انتقام لوگوں سے نہیں اپنے ’نفس‘ سے لیجئے

انتقام صرف اپنے نفس سے لینا چاہئیے جو رسوا کرا کے ہی چھوڑتا ہے، باقی سب کو بخش دینا چاہئیے۔


بندے کو بیچ میں سے نکل جانا چاہئیے اور ظالم اور خدا کو آمنے سامنے کر دینا چاہئیے۔ چپ سے بڑی بد دعا کوئی نہیں کہ پھر قدرت انتقام لیتی ہے اور اس کا انتقام بڑا سخت ہوتا ہے۔

میرے سامنے کوئی کچھ بول کر تو دکھائے، سالے کا منہ توڑ دوں گا۔ دوستوں کے مجمع میں بیٹھے ایک صاحب نے بڑے تنّفر سے کہا۔ آج کچھ دوست اکھٹے مل بیٹھے تھے اور باتوں باتوں میں بات حسد، کینہ اور ظلم سے ہوتی ہوئی انتقام تک جا پہنچی۔ عبداللہ بھی ایک جاننے والے کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہاں چلا آیا تھا۔ اسے اِن تمام باتوں سے بڑی وحشت ہو رہی تھی مگر اسے واپس انہی صاحب کے ساتھ گاڑی میں جانا تھا جو اُسے یہاں کھینچ لائے تھے۔ عبداللہ مسلسل گھنٹے بھر سے یہ 'پر مغز' گفتگو جھیل رہا تھا۔

باری باری سب لوگ بتا رہے تھے کہ جب کبھی کسی نے ان کے سامنے بولنے کی جرات کی یا انہیں نقصان پہنچانا چاہا تو انہوں نے کیسے کیسے بدلہ چکایا۔ پہلے صاحب خاموش ہوئے تو دوسرے گویا ہوئے،
جناب، اس کم تر معاشرے کے نیچ لوگوں کا علاج ہی یہ ہے کہ انہیں پاؤں کی جوتی میں رکھو۔ غریب کو فری کرواو تو سر پر چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہر آدمی کو اس کی اوقات کے مطابق ہی ڈیل کرنا چاہئیے۔

ایک اور صاحب نے تڑکہ لگایا،
نمک حرام اور احسان فراموشوں کے اس ملک میں جب تک آپ چھڑی ہاتھ میں لے کر اپنے ملازموں اور ملنے جلنے والوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں ہانکیں گے کام نہیں چلے گا۔

آخر میں عبداللہ کے دوست گویا ہوئے،
جناب، میرے منہ جب کوئی لگتا ہے تو میں تو پہلے ہی خبردار کردیتا ہوں کہ تو جانتا نہیں میں کون ہوں؟ جب میرا نمبر آئے تو رونا مت۔ چیڑ پھاڑ کے رکھ دوں گا۔

اچانک ایک صاحب کی توجہ عبداللہ کی جانب مبذول ہوئی جو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ وہ گویا ہوئے،
عبداللہ تم بھی تو کچھ کہو، تم بھی تو معاشرے میں ایک خاص مقام رکھتے ہو۔ ایک اسٹیٹس ہے تمہارا۔ تم ظلم کرنے والوں کے ہاتھ کیسے کاٹتے ہو؟

عبداللہ کچھ دیر خاموش رہا، ایک لمبی آہ بھری اور جواب دیا۔
بالکل ویسے ہی جناب، جیسے آپ لوگ کرتے ہیں۔ جب کوئی آدمی حد سے تجاوز کرجائے، جب کوئی ایسا تنگ کرے کہ آدمی کا انسانیت سے ہی یقین اُٹھ جائے، جب کوئی دشمنی کے اس معیار پر آجائے کہ ظلم کو شرمندگی ہوجائے۔ جب کوئی بھرے مجمع میں بہتان لگائے اور جھوٹ کے سہارے سوشل میڈیا پر آپ کو ذلیل کرنے کی مہم چلا دے تو غصہ تو آتا ہی ہے۔

ہاں، مگر تم انتقام کیسے لیتے ہو؟ وہ صاحب بولے۔
جی، جیسے آپ۔ میں بھی سب سے پہلے اپنے نفس سے پوچھتا ہوں۔ تو جانتا نہیں میں کون ہوں؟ تجھے معلوم نہیں میری اوقات کیا ہے؟ میں گندگی کے قطرے سے وجود میں آیا۔ عمر بھر پیٹ میں غلاظت، دماغ میں فتور اور سینے میں کینہ لئے گھومتا رہا اور کچھ ہی عرصے میں قبر میں پہنچ کر کیڑوں کی غذا بن جاؤں گا۔

جب منکر نکیر سوالوں کی چھڑی سے ہانکیں گے تو کدھر جائے گا؟ جب عذاب کے فرشتے منہ توڑیں گے تو کِسے پکارے گا؟ آج سوال در سوال پوچھ کے دوسروں پر رعب قائم کر رہا ہے، جرح کرتا ہے۔ جب مالکِ کُل نے سوال پوچھ لیا تو کہاں سے جواب لائے گا؟

پھر جناب، اندر سے آواز آتی ہے کہ
بھائی باز آجا۔ مظلوم مرجا، ظالم نہیں۔ معاف کردے، بھول جا، چھوڑ دے، بخش دے، جانے دے۔ آگے چل کہ زندگی پڑی ہے۔ اپنی فکر کر، مجمعے سے نکل، تنہائی میں آ۔ لوگ لذت ہوتے ہیں، لذتوں کا انجام بُرا ہے۔ تجھے تو اللہ کا ذکر کرنا ہے، تو وہ کر۔ جس کا ذکر کر رہا ہے وہ جانے اور بولنے والے۔

بندے کو بیچ میں سے نکل جانا چاہئیے اور ظالم اور خدا کو آمنے سامنے کر دینا چاہئیے۔ چپ سے بڑی بد دعا کوئی نہیں کہ پھر قدرت انتقام لیتی ہے اور اس کا انتقام بڑا سخت ہوتا ہے۔

جب کوئی زیادتی کرے تو یہ دیکھ لینا چاہئیے کہ اُس شخص کا اللہ سے کیا معاملہ ہے۔ اگر تو ٹھیک ہے تو یقین جانئے آپ کے تھوڑے سے نقصان کے عِوض اللہ اپنے دوست کو آپ سے حوالے نہیں کرے گا اور اگر اس کے معاملات وہاں بھی خراب ہیں تو خاموش ہوجائیں۔ انتظار کریں اور دیکھتے رہیں۔ جب قدرت کی لاٹھی حرکت میں آئے گی تو آپ کا حساب بھی چکا دے گی۔ بےشک اللہ ظالموں کو جڑوں سے کاٹ دیتا ہے۔

ہمیں تو انتقام صرف اپنے نفس سے لینا چاہئیے جو رسوا کرا کے ہی چھورتا ہے۔ باقی سب کو بخش دینا چاہئیے کہ اس بخشش کی سب سے زیادہ ضرورت مجھے ہی پڑنے والی ہے۔

عبداللہ کے دوست نے واپسی کا اشارہ کیا اور عبداللہ سب کو خاموش دیکھتا روانہ ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں