پاناما لیکس میں نئی بات کیا ہے

کیا ہم 1990ء کی دہائی سے یہ نہیں جانتے کہ وزیراعظم کی لندن میں املاک ہیں؟


Babar Ayaz May 18, 2016
[email protected]

کیا ہم 1990ء کی دہائی سے یہ نہیں جانتے کہ وزیراعظم کی لندن میں املاک ہیں؟ وزیراعظم کے صاحبزادے ایک طویل عرصے سے لندن میں پراپرٹی کا کاروبار کر رہے ہیں؟ وزیراعظم اور ان کے بیٹوں نے جبری جلا وطنی کے دوران سعودی عرب میں اسٹیل مل لگائی تھی؟ مشرف حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ثابت نہ ہو سکا کہ نواز شریف اور ان کا خاندان کالے دھن کو سفید کرنے میں ملوث تھا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ نظام میں اس کی قانونی گنجائش تھی؟ اس خاندان نے جاتی اُمرا کا محل، آمدنی کا ذریعہ ظاہر کیے بغیر تعمیرکیا تھا؟ اور کیا ہمیں پتہ نہیں کہ اس خاندان کی طرز زندگی، ان کی ظاہر کردہ آمدنی اور اداکردہ ٹیکسوں سے مطابقت نہیں رکھتی؟

ہمیں سب کچھ معلوم تھا ۔ یہ بات درست ہے کہ عام آدمی اس بارے میں نہیں جانتا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کاروبار کیسے کیا جاتا ہے یا مہنگی جائیدادیں کس طرح خریدی جاتی ہیں؟ اور عام پاکستانی کو واقعی یہ معلوم نہیں تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں امیر اور ہوشیار لوگوں کی طرف سے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر کے کس طرح ٹیکسوں سے بچا جاتا ہے؟ میڈیا پر ہونے والے بحث و مباحثے کی وجہ سے اب انھیں وہ سب کچھ پتہ چل گیا ہے جس کا علم اسٹیبلشمنٹ اور کاروباری اشرافیہ کو برسوں سے تھا۔

شریف خاندان وہ واحد خاندان نہیں ہے جس نے ملک سے باہر دولت اور جائیداد بنائی ۔ متعدد دیگر سیاسی رہنما، بیوروکریٹس اور کاروباری شخصیات بھی پاکستان میں ظاہرکیے بغیر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کرتی رہی ہیں۔ جب2007ء میں آصف زرداری کو اقتدار دیا گیا توکیا ہم ان کے ماضی سے آگاہ نہیں تھے؟ کیا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستان سے باہر ان کی جائیدادیں اور کاروبار ہیں؟

حسین نواز نے حال ہی میں بڑے دوستانہ ماحول میں دو انٹرویوز کے دوران یہ بتانے کی کوشش کی کہ انھوں نے اپنے لندن کے کاروبار کے لیے رقم کہاں سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے یہ بات پاناما انکشافات سے کچھ ہی عرصہ قبل کی تھی۔ ان کے انٹرویوز میں بہت سے سوالیہ نشان تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ شریف خاندان نے اس مرحلے پر بیرون ملک اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے کی وضاحت کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ یوں لگتا ہے کہ انھیں پہلے سے پتہ چل گیا تھا کہ پاناما انکشافات میں کیا کچھ بتایا جانے والا ہے اور یہ لوگ اپنے خاندان کے خلاف رد عمل کی پیش بندی کرنا چاہتے تھے۔یہاں کچھ بنیادی سوالوں کا ذکرکرنا مناسب ہو گا۔

اول، ہمارے حکمران اپنی ساری جائز یا ناجائز دولت پاکستان میں کیوں نہیں رکھتے اور اس سے بیرون ملک سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں؟ دوئم ، ہمارے لوگ ایسے رہنماؤں کو کیوں منتخب کرتے ہیں جن کے بارے میں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدعنوان ہیں اور انھوں نے بیرون ملک کاروبار پھیلا رکھے ہیں؟ سوئم، جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو اس وقت ان کی بدعنوانی اور نظروں سے اوجھل بیرون ملک سرمایہ کاری پر شور کیوں نہیں مچایا جاتا؟ اور چہارم، اگر یہ سب کچھ نیا نہیں ہے تو پھر اس پرآج کیوں اتنا شور مچایا جا رہا ہے؟

بیرون ملک کاروبار میں پیسہ لگانا جرم نہیں ہے، بشرطیکہ یہ سب کچھ قانونی طریقے سے ہو ۔ یہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ بیرون ملک کاروبار میں جو پیسہ لگایا گیا وہ جائز طریقے سے کمایا گیا تھا اور اسے ٹیکس ادا کرنے کے بعد بینکاری کے مروجہ ضابطوں کے مطابق بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ یہ بات بھی دیکھنی چاہیے کہ اس سرمایہ کاری سے جو منافع کمایا جائے وہ واپس پاکستان میں آئے اور ملک کی زر مبادلہ کی آمدنی میں شامل ہو۔ اگر اس قسم کی سرمایہ کاری سے پاکستان کو کوئی منافع حاصل نہیں ہوتا تو پھر اس کا سیدھا سا مطلب ملک سے سرمایہ نکالنا ہے اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو اپنی مارکیٹس پر اعتماد نہیں رہتا۔

مگر کسی ملک کی اعلیٰ قیادت کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ جب وہ سرمایہ نکال کر باہر لے جاتے ہیں تو اس ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں خود اپنے ہی ملک پر اعتماد نہیں ہے۔ پاکستان جیسے سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم ملکوں میں سرمائے کے نکلنے کا رجحان ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کی دولت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں انتقامی کارروائیوں کا کلچر عام ہوتا ہے ، جب بڑے سیاست دانوں سے اقتدار جبراً چھینا جاتا ہے تو انھیں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ بہت سی صورتوں میں یہ لوگ اپنے خاندان کے کچھ ارکان کو بیرون ملک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنا پیسہ ملک سے باہر رکھتے ہیں اور ان اخلاقی قدروں کا خیال نہیں کیا جاتا، جنھیں متوسط طبقہ اہم سمجھتا ہے۔

لوگ ایسے لیڈروں کو کیوں منتخب کرتے ہیں جن کے جائز اور ناجائز ذرایع آمدنی کے بارے میں انھیں اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے ؟ ہمیں یہ بات ماننی چاہیے کہ ہم ایک نیم قبائلی اور جاگیر دار معاشرے میں رہتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے متوسط طبقے کو چھوڑ کر شہری سماج میں بھی قبائلی اور جاگیردارانہ قدریں موجود ہیں۔ نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل یہ ہوتے ہیں کہ پولیس کے ظلم و زیادتی کو روکا جائے، بند گٹرکھل جائیں اورکچرے کے ڈھیروں سے نجات ملے۔ ان لوگوں کو نچلی سطح پر بد عنوانی پر زیادہ تشویش ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی روزمرہ زندگی زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے یا محنت مشقت سے پیٹ پالنے والے لوگوں کی اکثریت اپنی فوری ضروریات کی تکمیل چاہتی ہے۔ اگر سیاستدان وقتاً فوقتاً ان کے کام کرتے رہیں تو انھیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ حکمران کس طرح سے پیسہ کما رہے ہیں ۔ وہ معاشیات کے ان الجھے ہوئے اصولوں کو نہیں سمجھتے کہ بدعنوانی کی بہت زیادہ شرح، انسانی ترقی کی شرح کو نیچے لے جاتی ہے۔

میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ بہت سے لوگ اپنے منتخب نمایندوں سے ناجائز کاموں میں مدد کے لیے کہتے ہیں۔بیشتر بزنس مین جو سیاست دانوں کی کرپشن پر انگلی اٹھاتے ہیں، وہ لوگ ہیں جو انھیں رشوت دیتے ہیں۔ مڈل کلاس بیوروکریسی اور بڑے کاروباری لوگوں کی مدد کے بغیر، سیاست دان ناجائز طریقے سے پیسہ نہیں بنا سکتے۔ بیشتر ملکوں میں یہی لوگ اپنی مشکوک دولت سے انتخابی مہم کے دوران سیاست دانوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ ان حالات سے اس تیسرے سوال کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ جب بالترتیب2007ء اور 2013ء میں زرداری اور نوازشریف بر سر اقتدار آئے تو اس وقت کرپشن کا معاملہ کیوں نہیں اٹھایا گیا تھا۔

پاناما لیکس کی وجہ سے جو بین الاقوامی انکشاف ہے، پوری دنیا میں امیر لوگوں کی کرپشن توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ بد قسمتی سے شریف خاندان کی ایک دو آف شورکمپنیاں بھی پاناما میں لسٹڈ تھیں، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ انکشافات ایسے وقت پر ہوئے ہیں جب سول ملٹری تعلقات کشیدہ نظرآ رہے ہیں۔اس سے حزب اختلاف، میڈیا اور یقیناً اسٹیبلشمنٹ کو بھی موقع ملا کہ وہ وزیر اعظم پر دباؤ ڈالے۔وزیراعظم اوران کے رفقاء کار نے اس بحران کے ساتھ درست طریقے سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کسی حکمت عملی کا وجود نہیں ہے اور ان کے مینجرز بچگانہ بیانات اور تقریروں کے ذریعے اس صورت حال سے نمٹ رہے ہیں۔ وزیراعظم تناؤکا شکار ہیں کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے خوش نہیں ہے۔

وہ کم سے کم نومبر تک کی مہلت حاصل کرنا چاہتے ہیں جب پاکستان میں ایک انتہائی اہم عہدے کا نازک فیصلہ کرنے کا وقت آ ن پہنچے۔ ماضی میں اس قسم کے تقرر کرنے کے بارے میں ان کا ریکارڈ اسٹیبلشمنٹ کے لیے خوش گوار نہیں ہے۔ ایک نیا قانون بنانے کا کہہ کرحزب اختلاف کےTORs نے بالواسطہ طریقے سے ان کی مدد کی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ زرداری اور شریف کے بارے میں کرپشن کی کہانیوں کو اچھالنے کے وقت میں ایک بات مشترک ہے۔ ان دونوں نے بھارت اور افغانستان سے متعلق خارجہ پالیسی پرکنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نواز شریف کے معاملے میں پاناما لیکس، اُن کو باز رکھنے کے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ موقع ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں