پہنے ہوئے ہیں دستانے

غیر مسلم، مسلمانوں کو تمام ترکمزوریوں کے باوجود شکست نہیں دے سکے تھے



امت مسلمہ کا اتحاد ایک ایسا ادھورا خواب ہے اور ادھورا ایجنڈا ہے کہ جس پر ایک صدی مکمل ہونے کو ہے عمل درآمد تو دورکی بات ہے صرف سوچ بھی مکمل نہیں ہوسکی، ہماری تاریخ ملک پاکستان بننے سے کچھ پندرہ بیس سال پہلے شروع ہوئی ہے جب یہ سوچ پیدا ہوئی کہ برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کا تشخص خطرے میں ہے۔کیونکہ مسلمانوں کا وہ سنہرا دور ختم ہوا جہاں برائے نام مسلمان ہونے کے باوجود مسلمان شہنشاہ رواداری اور مسابقت کے اصول کے تحت ہر قوم کے ساتھ جو ہندوستان میں بستی تھی برابری کا سلوک کررہے تھے اور انصاف تمام تر برائیوں کے باوجود ہورہا تھا جان، مال، عزت و آبرو سب کی محفوظ تھی۔

غیر مسلم، مسلمانوں کو تمام ترکمزوریوں کے باوجود شکست نہیں دے سکے تھے۔ مسلمانوں کو سات سمندر پار سے آنے والی ایک قوم نے جو مسلمانوں کے بارے میں متعصب تھی اور ہے نے آکر وسائل کے تحت شکست دی تھی اور غیر مسلموں نے ان کے ''سہولت کار'' کے فرائض انجام دیے تھے۔ جس ہندوستان کو اب ''اکھنڈ بھارت'' بنانے کا خواب جو لوگ دیکھ رہے ہیں اگر انھوں نے تعصب کی عینک اتار دی ہو تو غور سے دیکھیں، ہندوستان کو تقسیم کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھے۔

جنھوں نے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ختم ہوجائیں اور ہندوستان میں صرف ہندو رہ جائیں۔ وہ تو مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقوام کو بھی جو بھارت کے جائز وارث ہیں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اندرا گاندھی نے سکھوں کے ساتھ کیا کیا اور اس کی سزا پائی۔ اس کے بعد پاکستان کے قیام کا مرحلہ درپیش تھا جو بدقت تمام طے ہوا اور ہندوستان کے رہنے والے دو حصوں اور بعد میں تین حصوں بلکہ ملکوں میں تقسیم ہوگئے۔ بنگال کی تاریخ شاید ہے کہ وہ خوں آشام علاقہ ہے۔ حیدر علی، ٹیپو سلطان اور پھر پاکستان کے ساتھ اس علاقے نے ایک سا سلوک کیا۔ یہ بھی درست ہے کہ اس میں غلطی پاکستان کے نا اہل حکمران یحییٰ خان کی بھی تھی اور اس کے بعد سیاسی غلطی بھی جس کو کوئی مانے گا اور کوئی انکار کرے گا۔ اپنی اپنی پسند ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان سے جن ملکوں نے بہت برادرانہ تعلقات رکھے وہ، وہ لوگ نہیں تھے جن سے پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں جب کہ وہ تو پاکستان کی سرحدوں کو ہمیشہ کمزور کرنے کے خواب دیکھتے اور موقع ملنے پر عمل بھی کرتے رہے، خصوصاً ایک سرحد پر دونوں جانب کے صدیوں کے تجارتی روابط کی وجہ سے لوگ ہم زبان بھی تھے لہٰذا اس جانب سے پاکستان کو ہمیشہ مصیبتوں کا سامنا رہا۔ ''ڈیورنڈ لائن'' ایک مستقل فساد کا بہانہ تھا جسے پڑوسی ملک کے بادشاہ، سیاست دان اور پاکستان کے کچھ سیاست دان جن کا تعلق اس علاقے سے تھا جو اس ملک کی سرحدوں کے ساتھ ملتا ہے نے خوب خوب استعمال کیا اور آخر کار دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں!

ایران کسی حد تک، انڈونیشیا بہت حد تک، سعودی عرب بہت حد تک پاکستان کے دوست رہے اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد یہ تعلقات اور مثالی اور دیرپا ہوگئے۔ اس پر زیادہ شور نہیں مچانا چاہیے کہ یہ کسی فرد واحد کا کارنامہ ہے۔ حکومت کسی ایک فرد کا نام نہیں ہوتا اس میں بہت ذہن ہوتے ہیں اور اس کی کامیابی میں ایک TEA BOY سے لے کر وزیراعظم اور صدر تک کا حصہ ہوتا ہے۔

سعودی عرب پاکستان کا ایک بہترین دوست تھا۔ لفظ تھا پر اعتراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ابھی ثابت ہوجائے گا۔ شاہ فیصل کو پاکستان سے بہت محبت تھی اور اس محبت کی سزا ان کو بھی ''خفیہ ہاتھوں'' نے دیدی جس کے بعد کسی حکمران کو ایسی محبت کی دوبارہ ہمت نہیں ہوئی۔

یہ پہلی دہشت گردی تھی جس میں اس خاندان کے ایک نوجوان کو استعمال کیا گیا تھا شاہ فیصل کو شہید کرنے کے لیے جس کے اسباب پر روشنی کبھی نہیں ڈالی گئی، کبھی نہیں ڈالی جائے گی، کیوں کہ یہ اسرائیل اور امریکا کا کامیاب آپریشن تھا۔بات کسی اور طرف نہ نکل جائے تو سعودی عرب کی طرف واپس آتے ہیں۔ یمن کے معاملے میں سعودی حکومت کا خیال تھا کہ پاکستانی فوج وہاں جاکر سعودی اقتدارکے لیے لڑے گی ، مگر پاکستان کے سپہ سالار کے تحفظات کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ حکمران تو پوری پاکستانی قوم کو سعودی عرب پر قربان کرنے کو تیار ہیں کیوں کہ حالات پاکستان کے ہماری بات کی گواہی دے رہے ہیں۔

شاہ فیصل (شہید) اﷲ ان کے درجات بلند فرمائے۔ حقیقتاً امت مسلمہ اور پاکستان کا درد رکھتے تھے جس کا عملی مظاہرہ انھوں نے کیا اور دشمن اسلام نے ان کو اس کے بدلے شہادت عطا کردی۔ اب سعودی حکمرانوں کا کیا رویہ ہے اس کا اظہار بہت واضح ہے اور یہ نوشتہ دیوار نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں مکمل سمجھنا چاہیے اور اس پر ہی اب دار و مدار ہے تمام معاملات کا کہ کیا ہوگا۔

حکومتی پالیسی ہے کہ بھارت اور افغانستان کو کچھ نہیں کہنا ہر سہولت دینی ہے، ایران کو پریشان کرنا ہے تاکہ وہ برادرانہ تعلقات سے پرہیزکرے جو اس نے نہیں کیا اس کے باوجود کہ پاکستان میں بے شمار فرقہ وارانہ فسادات اور جھگڑے کروائے گئے ۔

بھارت کا ''ٹی بوائے'' وزیراعظم سعودی عرب کا کامیاب دورہ کر کے واپس کرچکا ہے جس میں اس نے سعودی عرب کا اعلیٰ سول اعزاز حاصل کیا۔ ملازمتوں کے بھارتیوں کے لیے معاہدے کیے اور بہت سے ملک کے لیے فائدے کے کام کیے ۔ بھارت کو لائسنس دے دیا کہ وہ کشمیر میں جو چاہے کرے سعودی عرب اس کا دوست ہے وہ افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے کچھ بھی کرے وہ اس کا دوست رہے گا۔

بھارت کا ''زندہ جاسوس'' موجود ہے افغانستان کا جاسوس پکڑا جاچکا ہے پاکستان کی حکومت خاموش ہے، سارے وزیر ''پانامہ لیکس'' سے حکومت کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں رانی مکھرجی نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ''تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے'' یہ ایک غیر مسلم اداکارہ نے کہا ہے اور اس ملک کی خاتون نے جس کے وزیراعظم کو یہ اعزاز سعودی عرب نے دیا ہے۔ کیا ہوگا اس کے ساتھ اور اس کے خلاف یہ 9 اپریل کو مجھے نہیں معلوم لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ بھارت کی ایک اداکارہ کا حوصلہ اور عزم کتنا سچا ہے۔ پاکستانی مسلمان حکمران جو مردم خوف کا شکار ہے کہ کہیں ''اقتدار ہاتھ سے نہ نکل جائے'' نہ گجرات، نہ سمجھوتہ ایکسپریس، پاکستان کے حکمران پٹھان کوٹ کے بارے میں فکر مند ہیں ۔

ہم نے پڑھا تھا کہ مسلمان کے لیے مقولہ سب سے بہتر ہے کہ ہر ملک، ملک ماست کہ ملک خدا است(کہ دنیا کا ہر ملک میرا ملک ہے کہ ہر ملک خدا کا ملک ہے) کہاں گئے وہ لوگ کہ جو سروں کو ہتھیلی پر رکھ کر پھرا کرتے تھے، ملک کے لیے کہ جو شہید ہوتے تھے تو شیروانی کے نیچے ان کی قمیض میں پیوند ہوتے تھے حالانکہ وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے شاید وہی آخری لفظ تھے دعا کے جو خدا نے قبول فرمائے اور ملک سلامت ہے جہاں ہے جتنا ہے جیسا ہے اور وہ لفظ تھے ''اﷲ پاکستان کی حفاظت کرے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں