ریجھومل قابل فخر سماجی شخصیت
پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں کئی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جن کا نام آج بھی تاریخ میں موجود ہے
پاکستان بننے سے پہلے سندھ میں کئی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جن کا نام آج بھی تاریخ میں موجود ہے اور نسل در نسل لوگوں کی زبان پر چلتا آ رہا ہے اور انھیں یاد رکھنے کے لیے ان پر مضامین لکھے جاتے ہیں اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔ لاڑکانہ شہر میں بھی ایک ایسی شخصیت تھی جنھوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر کئی لوگوں کی نہ صرف جانیں بچائیں بلکہ اپنی بیمار، نادار اور غریب لوگوں کی خدمت کی جسے ہم بھلا نہیں سکتے۔
اس شخصیت کا نام ہے ریجھومل لاہوری، جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا، وہ انسانیت، بھائی چارے، امن، محبت کی باتیں کیا کرتا، جس کی وجہ سے ہر مذہب اور نسل کے لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے اور اب بھی اس کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں اور اس کی خدمت کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ ریجھو مل جنوری 1893 میں لاڑکانہ شہر میں شری کندن داس کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی فیملی بڑی خوشحال تھی مگر ان کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا تھا اور انھیں جب بھی موقع ملا بلاامتیاز ہر ضرورت مند کی مدد کی۔
عوام نے انھیں لاڑکانہ میونسپل کمیٹی اور لوکل بورڈ لاڑکانہ میں بطور ممبر منتخب کیا تو اپنی تمام ذاتی مصروفیات ترک کر کے شہریوں کی خدمت میں مصروف گئے۔ ان کی یہ خدمات دیکھ کرکئی صاحب ثروت افراد نے انھیں اپنی جائیداد کا ٹرسٹی بنا دیا اور انھیں یہ حق دیا کہ جہاں مناسب سمجھیں خرچ کریں۔ ان کی خدمات کے چرچے دور دور تک پھیل گئے جس کی وجہ سے انھیں سندھ کانگریس کا چیئرمین بنا دیا گیا۔
اپنے والد کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے انھوں نے 1918ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور انھیں حکومت نے Resident Magistrate بنانے کی آفر کی مگر انھوں نے آفر مسترد کر دی کہ اگر وہ حکومت کی نوکری کریں گے تو پھر وہ لوگوں کی خدمت کے لیے وقت کہاں سے لائیں گے۔ جب 1916ء میں ریجھومل نے ایم اے کا امتحان پاس کیا تو یہ بڑی انوکھی بات تھی کیونکہ اس زمانے میں بہت ہی کم لوگ تھے جو ایم اے کا امتحان پاس کرتے تھے۔ میٹرک کا امتحان وہ 1908ء میں پاس کر چکے تھے۔ مزید تعلیم کے لیے ڈی جے کالج کراچی چلے آئے جہاں سے1915ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اسے تعلیم سے وہ چاہتے تھے کہ غریب عوام کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں اور اس کے لیے وہ اپنی طرف سے اور دوسرے مخیر لوگوں سے رقم لے کر غریب شاگردوں کو اسکالرشپ کا بندوبست کرتے تھے جس کی وجہ سے کئی غریب اعلیٰ تعلیم اور سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
وہ بڑے سادہ، اچھے اخلاق اور سلیقے کے مالک تھے جس کی وجہ سے ہر ملنے والے کا دل جیت لیتے تھے۔
ء 1929 سندھ میں اور خاص کر لاڑکانہ میں ہیضہ کی وبا پھیل گئی، شہرکے ہرگھرمیں اس مرض میں مبتلا افراد جاں بحق ہو رہے تھے جتنے بھی اسپتال تھے وہ بھر چکے تھے۔ میڈیکل اسٹورز میں ادویات کی کمی ہو چکی تھی، شہر میں لاشوں کو اٹھانے والے نہیں مل رہے تھے، گرمی کا موسم تھا ، لاشوں سے بدبو وتعفن اٹھ رہا تھا۔ رشتے دار اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے سے کترانے لگے اور مزدوروں کو بھاری رقم دے کر لاشوں کو قبرستان تک پہنچانے میں بڑی مشکلات جھیلتے رہے۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ مزدور بھی بھاری رقم ٹھکرانے لگے، اس لیے کہ یہ بیماری مزدوروں اورگھر کے دوسرے افراد کو بھی لگ رہی تھی۔
اس خوفناک صورتحال میں ریجھو مل کمر بستہ ہوکر دن رات لوگوں کو گھر سے اسپتال پہنچاتے تھے، اگر کوئی سواری نہ ملتی تو اپنی کمر پر اٹھا کر لے جاتے۔ لاشوں کو اٹھا کر شمشان گھاٹ یا قبرستان پہنچانا اب ان کا ہی کام تھا۔ لاڑکانہ شہر چھوڑ کر لوگ کراچی اور دوسرے شہروں کو جا رہے تھے لیکن انھوں نے شہر نہ چھوڑا۔ان کی فیملی ٹرین کے ذریعے کراچی آ گئی اور وہ خود پوری پوری رات مریضوں کے ساتھ اسپتال میں ہوتے اور صبح ہوتے ہی دوبارہ خدمت خلق میں لگ جاتے، کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ نہ تو نیند پوری کر سکتے تھے نہ ٹھیک طرح سے کھانا کھا رہے تھے۔
جس کی وجہ سے ان کی صحت دن بہ دن گر رہی تھی، کراچی سے ہر روز ان کی فیملی ٹیلی گرام بھیج رہی تھی کہ وہ آ جائیں کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ بھی اس بیماری کا شکار ہو جائیں، لیکن ان کی ہمت، ہمدردی، محبت اور جذبہ دیکھیں کہ وہ یہ ٹیلی گرام وصول کر کے پڑھتے بھی نہیں تھے۔ ایک دن ایسا آیا کہ ہیضہ(کالرا ) کی بیماری نے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا کیونکہ وہ کالرا کے مریضوں کے ساتھ رہتے تھے، انھیں کھانا کھلاتے، دوائی پلاتے، تیمار داری کرتے، ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی بڑے خوفزدہ ہوتے تھے مگر ان کو دیکھ کر ان میں بھی ہمت پیدا ہو جاتی تھی۔
وہ شخص جو دوسروں کی زندگی بچاتے بچاتے اپنی زندگی کھو بیٹھا اور جب وہ کالرا بیماری کا شکار ہوا تو اسے اسپتال داخل کردیا گیا جہاں باہر لوگوں کا ایک بڑا مجمع جمع ہوگیا اور اللہ سے ان کی زندگی کے لیے دعائیں مانگنے لگا مگر سب بے اثر ہو گئیں اور وہ 28 اگست 1929ء کو دنیا چھوڑ گئے ۔ فیملی نے جب یہ خبر سنی تو پہلے تو بڑے رنجیدہ ہوئے مگر پھر کہنے لگے کہ ریجھومل نے اپنی زندگی ایک اچھے عمل کے لیے دی ہے جس پر انھیں فخر ہے۔ ان کی موت کی خبر جب پورے ہندوستان میں پہنچی، تو ان کی شان میں اخبارات نے خوبصورت الفاظ میں ان کا نام لیا اور تعریف کے ساتھ خبریں صفحہ اول پر چھاپیں۔ ہر جگہ ان کی موت پر تعزیتی اجلاس منعقد ہوئے، شاعروں نے شاعری کی، سننے والوں کی آنکھوں سے اشک سیلاب کی طرح بہہ نکلے، نہ صرف سندھ مگر پورے ہندوستان میں ایک لاڑکانہ والوں نے ان کا ایک مجسمہ بنا کر شہرکی ایک اہم شاہراہ پر نصب کر دیا۔
ان کی موت کی خبر مہاتما گاندھی نے سنی تو انھوں نے ایک تعزیتی خط لکھ کر لاڑکانہ بھیجا جس میں اس کی سماجی خدمات کو سراہا۔ ہم لوگ کتنے احسان فراموش ہیں کہ اپنے محسنوں کو بھلا دیتے ہیں جس کی بڑی مثال یہ ہے کہ کچھ سال پہلے سماج دشمن عناصر نے ان کا مجسمہ اکھاڑ لیا ،جو ابھی تک نہیں مل پایا۔ ایک مرتبہ جب لاڑکانہ شہر میں ایک افسر ایس ڈی ایم بن کر آئے جنہوں نے جب ریجھو مل کی سماجی خدمات کے بارے میں سنا تو لاڑکانہ کا ایک پارک ان کے نام سے منسوب کر دیا۔مجھے یہ بات بہت یاد آتی ہے کہ ''جو قوم اپنے محسنوں اور ہیروزکو بھلادیتی ہے، آنے والا وقت انھیں بھلادے گا اور ایک دن ایسا آئے گا جب وہ تاریخ میں تاریک ہو جائیں گے'' ایک مرتبہ موئن جو دڑو میں کسی تقریب میں جب لاڑکانہ کے بارے میں بریفنگ دی گئی تو ریجھو مل کو ہیرو آف لاڑکانہ کا خطاب دیا گیا۔