قومی تہذیب کی تشکیل کے فکری پہلو دوسرا حصہ
اس سیاق و سباق اور صدیوں کے تسلسل میں پیش کیے گئے نتائج کی روشنی میں دیکھا اور سمجھا جانا
مشین اور شہد کی مکھی: ٹھوس مادی بنیادوں پر مرتب ہونے والی انسانی تاریخ میں جرثومے کی ارتقائی شکل وحشی و جنگلی انسان کی جانب سے روزی کی خاطر جدوجہد میں اشتراک عمل کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے سماج کی بنیادیں ڈالے جانے اور معاشی اکائی کے ظہور ہونے کو حتمی و یقینی طور قبول کیے جانے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
مزیدار بات یہ کہ اس قسم کے تخیلاتی نظریات میں لاکھوں فروعی اختلافات کے باوجود ان کی اساس صرف اور صرف قیاسات و مفروضات پر مبنی ہیں اور انھی مفروضات و قیاسات پر مبنی تاریخ کی روشنی میں مرتب شدہ مادہ پرست نظریات نے فکر انگیز طور پر اقوام عالم کے ہاں رائج نظام معاشرت اور نظام تمدن کو اپنے زیرنگیں کیا ہوا ہے۔ جس کے حتمی و لازمی نتائج میں موجودہ دنیا میں ترقی کے نام پر تذلیل انسانیت کے عملی مظہر کے طور پر حیات انسانی ہی سب سے ارزاں بن کر رہ گئی ہے۔
جو کہ اقوام عالم میں رائج استبداد و استعمار کی بھیانک و خوفناک شکل کو نہ صرف بیاں کرنے کے لیے کافی ہے، بلکہ ان نظریات کی خدمت انسانیت کے نام پر ہوتے رہنے والی تذلیل کی حقیقت کو سمجھانے کا بہت سارا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور ان نظریات پر کھڑے کیے گئے معاشروں میں انسان کی اوقات صرف لوہے، پیتل، اسٹیل اور پلاسٹک سے بنی مشینوں کو چلانے والی گوشت پوست سے بنی احساس رکھنے اور بولنے کے باوجود زندہ رہنے کے لیے خاموشی اختیار کیے رکھنے والی مشنری سے کچھ زیادہ نہیں رہ جاتی۔ یہاں تک کہ عالم انسانیت کو قومی تشخص کے لبادے میں تقسیم کرنے کے نتیجے میں رائج استبداد نے تو انسانوں سمیت شہد کی مکھی تک کو بھی بیگار کیمپ نما فارمز میں شہد بناتے رہنے کی استبدادی تابعداری پر مامور کیا جا چکا ہے۔
یکساں رجحانات و میلانات: ''القرآن'' نے انسان کی احسن تخلیق کی سوچ کے عکاس استبداد و استعمار سے پاک انتظام معاشرت و نظام تمدن کے نفاذ کی بابت معلوم و قبل از تاریخ کے مختلف ابتدائی و اختتامی انسانی ارتقائی مرحلوں کے خوبصورت ملاپ کو بنی اسرائیل نامی انسانی گروہ کے مصر میں وارد ہونے اور وہاں سے ان کے انخلا کے بعد ارض فلسطین پر تاریخ کی پندرہ صدیاں گزارنے کو جس مختصر و دلنشیں پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی سچائی خود عالم انسانیت کے موجو د ہ انتہائی جدید ارتقائی مرحلے انتظام معاشرت اور نظام تمدن میں مادہ پرست فطرت و جبلت کے عین مطابق رائج یکسانیت کے مظہر ترجیحات و میلانات قابل غور پہلو ہیں۔
مستحکم قومی تشخص، استبداد کی علامت: ''القرآن'' نے معلوم تاریخ میں دو ہزار سال قبل مسیح اور پانچ سو عیسوی برسوں پر مشتمل 25 صدیوں کے تسلسل میں انسان کے مسجود ملائکہ و صاحب علم الاسماء ہونے کو عقلی بنیادوں پر سمجھانے کے لیے بنی اسرائیل کے ارتقائی مرحلے کے انسانی گروہ سے متعلق عالم انسانیت کے ارتقائی مراحل کی تشکیل و تکمیل میں ان کی باہمی برتری کی کشمکش کی صورت میں انسان کے مادہ پرستی کی جانب راغب ہونے کے ٹھوس مادی و عقلی اسباب کو بے پردہ کرتے ہوئے انسانوں کے ہاتھوں دیگر انسانی گروہوں کے مفتو ح، محکوم و معتوب ہوتے رہنے کو جس انداز میں پیش کیا ہے۔
تاریخ میں فرعونی استبدادی تہذیب کے خاتمے کے بعد کی صدیوں کے حالات میں بابلی استبداد کا ارض فلسطین تک، استبداد فارس کا اسپارٹا، ایتھنزو یونان تک اور دیوتائی تسلط کا سامان لیے یونان کی، مصر اور فارس تک جارحانہ وسعت حاصل کر لینے کے بعد مادہ پرستانہ انداز میں اختتا م پذیر ی کی جا نب ان تہذیبوں کا گامزن ہونا بھی قابل غور و فکر نکات ہیں، جب کہ ارض فلسطین کے یونانیوں کے بعد رومیوں کے زیر تسلط آنے کے مرحلے تک معلوم تاریخ کی بزرگ و عمر رسیدہ تہذیب چائنہ بھی استبدادی عروج کی علامت دیوار چین کی تعمیرکا ارتقائی مرحلہ مکمل کر کے صدیوں کے تسلسل میں استبدادی زوال و اختتام پذیری کے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔
اس سیاق و سباق اور صدیوں کے تسلسل میں پیش کیے گئے نتائج کی روشنی میں دیکھا اور سمجھا جانا ممکن ہوا کہ معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کو ہر قسم کی جواب دہی سے مبراء قرار دینے کی بنیادوں پر مضبوط و مستحکم کیے گئے قومی تشخص ہمیشہ استبداد ہی کو جنم دیتا آیا ہے جب کہ موجودہ انسانی ارتقائی مرحلے پر مادی طور قیاسی و مفروضی تاریخ کی روشنی میں مرتب کیے گئے نظریات پر مبنی انتظام معاشرت و نظام تمدن جدید استبداد کو رحم مادر جیسا سکون و پرورش فراہم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ موجودہ استبدادی ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والا امریکی قومی تشخص اس کی بہترین مثال ہے۔
استبداد کا مقابلہ اور بنی اسرائیل کا مقصد: معلوم تاریخ کی انھی صدیوں میں استبداد کو دعوت مبارزت دیتے ہو ئے جہاں کرہ ارض کے دیگر خطوں کے چین میں کنفیوشس، لاؤتسے، ہندوستان میں مہاتما گوتم بدھ، فارس میں زرتشت، ایتھنز میں سقراط یونان میں فیثا غورث تو ملتے ہیں لیکن ارض فلسطین پر مبلغین، مصلحین، محققین و کامل مدبرین (انبیائے کرام علیہ و السلام) کی مبعوثیت کا ایک متواتر سلسلہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ اپنی جداگانہ انفرادیت رکھنے کے باوجود عالم انسانیت کو استبداد سے تحفظ و سکون حیات فراہم کرنے اور انھیں ان کی زند گی کے حقیقی آفاقی و الہامی مقصد کی جانب گامزن کرنے میں مدد فراہم کرنے کی غرض سے ایک معتدل، منصفانہ و قابل عمل مساوات کے مظہر مضبوط و مستحکم قومی تشخص (بنی اسرائیل) کی بنیادوں پر مضبوط مرکزی حکومت کے قیام کے لیے اپنا انقلابی کردار ادا کرتے ہوئے ملتے ہیں۔
اصل کام، مشکل امتحان: بنی اسرائیل کے محققین، مفکرین اور منتظمین (انبیائے کرام ؑ) نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مافوق المادہ و مافوق الطبیعیات کو مسخر کرنا تو آسان سی بات ہے، لیکن حضرت انسان کی عقل اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا اصل امتحان تو ''مِن ذُریتِی'' کی تحقیقات کے جواب میں حاصل کردہ ''لاینال عہدالظالمین'' کی بنیادی اساس پر مبنی انتظام معاشرت قائم کرنے اور نظام تمدن کے اطلاق سے ہی ہوتا ہے۔
(جاری ہے)