ایثار

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’جنت اس شخص کی سعی کی مشتاق رہتی ہے جو اپنے مومن بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے


[email protected]

ISLAMABAD: حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''جنت اس شخص کی سعی کی مشتاق رہتی ہے جو اپنے مومن بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے'' نیز آپ نے کہا کہ ''اللہ کی راہ میں دینی بھائیوں سے ہمدردی کرنا،ان کی مدد کرنا انسان کی روزی میں افزائش کا موجب ہے'' علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ ''ہر بستی کے اہل ثروت کا فرض ہے کہ وہ فقرا اور غربا کی معاشی زندگی کے کفیل ہوں اور اگر بیت المال کی آمدنی سے ان غربا کی معاشی کفالت پوری نہ ہوتی ہو تو سلطان ان ارباب دولت کو اس کفالت کے لیے مجبورکرسکتا ہے اور ان کی زندگی کے اسباب کے لیے کم ازکم یہ انتظام ضروری ہے کہ ان کی حاجات کے مطابق روٹی مہیا ہو، پہننے کے لیے گرمی اور سردی دونوں لحاظ سے لباس فراہم ہو اور رہنے کے لیے ایک ایسا مکان ہو، جو ان کو بارش،گرمی، سردی، دھوپ اور سیلاب جیسے حوادث سے محفوظ رکھ سکے'' حضرت علیؓ کا قول ہے ''اللہ تعالیٰ نے اہل دولت کے اموال پر ان کے غریب بھائیوں کی معاشی حاجت کو بدرجہ کفایت پورا کرنا فرض کردیا ہے۔ پس اگر وہ بھوکے، ننگے یا معاشی مصائب میں مبتلا ہوں گے، محض اس بنا پر کہ اہل ثروت اپنا حق ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن اس کی باز پرس کرے گا اور اس کوتاہی پر ان کو عذاب دے گا''

غریبوں کی حاجت روائی کی دین میں جو اہمیت ہے، اس کا پورا اندازہ اس حدیث سے ہوسکتا ہے کہ ''وہ شخص مومن نہیں جو خود تو سیر ہوکرکھا لے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوک سے کروٹیں بدلتا رہے'' ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک انسان سے کہے گا کہ میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ بندہ جواب دے گا کہ خدایا ! میں تجھے کیسے کھلا سکتا ہوں۔ تُو تو سارے جہاں کا پالنہار ہے۔

ارشاد ہوگا کہ کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تُو نے اسے کھلانے سے انکارکردیا تھا۔ جو دین ایک حاجت مند کی بھوک پیاس کوخود اللہ کی بھوک پیاس سے تعبیرکرتا ہو،اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے یہاں غریبوں اور ناداروں کی حاجت روائی کی کیا اہمیت ہوگی۔

خدا پرستی ایک معیاری مومن کو بندگان خدا کے حق میں خداترسی سکھاتی ہے۔ وہ خود تکلیف اٹھا کر خلق خدا کو راحت وآرام پہنچاتا ہے۔ اپنے لیے شمع کی مانند جلتا ہے لیکن دوسروں کو روشنی پہنچاتا ہے۔ دوسروں کے لیے جیتا ہے۔

ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا: ''اے عائشہؓ! کبھی کسی غریب مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد نہ پھیرنا۔ اسے کچھ ضرور دے دینا چاہے چھوارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اے عائشہؓ! غریبوں سے محبت رکھو، ان کو اپنے قریب کرلو، ایسا کروگی تو اللہ بھی تمہیں اپنے قریب کرلے گا'' غربا و فقرا اللہ کی قربت اور حصول جنت کا وسیلہ ہیں۔ غرض یہ کہ ایک مومن کی زندگی کا مقصد اور غرض وغایت، دکھی انسانیت کی خدمت اوران کے حق میں رحمت و محبت ہے ۔ جو لوگ مخلوق خدا سے فرش زمین پر مہربانی سے پیش آتے ہیں خدا ان سے عرش بریں پر رحم وکرم کی روش اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

نبی اکرمؐ ایثاروسخاوت کا بہترین نمونہ تھے۔ آپ کے گھر سے کوئی سائل محروم نہیں گیا۔ اپنے پاس کچھ موجود نہ ہوتا تو قرض لے کر حاجت مند کی حاجت پوری کرتے۔ ایک بار آپؐ نے جانور ذبح کیا اورگوشت تقسیم کی غرض سے گھر بھیج دیا۔کچھ دیر بعد آکر معلوم کیا۔ کتنا تقسیم ہوا اور کتنا بچا۔ بتایا گیا کہ عمدہ قسم کا گوشت تقسیم ہوگیا ہے اور خراب قسم کا گوشت باقی رہ گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ''جو تقسیم ہوگیا ہے وہ رہ گیا ہے اور جو باقی بچا، حقیقت میں وہ چلا گیا ہے۔''

صحابہؓ بھی جذبہ ایثار سے سرشار تھے اور اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقعے پر آپؐ نے مسلمانوں سے مالی اعانت طلب کی۔ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی منافقین خود بھی مالی اعانت، معاونت اور شرکت سے جی چرانے لگے اور دوسروں کو بھی روکنے لگے، لیکن جماعت مومنین نے رسول اللہؐ کی آواز پر اپنی جان اور اپنا مال آپؐ کے قدموں میں لا ڈالا۔ اس موقعے پر سب سے زیادہ مالی امداد حضرت عثمان غنیؓ نے کی۔ آپ نے ایک ہزار اشرفیاں، دو سو اوقیہ چاندنی، سو گھوڑے اور 9 سو اونٹ پیش کیے۔

جب حضورؐ کے سامنے یہ چیزیں آئیں تو خوشی سے آپؐ کا چہرہ دمکنے لگا۔ آپؐ اشرفیوں کو دونوں ہاتھوں سے الٹتے پلٹتے جاتے تھے اور ان کے حق میں دعا کرتے جاتے تھے ''اے اللہ! میں عثمانؓ سے راضی ہوں تُو بھی اس سے راضی ہو جا۔'' ان کے علاوہ اور لوگوں نے بھی اپنی بساط سے بڑھ کر امداد کی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے مال میں سے نصف لاکر بارگاہ نبویؐ میں پیش کردیا۔ حضرت ابو بکرؓ جو کچھ گھر میں تھا سب ہی لے آئے۔ اور جب رسول اللہؐ نے سوال کیا کہ گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے۔

تو انھوں نے نہایت مختصر جواب دیا کہ ''گھر والوں کے لیے خدا اور خدا کا رسولؐ کافی ہیں۔'' یہ تو مالدار لوگوں کا حال تھا۔ ان کے مقابلے میں غربا کی یہ کیفیت تھی کہ ایک صحابی ابوعقیل انصاریؓ نے رات بھر کھیت میں پانی دے کر چار سیر کھجور خریدے۔ دو سیر بچوں کے لیے رکھ لیے جو بالکل بھوکے تھے اور دو سیر حضورؐ کی خدمت میں پیش کردیے۔ آپؐ اس ایثار سے بے حد خوش ہوئے اور کھجوریں جمع شدہ مال پر رکھ دیں۔ ایک دفعہ حضرت عثمانؓ نے قحط کے زمانے میں باہر سے آنے والا غلہ دوگنے، چوگنے منافع کی پیشکش کرتے ہوئے خریدا اور بلامعاوضہ تقسیم کردیا۔ حضرت عثمانؓ نے تجارت کے ذریعے اتنی دولت کمائی کہ پورے عرب میں آپ کے مقابلے کا کوئی دولتمند نہ تھا۔ آپ عرب کے رئیس التجار تھے۔

انفاق فی سبیل اللہ آپ کی فیاضی، دریا دلی کا مرکز و محور تھا۔ چنانچہ آپؓ خود فرماتے ہیں ''جس وقت میں نے منصب خلافت قبول کیا تھا میں پورے عرب میں اونٹوں اور بکریوں کا سب سے بڑا مالک تھا۔ آج میرے پاس ایک بکری اور ایک اونٹ بھی نہیں سوائے ان دو اونٹوں کے، جو حج کے لیے ہیں۔'' ایک دفعہ ایک جہاد میں ناداری اور مفلسی کے باعث مومنین کے چہرے اداس تھے اور منافقین ہشاش بشاش ہر طرف اکڑتے پھرتے تھے۔ اسی وقت حضرت عثمانؓ نے چودہ اونٹوں پر سامان خورو نوش لدوا کر آنحضرتؐ کے پاس بھیجا کہ اس کو مسلمانوں میں تقسیم فرمادیں۔ حاکمؒ نے بہ روایت ابوزرعہؒ حضرت ابو ہریرہؓ سے نقل کیا ہے آپؐ فرماتے تھے ''حضرت عثمانؓ نے نبیؐ سے دو دفعہ جنت خرید کی۔ ایک دفعہ جب چاہ رومہ کو خریدا اور دوسری دفعہ جب غزوہ تبوک (جیش العسرۃ) کا سامان مہیا کیا۔''

ہمارا ماضی ایثار اور غمخواری کی روشنی سے منور تھا مگر حال خود غرضی اور بے مہری کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہمارا یہ انداز فکر اسلامی تعلیمات کی عین ضد ہے۔ مسلمان کے لیے یہ ہرگز روا نہیں کہ اپنے دینی بھائیوں کی مشکلات اور پریشانیوں سے بے نیاز رہے اور بے اعتنائی برتے اور اس کی حیثیت محض ایک تماشائی کی سی ہو۔ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں اپنے بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ ان کے ہمدم بن کر قدم قدم ساتھ ساتھ چلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں