دن بھر دُھوپ میں بٹھانے کی سزا اونٹ نے مالک کو ہلاک کردیا

اونٹ کے گلے کی رسی کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی، ورنہ آس پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی یقینی طور پر اس کے طیش کی زد میں آجاتے۔


غ۔ع May 31, 2016
اونٹ کے گلے کی رسی کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی، ورنہ آس پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی یقینی طور پر اس کے طیش کی زد میں آجاتے۔:ـفوٹو : فائل

اونٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑا کینہ پرور اور غصیلا جانور ہے۔ اگر کسی سے بگڑ جائے تو اس کی صورت اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتا ہے اور موقع ملنے پر اس شخص کو نقصان پہنچائے بغیر نہیں رہتا۔ غالباً اسی لیے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کے لیے ' شُتر کینہ' (اونٹ جیسا کینہ رکھنے والا) کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ شُتر بانی سے وابستہ لوگ کہتے ہیں کہ اونٹ جس سے بغض باندھ لے اس کی جان کے در پے ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ یہ اپنے مالک کو بھی نہیں بخشتا۔

اونٹ کے ' ہاتھوں' انسان کی ہلاکت کا تازہ واقعہ بھارت کی ریاست راجستھان میں پیش آیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق راجستھان کے ضلع بارمر کی حدود میں واقع منگتا نامی گاؤں میں اونٹ نے اپنے مالک کو ہلاک کردیا۔ راجستھان کا بڑا علاقہ صحرا اور پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ ان علاقوں میں بسنے والے گاؤں دیہات اور قصبوں کی بیشتر آبادی شُتربانی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ مگر منگتا کا اُڑجا رام گزراوقات کے لیے بھیڑ بکریاں پالتا تھا۔ اس نے ایک اونٹ بھی پال رکھا تھا مگر آمدنی کا بنیادی ذریعہ گلہ بانی تھی۔

گذشتہ ہفتے کی بات ہے صبح کے وقت اُڑجارام کے پاس ملاقات کے لیے کچھ قریبی رشے دار آگئے۔ علاقائی روایت کے مطابق وہ ان کی مہمان نوازی میں جُت گیا۔ بیوی کو کھانا پکانے کی ہدایت کرنے کے بعد وہ مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی گفتگو کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ باہر غضب کی گرمی پڑ رہی تھی، اس لیے بیٹھک سے باہر نکلنے کی کسی نے ہمت نہ کی۔ مہمانوں کی خاطر مدارات اور ان سے تبادلۂ خیال کے دوران اُڑجام رام کو قطعی یاد نہ رہا کہ اونٹ رات ہی سے احاطے کے باہر بندھا ہوا ہے۔

اونٹ کی ایک ٹانگ کو دہرا کرکے اس پر رسی باندھ دی گئی تھی تاکہ وہ اُٹھ نہ سکے۔ اونٹوں کو عام طور پر اسی طرح باندھا جاتا ہے۔ ' بے چارہ' اونٹ کڑکتی دھوپ میں دن بھر بیٹھا رہا ( واضح رہے کہ ہندوستان میں ان دنوں سورج قہر ڈھارہا ہے اور گرمی نے ساٹھ سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے) شام کے سائے پھیلنے پر جب اُڑجارام مہمانوں کو رخصت کرنے باہر آیا تو اس کی نظر اونٹ پر پڑی۔

وہ اپنی بُھول پر افسوس کرتا ہوا فوراً اس کی طرف لپکا مگر اسے کیا خبر تھی کہ وہ اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جیسے ہی اونٹ کی ٹانگ رسی سے آزاد ہوئی اس نے شدید غصے کے عالم میں اپنے مالک پر حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر مہمان اس کی مدد کو آگے بڑھے مگر اونٹ کے غیظ و غضب نے انھیں دور کھڑے رہنے پر مجبور کردیا۔ اس دوران بپھرا ہوا جانور اپنے مالک کی گردن منہ میں دبوچ کر اسے زمین پر پٹخ چکا تھا اور اسے ٹانگوں سے رگید رہا تھا۔ پھر اس نے ادھ موئے شخص کو دانتوں سے بھنبھوڑنا شروع کردیا۔اسی اثنا میںگاؤں کے بہت سے لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔

انھوں نے بڑی کوشش اور حکمت عملی سے اڑجارام کو اونٹ کی وحشت کا مزید نشانہ بننے سے بچایا، جو اس وقت تک شدید زخمی ہوچکا تھا۔ اس کے سر اور جسم کے کئی حصوں سے خون بہہ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دم توڑ دیا۔ غنیمت یہ تھا کہ اونٹ کے گلے کی رسی کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی، ورنہ آس پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی یقینی طور پر اس کے طیش کی زد میں آجاتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں