ 2015 کو 10 بجے صبح پہنچ جاؤں۔ عین وقت پر میں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو میں نے ایک معیشت دوسری کلاسیکل فزکس کی ریسرچ کتابیں پیش کیں۔ طفیل صاحب نے میرا تعارف کالم نگارکی حیثیت سے کرایا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری تمام رپورٹیں دیکھیں اور زبان دیکھتے ہی کہا کہ کینسر ہو چکا ہے۔ آپریشن ضروری، اشد ضروری ہے۔
راقم نے پوچھا میرا آپریشن آپ خود کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ہاں میں خود کروں گا۔ ساتھ ہی جناح اسپتال کی OPD کی پرچی میرے پاس تھی۔ اس پرچی پر مجھے جناح اسپتال کے شعبہ ENT میں داخل کر لیا گیا۔ 21 مارچ 2015 کو ہفتہ تھا۔ 22 کو اتوار تھا، اور 23 مارچ 2015ء کو یوم پاکستان (قرارداد پاکستان) کی چھٹی تھی۔ آپریشن کے ضروری لوازمات، خون وغیرہ کی بوتلوں کا بندوبست کر لیا گیا تھا۔ 24 مارچ 2015 کو صبح آٹھ بجے مجھے آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا۔