آصف علی زرداری خاموش کیوں ہیں
پانامہ لیکس پر اگر کسی پارٹی لیڈر نے ابھی تک لب کشائی نہیں کی، تو وہ آصف زرداری ہیں۔
پانامہ لیکس پر اگر کسی پارٹی لیڈر نے ابھی تک لب کشائی نہیں کی، تو وہ آصف زرداری ہیں۔ ان کی یہ خاموشی اتنا طول کھینچ گئی ہے کہ بجائے خود خبر بن گئی ہے۔
ادھر پانامہ لیکس پر حکومت مخالف مہم میں پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن پیش پیش ہیں، لہٰذا پارٹی کے باہر ہی نہیں، اس کے اندر بھی یہ بحث زوروں پر ہے کہ کیا انکو پارٹی کے گاڈفادر آصف زرداری کی آشیرباد حاصل ہے یا نہیں۔ پہلی رائے یہ ہے کہ نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان 'میثاق جمہوریت' کی تجدید ہو چکی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن ہی نہیں، آصف زرداری بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پانامہ لیکس پر 'مفاہمت کی سیاست' کے بجائے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ ن لیگ کو پوری طرح سے ایکسپوژ کیا جائے۔ یوں عملی طور پر پیپلزپارٹی کی حکومت مخالف موجودہ مہم پر پیپلزپارٹی دو کمیپوں میں بٹ چکی ہے۔
پہلے کیمپ میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی خورشید شاہ، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور وزیراعلیٰ سند ھ قائم علی شاہ کے نام نمایاں ہیں۔ اس کیمپ کے پچھلے ایک مہینے کے اخباری بیانات کا سرسری سا مطالعہ بھی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ پانامہ لیکس پر حکومت مخالف مہم کا ٹمپریچر ایک خاص سطح سے اوپر لے جانے کے حق میں نہیں۔ ابتدا میں،جب پانامہ لیکس پر حکومت مخالف مہم شروع ہوئی تو خورشید شاہ روزانہ ہی یہ یاددہانی کرانا ضروری سمجھتے تھے کہ پیپلزپارٹی نوازشریف سے وضاحت مانگ رہی ہے، استعفا نہیں مانگ رہی۔
یہ تکرار اس وقت تھمی، جب چیئرمین بلاول بھٹو نے کوٹلی جلسہ عام میں واضح طور پر نوازشریف سے استعفا کا مطالبہ کر دیا۔ تاہم اب بھی بلاول بھٹو اور اعتزاز احسن کے برعکس ان کے لب و لہجہ میں حکومت مخالف جذبات کی آنچ نہ ہونے کے برابرہے۔ رضا ربانی نے پانامہ لیکس پر حکومت مخالف مہم میں پہلے روز ہی کسی 'سازش' کی بو سونگھ لی، اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ آئین ا ور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پانامہ لیکس کے فوراً بعد ہونے والے سینیٹ کے پہلے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کی تقریر کو بھی انھوں نے اجلاس کے طے شدہ ایجنڈا کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ یہی نہیں، متحدہ اپوزیشن کے سینیٹ اجلاس کے بائیکاٹ کو ناکام کرنے کی بھی سعی کی۔ بہرحال کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بحیثیت چیئرمین سینیٹ ان کے منصب کا تقاضا یہی ہے کہ 'آئین اور جمہوریت' کو بچانے کے لیے دو بڑی پارٹیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ادھر، قائم علی شاہ کے ساتھ نوازشریف نے پچھلے تین سال میں جو سلوک روا رکھا ہے، اس کے بعد وہ ذاتی طور پر نوازشریف حکومت کے لیے کوئی نرم گوشہ تو نہیں رکھتے، لیکن سندھ کی صوبائی سیاست میں نوازشریف کے ساتھ ان کا براہ راست ٹکراو بھی نہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ نوازشریف حکومت کو کرپشن کے الزامات پر رگیدا تو جائے کہ اس سے سندھ حکومت پر کرپشن کے الزامات کی شدت میں کمی آ جائے گی، لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ گر ہی جائے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ صرف سندھ حکومت کی نہیں، سندھ پیپلزپارٹی کی سوچ بھی یہی ہے۔
دوسرے کیمپ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نمایاں ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ آصف علی زرداری کی ن لیگ کے ساتھ مفاہمت کی سیاست نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا قریب قریب خاتمہ کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی، جو برے سے برے حالات میں بھی، پنجاب میں دوسرے نمبر پر ہوتی تھی، اب کسی شمار قطار میں نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پیپلزپارٹی کا ہے، لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی کو کوئی اپوزیشن پارٹی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی کو ن لیگ کی بی ٹیم ہی سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ اسکے، کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، جس نے پنجاب میں پارٹی کو بدنامی کی نشان بنا دیا ہے۔
خدا خدا کر کے پانامہ لیکس کی وجہ سے ن لیگ ایکسپوز ہو رہی ہے، اب اگر اس میں بھی پیپلزپارٹی اسکو ریسکیو کرتی ہے تو ن لیگ پر کرپشن کے الزامات کا بوجھ بھی پیپلزپارٹی کے سر پر آ گرے گا، اور وہ اس کے نیچے بالکل دب کے رہ جائے گی۔ پھر، پانامہ لیکس ن لیگ کے خلاف فوج اور آئی ایس آئی کی سازش ہے، نہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی، لہذا پیپلزپارٹی کو ن لیگ کی بدنامی میں ساجھے دار بننے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ خورشید احمد شاہ کے برعکس اعتزاز احسن کے لب و لہجہ میں پنجاب کے روایتی اپوزیشن لیڈر کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اعتزاز احسن ہی نے بلاول بھٹو زرداری کو اس امر پر قائل کیا ہے کہ پانامہ لیکس ایشو پر پیپلز پارٹی کو حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے، اور یہ بھی اعتزاز احسن ہی ہیں، جنھوں نے آصف علی زرداری کو اس امر پر قائل کیا کہ وہ لندن میں نوازشریف کے ساتھ فوٹو سیشن نہ کریں۔ اس فوٹو سیشن کو مزید ناممکن بنانے کے لیے بلاول بھٹو کی طرف سے ٹویٹ بھی کرا دی گئی کہ لندن میں آصف علی زرداری، نوازشریف سے ملاقات نہیں کر رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ ملاقات نہیں ہو سکی تھی، اور اس ضمن میں جو خبریں چلائی گئیں، ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
پانامہ لیکس حکومت مخالف مہم پر پیپلزپارٹی میں دو کیمپوں کی موجودگی اپنی جگہ، لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آصف علی زرداری کی خاموشی کے پیچھے صرف یہی ایک عامل نہیں ہے۔ حقیقتاً آصف علی زرداری اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ قومی سطح پر بلاول بھٹو کی قیادت اور سیاست کے لیے چیلنج عمران خان نہیں، بلکہ نوازشریف اور ان کی فیملی ہے۔ اندرون سندھ، جو پیپلزپارٹی کی انتخابی طاقت کا مرکز ہے، پی ٹی آئی، بلاول بھٹو کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ بلاول بھٹو کے لیے مسئلہ پنجاب میں ہے، جہاں پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے۔
یہ وہی پنجاب ہے، جہاں کبھی پیپلزپارٹی کا پھریرا لہراتا تھا۔ پیپلزپارٹی نے جب بھی وفاقی حکومت بنانے میں کام یابی حاصل کی، پنجاب کے بل پر ہی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ ہو، یا آصف زرداری کی صدارت، پنجاب کا کردار اس میں کلیدی رہا ہے۔ لہٰذا اگر مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری بھی قومی سطح پر کوئی کردار ادا کر نا چاہتے ہیں، تو انکو پنجاب میں پیپلزپارٹی کو اپنے پاوں پر کھڑا کر نا ہو گا۔ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں اس امر کی نشاندہی کر دی گئی تھی کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان 'مفاہمت کی سیاست' اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے۔
لہٰذا، اب اس میں آصف علی زرداری کے لیے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ وہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ نوازشریف حکومت، بھارت کے ضمن میں جن اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو لے کر چل رہی ہے، وہ فوج کے لیے ناقابل قبول ہی نہیں، ناقابل برداشت بھی ہیں۔ چنانچہ وہ فوج کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی، نوازشریف حکومت کی بھارت نواز پالیسیوں سے متفق نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری عوامی جلسوں میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے جو لتے لے رہے ہیں، یہ بغیر کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کے نہیں۔ اب جب کہ پانامہ لیکس کے نتیجہ میں نوازشریف حکومت کی پوزیشن روز بروز کمزور ہو رہی ہے، تو آصف زرداری نے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا ہے۔
ان کو معلوم ہے کہ اس لڑائی کے پیچھے ایک اور لڑائی بھی ہے۔ ادھر بلاول بھٹو نے بھی موقع ضایع نہیں کیا اور ان دنوں نوازشریف کے خلاف وہی زبان استعمال کر رہے ہیں، جو کبھی شہبازشریف، آصف زرداری کے خلاف استعمال کیا کرتے تھے۔ اپنی اس طرح کی تقریروں کے آخر میں وہ یہ نعرہ لگوانا نہیں بھولتے کہ 'مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو۔' یہ نعرہ نہیں، کسی کے لیے پیغام بھی ہے۔
یہ درست ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے بعض قائدین اب بھی پیپلزپارٹی کی اپوزیشن پر شک کرتے ہیں، اس طرح ن لیگ کے بعض قائدین کو اب بھی یقین ہے کہ پیپلزپارٹی جلد یا بدیر اس کے ساتھ آ ملے گی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ پوزیشن پر شکوک و شبہات کے یہ سایے اس لیے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے سیاسی مفادات بہت عرصے بعد ن لیگ کے سیاسی مفادات سے علیحدہ ہوئے ہیں۔ حکومت کے خلاف پیپلزپارٹی کی مخالفانہ مہم پر سندھ پیپلزپارٹی کے تحٖفظات اپنی جگہ، لیکن جو بات ان کی سمجھ میں نہی آ رہی، وہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری کا موجودہ سیاسی مفاد اب اسی کیمپ کی حکمت عملی سے وابستہ ہے، جس کی قیادت اعتزاز احسن اور بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے لیے یہ اس کی بقا کی جنگ ہے۔ اگر متحدہ اپوزیشن، جس کی قیادت اس وقت پیپلزپارٹی کر رہی ہے، نوازشریف حکومت کو گرانے یا کمزور کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہے، تو اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جائے گا، جس کا بالواسطہ طور پر آصف علی زرداری ہی کو فائدہ ہو گا۔ آصف علی زرداری کے لیے پیچھے ہٹنے کی کوئی راہ نہیں۔ اس مرحلہ پر اگر وہ پیچھے ہٹتے ہیں، تو اس کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کو جو نقصان ہو گا، وہ تو ہو گا ہی، پنجاب میں بلا ول بھٹو زرداری کی سیاست کا ستارہ ابھرنے سے پہلے ہی ڈوب جائے گا، جو آصف علی زرداری کبھی نہیں چاہیں گے۔ شاعر نے کہا تھا،
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی